جمہوری روایات کا عدم تسلسل /محمد ہاشم

کوئی ایک دہائی پہلے بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی سید عدنان کاکا خیل کی پرویز مشرف کے سامنے مشہور زمانہ تقریر سنی تھی جہاں انہوں نے “جمہوری روایات کے عدم تسلسل” کو ملکی بدحالی کا ذمہ دار ہونے کاذ کر کیا۔ کچی عمر اور کم مطالعہ و تجربے کی وجہ سے تب اس بات کی اہمیت سمجھ نہیں پایا۔ حالات گزرتے گئے ملکی تاریخ کا مطالعہ اور گزرتے سالوں کے مشاہدہ کے بعد علم ہوا کہ یہی وہ نکتہ ہے جس میں  جمہوریت کی بقا اور ریاست کی فلاح کا راز مضمر ہے۔

ہماری ملکی تاریخ میں جہاں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے جمہوریت پر شب خون مارا جاتا رہا ہے وہاں آئینی اداروں بشمول عدلیہ اور سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی سہولیات کے مطابق غیر جمہوری اور آمرانہ اقدامات کو بھرپور تحفظ فراہم کیا ہے۔ چاہے وہ گزشتہ سات دہائیوں کے انتخابات ہوں یا پھر موجودہ دگر گوں حالات، سیاسی جماعتیں اور ادارے فسطائیت کا بھرپور ساتھ دیتی آرہی ہیں چاہے اس میں دباؤ کی مجبوری ہو یا پھر مخالفین سے حساب برابر کرنا ہو۔

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جب صدر منتخب ہوا تو اس کی مدت صدارت میں اس کی شخصیت، غیر سنجیدگی اور بچگانہ حرکتوں سے سنجیدہ حلقے حیران و پریشان رہے۔ وہ آدھی رات کو مبینہ نشے کی حالت میں ٹویٹ کرتا، پریس کانفرنس میں صحافیوں کا تمسخر اڑاتا اور ملاقاتوں میں مضحکہ خیز حرکتیں کرتا۔ ان سب کے باوجود بھی امریکی نظام جمہوریت نے ان کو مدت صدارت پوری کرنے دی اور نئے الیکشن میں امریکی عوام نے گزشتہ تین صدور کلنٹن، بش اور اوبامہ کی طرح دوسری مدت کے لئے صدر منتخب ہونے کی روایت توڑ دی اور ٹرمپ کو دوسری مدت صدارت کے انتخاب میں شکست ہوگئی۔

عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے کی صورتحال دیکھیں تو ان کی حکومت کی مقبولیت آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔ مہنگائی، گورننس اور پالیسوں پر کھلی تنقید ہو رہی تھی۔ جو دانشور حضرات آج عوام کو بے وقوف، نوجوان کو برین واش شدہ اور سوشل میڈیا کو پروپیگنڈا سمجھتے ہیں ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ عمران خان کی مقبولیت کے نیچے آنے کی وجہ بھی یہی سوشل میڈیا کا نوجوان تھا جو پڑھا لکھا اور حالات کو بھانپ لیتا ہے۔ وہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر غلط ان کا اپنا منتخب شدہ یا پسندیدہ لیڈر بھی کرے تو اس کو بھی احتساب اور تنقید کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔ ان ہی دنوں کے مریم نواز کے جلسے دیکھیں تو عوام کی اچھی خاصی تعداد ان کے بیانیہ کے ساتھ کھڑی ہوتی تھی اور طاقت کا توازن منتقل ہو رہا تھا۔

ملکی نظام حکومت کا تسلسل نہ ٹوٹتا تو آج تمام پارٹیاں عوامی عدالت میں برابر کھڑے ہو کے احتساب کے لئے خود کو پیش کرتی اور عین ممکن ہے مسلم لیگ ن “ووٹ کو عزت دو” اور جمہوریت کی بالادستی کے نعرے پر بھرپور ووٹ لیتی۔ لیکن جب ملکی جمہوری نظام کو الٹ کر درجن بھر جماعتوں کے نکاح بالجبر سے بنائی گئی حکومت کے ہاتھ میں ملکی باگ ڈور دی گئی تو انہوں نے ملک کا سوا ستیاناس کیا۔ اپنے کیسز معاف کئے، زاتی مفاد کی پالیسیاں بنائی نتیجے میں مہنگائی اور بے روزگاری ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ گزشتہ دو سالوں اور موجودہ ہونے والی بھرپور زیادتی اور ظلم کو دیکھتے اور سولہ ماہ کی مخلوط حکومت کی ریکارڈ ساز ناکامی کے بعد عوام کا رخ ایک بار پھر سے عمران خان کی طرف ہو گیا۔

ان حالات میں طاقتور حلقے جو عمران خان کو ہر صورت اقتدار سے باہر رکھنا چاہتے ہیں، جمہور اور ووٹ کے سامنے کھلم کھلا کھڑے ہیں۔ عوام اور اداروں کے درمیان اس خطرناک اور افسوسناک حد تک بڑھنے والی خلیج کی وجہ بھی جمہوری نظام کا عدم تسلسل اور پارلیمانی نظام میں مداخلت ہے۔

آج گلگت بلتستان سے لے کر بلوچستان تک لوگ سڑکوں پر ہیں اور مرکز میں ایک کٹھ پتلی حکومت بیٹھی اپنے رہے سہے دن انجوائے کر رہی ہے۔ ملکی نظام کون چلارہا ہے کیسے چلا رہا ہے کچھ علم نہیں، انتخابات قریب آرہے ہیں لیکن ساری دنیا کے سامنے یہ انتخابات ہونے سے پہلے ہی بدنام ہو چکے ہیں۔ عوامی منشاء اور آزادانہ انتخابات کے بغیر اور کسی پولیٹیکل انجینئرنگ سے حکومت بنائے جانے کے خبریں زبان زد عام ہیں۔ ایسے میں اگلے آنے والے سال بھی ہم اس “جمہوری روایات کے تسلسل” نام کی چڑیا کے لئے ترستے ہی رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رہے کہ عوام اور ادارے دونوں کی بقا اور سلامتی ملکی ترقی اور خوش حالی میں ہے اور ملکی خوش حالی جمہوریت کے تسلسل میں ہیں۔پبلک انٹیلیکٹ پہ شک کرنا بند کرنا ہوگا۔ کوئی ادارہ عوام کے بغیر طاقتور نہیں ہے اور کوئی عوام اپنے اداروں کے بغیر محفوظ اور خوش حال نہیں ہو سکتے۔ موجودہ حالات میں عوام اور ملکی اداروں کے درمیان فاصلوں کو مٹانا اور جمہور کو عزت دینا ریاست کی اور پچیس کروڑ عوام کی اولین ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply