وقت کا کام گزرنا ہے/ندیم اکرم جسپال

میں ایک دہائی قبل مسائل کے بوجھ تلے اتنا دھنسا ہوا تھا کہ سانس بھی مشکل سے آتی تھی۔کیا معاشی مسائل کیا ذاتی اور نفسیاتی  ،انبار تھے مسائل کے۔انیس بیس سال کے بچے میں جتنی ہمت ہوتی ہے میری وہ ہمت دو سالہ پردیس کے بھیانک دور نے توڑ کے رکھ دی تھی۔ان دو سالوں میں بےروزگار ہونے سے بےگھر ہونے تک میں سب دیکھ چکا تھا۔
انہی دِنوں ولایت میں کسی دوست کے ہاں گئے تو منڈی بہاؤالدین کے کسی گاؤں کے ایک صاحب ملے۔بات سے بات چلی،تعلق ،رشتے داریاں نکل آئیں۔گپ ذرا تفصیل میں ہوئی تو چاچا جی کو میرے حالات واقعات سے آگہی ہوئی۔اب میں دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ صاحب کہیں گے کہ تُو بڑی ہمت کیتی اے،تیرا بڑا جگرا اے،تیرے نال بڑی زیادتی ہو رہی اے،تُو بڑا مظلوم ایں،مگر میری توقع کے برعکس انہوں نے ایسا کُچھ بھی نہیں کہا۔
بیٹا جی،حوصلہ اور ٹھنڈ رکھو،جس کو سر پہ سوار کر کے بیٹھے ہو یہ محض وقت ہے جو گزر جائے گا،جو تم ساری زندگی سمجھ رہے ہو یہ تو نِری ایک کہانی ہے۔تم کل یہ کہانی سناؤ گے ،کیسے تم سب کُچھ جھاگ گئے تھے۔رو کے گزارنا یا ہنس کے گزارنا تمہارا فیصلہ، وقت تو گزر ہی جائے گا۔
وہ چند لمحے خاموش ہوئے،پھر بولے
میں ڈنکی لائی سی،سن دو ہزار وچ۔
ہم جس کشتی میں آرہے تھے راستے میں وہ خراب ہو گئی۔اس کا کمپاس جواب دے گیا،کسی کو خبر نہیں کہ اب کشتی کس کنارے جا لگے۔کُچھ گھنٹے گُزرے تو کشتی میں کہیں سے پانی آنا شروع ہوگیا۔اب جو کنارے لگنے کی امید تھی وہ بھی جاتی رہی۔تھوڑی دیر میں پانی اتنا جمع ہو گیا کہ مسافروں کے پاس بیٹھنے کی جگہ بھی نہ بچی۔جیسے جیسے پانی اوپر آرہا تھا حوصلے نیچے جا رہے تھے۔اکثریت نے کلمے درود اور ودر وظیفے شروع کر دئیے۔دیکھتے ہی دیکھتے پانی اتنا بھر گیا کہ ہمیں مجبوراً اپنا سامان پھینکنا پڑا،شاید وزن کم ہو تو کچھ سہارا ملے۔پانی کا ایک ایک قطرہ ایسے تھا جیسے وہ کشتی میں نہیں ہمارے حلق میں رُک رہا ہے اور کسی ہی لمحے ہمارا سانس اٹک جائے گا۔
کشتیاں ڈوبنے سے پہلے کشتی سوار مسافروں کی امیدیں ڈوبتی ہیں،امن کی جگہ خوف آ لیتا ہے۔ہم بھی امید چھوڑ بیٹھے،بس موت کو اڈیک رہے تھے۔کتنوں نے آنکھیں موندھ لیں،کتنے خدا کو یاد کر لیٹ گئے،کتنے آسمان کو دیکھ خاموش لبوں سے کُچھ التجا کر رہے تھے،کتنے تھے جن کے چہرے خوف کے مارے سیاہ تھے اور کئیوں کے آنسوؤں سے تر۔ایسے میں ایک جوان تھا،جو مسلسل پانی جھٹ رہا تھا۔میں بھی ہار چُکا تھا،امیدیں دم توڑ رہی تھیں،ایک لمحے کو اس جوان سے آنکھ ملی تو اس نے کہا چاچا مر تے َاج اسی ساریاں جانا،پر میں ہَر کے نہیں مَرنا چاہندا،بِھڑ کے مَرساں۔
اس بات نے ایسی ہمت بخشی کہ میرے ورگے ہارے ہوئے بھی جو شئے ہاتھ آئی اس سے پانی باہر نکالنے لگے۔بار بار کسی کپڑے کو آگ لگاتے،ہوا میں لہراتے،شاید کوئی دیکھ لے۔کھلے پانیوں میں دور تلک بس پانی تھا،گہرا خاموش پانی۔وہاں کون دیکھتا،وہاں رب کی قدرت کے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا۔
رب تو تھا نا،کہیں سے کوئی جہاز نمودار ہوا،اس نے ہمیں اشاروں سے سمجھایا کہ مدد آ رہی ہے۔ہماری مری ہمتیں جاگ گئیں،جہاز والوں نے جیسے زندگی کا پیغام دیا ہو۔کُچھ وقت گزرا،ایک بیڑا آیا،اس نے ہمیں وہاں سے نکال مالٹا ملک کے ساحل پہ جا پھینکا جہاں ہمیں بارڈر کنٹرول والے اڈیک رہے تھے۔
ہم نے موت اتنے قریب سے دیکھی ہے،اس سے بڑی آزمائش یا تکلیف ہو سکتی ہے ؟دیکھو آج سب سے بڑی اذیت میں تمہیں کیسے کہانی کی طرح سنا رہا ہوں۔تم بھی چند سالوں میں یہ کہانی سناؤ گے۔آزمائشوں اور امتحانوں میں نتیجے کون یاد رکھتا ہے؟ بس وہ کردار یاد رہ جاتا ہے جو تم نبھاتے ہو۔جرأت سے مندا وقت گُزارا تو چنگے وقت میں فخر سی جی سکو گے،جو ہار بیٹھے تو کل بھلے وقتوں میں خود سے آنکھیں کیسے ملاؤ گے؟

میرا اس کہانی کے بعد بھی وقت اچھا نہیں آیا،میں سٹوڈنٹ ویزے والا بغیر ڈگری سرکاری نوٹس پہ اس ملک سے نکلا تھا، جو چار پیسے بنائے وہ پاکستان میں ایک فاسٹ فوڈ شاپ میں جھونک دیے۔میرا ہر قدم الٹ پڑتا گیا،آزمائشیں طویل ہوتی گئیں،ایک ایک کرکے  خواب ٹوٹتے گئے۔مگر اس سب کے باوجود اس کہانی نے  مجھے حوصلہ دیئے رکھا،کہیں نہ کہیں سنبھالے رکھا۔وقت کے گزرنے کے اس فلسفے نے زندگی آسان رکھی۔پھر اتنے پاچڑ ہو گئے کہ حالات کی چپیڑیں کھا کے ہنستے رہے۔کتنی بار ہار مان کے بیٹھ جانے پہ دل کیا ہے،مگر پھر یاد آتا یہ گزر تو جانا ہی ہے،کیوں اپنی ہی نظروں میں گرنا ہے؟دنیا کا ہیرو بننے سے پہلے اپنی نظروں میں ہیرو بننا ضروری تھا۔خود کو یہ بتانا ضروری تھا کہ تو بہادر ہے،تو ہارتا نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج میں بھی دس بارہ برس پیچھے دیکھوں تو میرے پاس بھی کہانیاں ہیں جو کبھی اذیتیں تھیں،امتحان تھے،آزمائشیں تھیں۔اگر تب ہار کے بیٹھ جاتا تو آج خود کو کوستا پھرتا،اپنی کہانی کا ہی ولن ہوتا۔انسان نا شُکرا ہے،جلد باز ہے،اس آدم جائے نے ایویں ڈھوڑ اُڑا رکھی ہے۔وقت گُزر جاتا ہے،اور ایسے گزرتا ہے جیسے کبھی وہ وقت تھا ہی نہیں۔ بس گہرے اندھیرے میں ،خوف کے سائے میں کردار ایسا نبھا جاؤ کہ  رہتی حیاتی خود کو شاباشی دیتے گزرے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply