دوتعلیمی نظام اور ذہنی غلامی/محمد سعید ارشد

اگر آپ کو کبھی چڑیا گھر جانے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ نے وہاں ہاتھی کو ضرور دیکھا ہوگا۔ اگر آپ کبھی غور کریں تو ہاتھی کے پاؤں میں ہاتھی کی جسامت کے مقابلے میں ایک پتلی اور کمزور سی زنجیر بندھی ہوتی ہے ۔ ہاتھی کو کنٹرول کرنیوالے اُ س زنجیر کی مدد سے ہاتھی کو اپنے مخصوص مقام پر باندھ کر رکھتے ہیں ۔ آپ کیلئے یہ بات شاید حیرانگی کا باعث ہوگی کہ ہاتھی گوشت کا ایک پہاڑ ہوتا ہے اور ایک ہاتھی کا اوسط وزن چار ہزار سے چھ ہزار کلو کے درمیان ہوتا ہے ۔ ہاتھی ایک چھوٹے سے جھٹکے اُس زنجیر کو توڑ سکتا ہے مگر وہ ایسا نہیں کرتا ۔

اِس کے پیچھے ایک خاص وجہ ہے ۔ چڑیا گھر میں ہاتھی کے بچے کو جب لایا جاتا ہے تو اُسے ایک زنجیر کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے ۔ چونکہ تب ہاتھی جسامت اور وزن کے لحاظ سے اتنا طاقت ور نہیں ہوتا تو وہ اُس زنجیر کو توڑنے کی کوشش کرتا رہتا ہے مگر وہ زنجیرکو توڑنہیں پاتا اوروقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ وہ اس زنجیر کو ناقابل شکست سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ ہاتھی بعد میں جوان ہوکر طاقت ور تو بن جاتا ہے مگر وہ اس زنجیر کو تا حیات اپنے لئے ناقابل شکست ہی سمجھتا رہتا ہے کیونکہ زنجیر اُس کے پاؤں پر نہیں بلکہ اُس کے دماغ میں ڈال دی جاتی ہےاور اِسی کو ذہنی غلامی کہا جاتا ہے ۔

دماغ میں زنجیر ڈال کر کسی کو ذہنی غلام بنا لینے کی یہ روش صرف جانوروں تک ہی محدود ہی نہیں بلکہ انسانوں کو بھی اسی طرح غلام بنا یا جاتا ہے اور بنایا جارہا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں دو قسم کے تعلیمی نظام نافذ العمل ہیں ۔ ایک جدید تعلیمی نظام جس میں سکول ، کالجز اور یونیورسٹیاں شامل ہیں جبکہ دوسر امذہبی تعلیمی نظام جس میں مدارس اور مذہبی تعلیمی ادارےشامل ہیں۔ ہمارے جدید نظام تعلیم میں بچپن سے ہی بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان کر اسے مزید سنوارنے کی بجائے بچوں کے ذہن میں بچپن سے ہی ایک زنجیر ڈال دی جاتی ہے کہ کامیابی کا معیار صرف یہ ہے کہ جو سب سے اچھا رٹا لگا کر زیادہ نمبرز لائے گا وہ کامیاب تصور کیا جائے گا باقی سب کند ذہن ، کم عقل اور نالائق تصور کئے جائیں گےچاہے ان کا ذہن کتنا ہی تخلیقی کیوں نہ ہو ۔

بچپن سے ہی بچوں کو ایک بے مقصد ریس میں لگادیا جاتا ہے جس کا کامیابی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ میٹرک کے بعد سٹوڈنٹس جب کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلہ لیتے ہیں تو زیادہ نمبرز کے ساتھ ساتھ ایک اور بات ان کے ذہن میں بٹھادی جاتی ہے کہ تعلیم اور زندگی کا مقصد صرف نوکری حاصل کرناہے اگر زیادہ نمبرز نہیں لوگے تو اچھی نوکری حاصل نہیں کرپاؤ گے۔ بچپن سے لیکر جوانی تک بچوں کے ذہن میں یہی دو باتیں راسخ العقیدہ کردی جاتی ہے ۔بچے ساری زندگی ان دو باتوں کے علاوہ اور کچھ سوچ ہی نہیں پاتے۔

دنیا بھر میں رائج جدید تعلیمی نظام کا مقصد ایسے سائنسدان اور ریسرچرز پیدا کرنا ہےجو دنیا کودر پیش چیلنجز اور مشکلات کا حل تلاش کرسکیں اور انسانیت کی فلاح کیلئے کام کرسکیں۔ مگر ہمارے تعلیمی اداروں کو مقصد صرف کارپوریٹ مزدور پیدا کرنا ہے جن کی تیاری بچپن سے ہی شروع کردی جاتی ہے تاکہ خام مال میں کوئی کمی واقع نہ ہو اور یہ تعلیمی فیکٹریاں تواتر کے ساتھ بچپن سے ذہنی طور پر تیار کارپوریٹ مزدور تیارکرتی رہیں۔ اب تو یہ مزدور اوور سٹاک ہو چکے ہیں کہ اب انہیں مارکیٹ میں کھپانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہاہے۔

جہاں تک بات ہے مدارس یا دینی تعلیمی نظام کی تو دنیا میں اسلام کے عروج کے ساتھ ہی دینی مدارس یا دینی درسگاہوں کا آغاز ہوگیاتھا ۔ ان دینی درسگاہوں میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ ریاضی ، سائنس، فلسفہ اور باقی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔ مسلمانوں نے جتنی بھی ترقی کی اور دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والی سائنسی ایجادات کی وہ انہیں دینی درسگاہوں میں بیٹھ کرکی۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سےلوگ اپنی علم اور حکمت کی پیاس بُجا نے کیلئے انہیں درسگاہوں کا رخ کیا کرتے تھے۔

مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی شدت پسندی مدارس اور مذہبی درسگاہوں پر حاوی ہوتی چلی گئی ۔ پہلے ایک ایک کرکے مذہب کے علاوہ باقی تمام علوم کو نکال باہر کیا اور بعد میں اپنے مدارس کو صرف اپنے فرقے اور مسلک تک محدود کردیا۔ بچپن سے ہی مدارس کے بچوں کے ذہن میں اپنے فرقے اور مسلک کی تیار کردہ زنجیر ڈال دی جاتی ہے اور انہی صرف ایک ہی نقطہ نظر کا اسیر بنانے کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ انہیں صرف اپنے ہی مسلک اور فرقے کے ماحول کے مطابق تیار کیا جاتا ہے ۔

دوسرے فرقے یا مسلک کی بات سننا تو درکنار بلکہ ان کے قریب جانے سے بھی انہیں روکا جاتاہے۔مدارس سے تیار کردہ یہ طالب علم جب حقیقی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو دو ہی کام کر پاتے ہیں۔ یا تو کسی مسجد کے امام بن کر تھوک کے حساب سے کفر کے فتوے جاری کرتے ہیں یا پھر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر معاشرے کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ آپ لوگوں نے بھی ایسی مساجد دیکھی ہوگی جن میں کسی دوسرے مسلک اور عقیدے کے انسان کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے حالانکہ ہمیں بچپن سے ہی یہ بتایا گیا تھا کہ مسجدیں اللہ کا گھر ہوتی ہے۔

سائنسدان اور ریسرچرزپیدا کرنے کی ذمہ داری ہمارے جدید تعلیمی نظام نے اٹھائی تھی کیونکہ مدارس نے تو کبھی بھی سائنسدان اور ریسرچرزپیداکرنے کا دعوٰی سِرے سے کیا ہی نہیں۔ مگر افسوس ہمارے تعلیمی ادارے سوائے کلرک پیدا کرنے کے کچھ نہیں کر پارہے۔ فارغ التحصیل طالب علم ہاتھ میں ڈگریاں تھامے کارپوریٹ مزدوری کیلئےجس کیلئے انہیں بچپن سے تیار کیا جارہا ہوتا ہے، ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں در بدر خاک چھان رہے ہیں مگر حاصل کچھ نہیں ہو رہا۔ نہ ان کے پاس کوئی ہنر ہیں کہ جسے آزما کر وہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرسکیں۔

اور دوسری طرف ہمارے مدارس کے طالب علم ہیں کہ جو مدارس سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کسی ایک مسجد کو فتح کرلینا اپنی بہت بڑی اچیومنٹ سمجھتے ہیں اور ساری زندگی اپنے محدود علم کی بنیاد پر لوگوں کے ایمان کا فیصلہ کرتے گزاردیتے ہیں ۔دونوں تعلیی نظام ہر سال لاکھوں بچوں کو تیار کرکے حقیقی زندگی میں بیجتے ہیں جن کی ذہن سازی بچپن سے ہی کردی جاتی ہے اور جن کا ملک اور معاشرے کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو پاتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو برائے نام ۔دونوں تعلیمی نظام بچپن سے ہی زنجیریں بچوں کے ذہنوں میں ڈال کر انہیں اپنی فیلڈ کا ایک طرح کا ذہنی غلام بنا دیتی ہیں ۔ جوچند ایک ہمت کرکے ان زنجیروں کو توڑ پاتے ہیں اُن کا شمار انگلیوں پر کیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دونوں تعلیمی نظاموں سےہی فارغ التحصیل طالب علم معاشرے میں اپنا مقام ڈھونڈنے اور اپنا مقام بنانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں اسلئے ملک کی ترقی میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کر پاتے اور ملک کی ترقی کا معکوس سفریونہی جاری رہتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply