صبحِ کاذب کی کچھ بپھری سوچیں ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسان خود کو اور دنیا کے مظہرِ خارجی کو بطور مادّہ محسوس کر تا ہے، لیکن مادے کی یہ تمام اقسام اپنے اندر جوہرِ توانائی کا راز رکھتی ہیں، جسے حواسِ خمسہ کے ذریعے محسوس نہیں کیا جا سکتا، ایبسٹریکٹ آرٹ ( abstract art ), کی زبان اس جوہرِ توانائی کے صرف بیرونی مظہر کو بیان کر سکتی ہے، مگر اس جوہرِ حقیقی کو فی نفسہ بیان کرنا عقل کی پہنچ سے دور ہے، یہیں سے مختلف مذاہب اور فلسفہ ہائے جات کی کثیر الجہتی آراء سامنے آتی ہیں۔

ہماری قوتِ ادراک آج محدود اس لیے ہے کہ بچپن ہی سے فرد کو اس کی توجہ علیحدہ علیحدہ عناصر پر مرکوز کرنا سکھایا جاتا ہے،
میرا بیٹا بالکل چندا جیسا ہے
کتنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ ہیں
پیر کتنے نازک اور سفید ہیں
یہ تمہارا دُودو (دودھ ) ہے
ارے، برآمدے میں یہ چڑیا دیکھو

ادراک کی تنظیم سازی ( طلال چوہدری والی نہیں) ساری زندگی جاری رہتی ہے، عقل ہر نئے ڈیٹا کو اپنے پہلے سے موجود سانچے میں ڈھال لیتی ہے، یہ سانچہ ہر انسان کی عقل نے اپنا اپنا بنا رکھا ہے ، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ فرد دنیا کو کیسے دیکھتا اور قبول کرتا ہے، مثلا اگر ہم نے انرجی کو نہیں دیکھا تو اس کے وجود کو ماننے میں عقل ہمیشہ رکاوٹ بنے گی، کیونکہ یہ ڈیٹا اس کے پہلے سے بنے سانچے میں فٹ نہیں بیٹھتا، جب تک ٹھوس دلائل سے اسے مطمئن نہ کیا جائے،

عرفاء کا یہ دعوی بھی ہے کہ اگر اوائل عمر سے بچے کو دوسرے لوگوں کے گرد موجود توانائی (aura ) دیکھنے کی تعلیم دی جائے تو آج ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کے گرد توانائی کی اس فیلڈ کو دیکھ سکتا تھا، لیکن چونکہ عقل کے سانچے میں اس چیز کو داخل ہی نہیں کیا گیا اس لیے آج عقل اس سے نابلد اور اسے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔
فرد اپنے ارد گرد موجود دنیا کو کیسے دیکھتا ہے، یہ میکانزم ایک گورکھ دھندا ہے جسے پوری طرح سمجھنا شاید ممکن نہیں، تصور کیجیے کہ چیونٹی اس کائنات کو کیسے دیکھتی ہے ؟ ، چیونٹی جس نے کبھی ستارے نہیں دیکھے، سورج نہیں دیکھا، جنگلات اور پہاڑوں سے ناواقف ہے، کیونکہ اس کی قوتِ بینائی شاید ایک میٹر تک بھی نہیں، اس سے آگے یہ نہیں دیکھ سکتی،

چیونٹی اور انسان اس دنیا کو یکسر مختلف نظر سے دیکھتے ہیں حالانکہ دنیا ایک ہی ہے، اہم ترین سوال یہ ہے کہ دنیا حقیقت میں کیسی دِکھتی ہے؟
ہم چونکہ پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ اس دنیا کو جاننا چاہتے ہیں، ایسے میں کیا ہم اس سوال کو آبجیکٹیو کہہ سکتے ہیں؟

بالکل بھی نہیں، کیونکہ سوال کی بنیاد ” کیسی دِکھتی ہے ” درحقیقت ہماری عقل کا اپنا بنایا سانچہ ہے کہ دنیا کو دِکھنا چاہیے، لیکن بے شمار ایسے جاندار ہیں جو دنیا کو دیکھتے نہیں بس سنتے ہیں، یا سونگھتے ہیں، یا محسوس کرتے ہیں، دنیا ہمیں ایسی ہی دکھتی ہے جیسے ہمارے ادراک کا بنایا سانچہ ہمیں دکھانا چاہتا ہے۔

انسان کا شعور ایک سماجی پروڈکٹ ہے، شعور کی بنیاد اور اس کی پرورش ہمارے ساتھ گزرے سانحات و واقعات اور ہمارے گرد موجود عناصر و رویوں نے کی، جبکہ لاشعور پیدائش کے وقت سے ہی انسان کے ساتھ ہے، شعور تب سامنے آتا ہے جب اردگرد کے ماحول کی تعریف انسانی زبان میں ممکن ہو سکے، لیکن دنیا کا وجود اس لیے نہیں کہ انسان نے اس کا اپنی زبان میں تعارف کرا ،یا سمجھ لیا، دنیا یا کائنات انسان کے اس زبانی تعارف سے کہیں پہلے اور کہیں بلند ہے، لاشعور تعارف کے اس معاملے میں بالکل ” اُمّی ” واقع ہوا ہے، کیونکہ لاشعور یا انسانی روح ہماری سماجی زبان نہیں جانتے، یہ صرف احساسات کی زبان سمجھتے ہیں، پہلے ایک تخیل یا تصور جنم لیتا ہے، بعد میں اسے الفاظ کا جامہ پہنا کر باہر لایا جاتا ہے، یعنی کہ تخیل درجۃ الاولی پہ فائز ہے یہی لاشعور یا انسانی روح کا درجہ ہے، الفاظ کی حیثیت ثانوی ہے یہ شعور کا درجہ ہے ۔

دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جنہیں اجتماعی فہم کی مدد سے الفاظ میں نہیں ڈھالا جا سکتا، اگرچہ آپ انہیں دیکھ، سُن یا پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ایسی تمام اشیاء کو اگر ایک لفظ دیا جائے تو ہم اسے فنون لطیفہ کہیں گے۔

فنونِ لطیفہ کی تعریف میں کیا کہا جا سکتا ہے ؟
“وہ چیز جسے بغیر الفاظ کے سمجھا جا سکے”، اس سے مختصر اور واضح تعریف شاید ممکن نہیں،

روح کی زبان ہم سب جانتے ہیں، کہ یہ ان اشیاء کی زبان ہے جنہیں محبت اور اشتیاق سے تخلیق کیا گیا ہو، کوئی بھی انسان جب اپنی منزل کا تعین خود کرتا ہے اور وہی کام کرتا ہے جو اسے پسند ہو تو ایسا انسان ہی شاہکار تخلیق کیا کرتا ہے، اور یہی فنونِ لطیفہ کا مقامِ تولید ہے۔
آپ آرٹ میں بڑی ڈگری لے کر ایک خوبصورت تصویر بنا سکتے ہیں جو تکنیکی اعتبار سے بالکل مکمل اور ہر خامی سے پاک ہو، لیکن عین ممکن ہے کہ آپ کا یہ ” شاہکار “عوام الناس کی توجہ حاصل نہ کر پائے، کوئی بھی آرٹ، شاہکار تب ہی کہلائے گا جب لوگ کہیں کہ اس میں کچھ خاص ہے، کیا خاص ہے ؟، اس کا جواب ناقدین یا ماہرین ہی دیں گے، عام آدمی اس ” خاص ” کو صرف محسوس کر سکتا ہے، بتا نہیں سکتا۔

معروفِ زمانہ شاہکار، لیونارڈو ڈیوینچی کی پینٹنگ، مونا لیزا کی مسکراہٹ، کو دیکھیے، یہ وہ زبان ہے جسے ہر کوئی محسوس کرتا ہے، الفاظ کی یہاں چنداں ضرورت نہیں، الفاظ کے پاس ایسی طاقت نہیں کہ اس چیز کو کوئی نام دے سکیں جسے فرد اس ہنسی میں دیکھ رہا ہے، کیا دیکھ رہا ہے ؟، یہ بات بالکل ثانوی ہے، ہر شخص کے احساسات انفرادی ہیں، مگر اہم بات یہ کہ وہ اس شاہکار میں کچھ دیکھ رہا ہے، محسوس کر رہا ہے۔
کہنے کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مونالیزا کی مسکراہٹ پُراسرار ہے، پرتجسس ہے، نہ کہتے ہوئے بھی کچھ کہہ رہی ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن الفاظ کبھی بھی اس کی توضیح نہیں کر سکتے کہ یہ تصویر شاہکار کیوں ہے۔مونالیزا کی مسکراہٹ کی پراسراریت صرف ایک پہلو ہے، سینٹ پیٹر برگ کے ایک معروف نفسیات دان ( نام یاد نہیں) نے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ بہت کم لوگوں کی توجہ اس طرف گئی کہ مونالیزا کی مسکراہٹ، مہاتما بدھ کی مسکراہٹ سے کس قدر مشابہت رکھتی ہے۔

اب مہاتما گوتم بدھ کی بابت عمومی تصور یہی ہے کہ وہ زندگی میں ہی نروان کے درجے کو پا چکے تھے، اور معرفت و آگہی ان کے در کی لونڈیاں تھیں، دوسرے الفاظ میں مہاتما کسی قطرے کی مانند ، سمندر کے ساتھ اپنی وحدت کو محسوس کر چکے تھے، بدھا کی ہنسی پہ غور کریں تو اس میں ایک عجیب دلسوزی تو ہے لیکن عشق و شغف کی کوئی آگ اس میں دکھائی نہیں دیتی، اگرچہ سکون و لطف کی ایک ایسی کیفیت ان کے چہرے پہ عیاں ہے، جیسے وہ ابدیت کو اپنی روحانی نگاہ کے پیمانوں سے ناپ رہے ہوں،

یہ بات طے ہے کہ مہاتما بدھ کی مسکراہٹ کو پہلی دفعہ دیکھنے والا حیرت اور تجسس کے ملے جلے احساسات سے سرشار ضرور ہوتا ہے، ایسا شاید اس لیے ہے کہ اُن کی مسکراہٹ اس قطرے ( فرد ) کو کسی بھولے بسرے سمندر کی یاد دلاتی ہو، اور ایسی کوئی بھی یاد جو ماضی کی وحدت کو سامنے لائے ، وہ انسانی روح کے حساس تاروں پر چوٹ کرتی ہے ( عشقِ مجازی کا تجربہ رکھنے والے افراد بھی اس کیفیت کو سمجھتے ہیں)،
حادثہ یہ ہوا کہ انسان کی سماجی زبان کے ترقی کرنے سے لاشعور یا روح کی زبان کمزور تر ہوتی چلی گئی، انسان نے اہنے مادّی فائدے کیلئے عقل کی زبان کو ترجیح دی اور پروان چڑھایا، نتیجے میں اس زبانِ عقل نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت پر مکمل قابو پالیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

عقل بظاہر اپنے انتخاب میں آزاد ہے لیکن قصدِ خارجی پر اس کا کوئی قابو نہیں، روح اپنی شناخت قصدِ خارجی کے ساتھ محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کے پاس وہ آزادی نہیں اسی لئے یہ کسی کٹی پتنگ کی طرح زمانِ بیکراں میں بھٹکتی رہتی ہے، آزاد رہتے ہوئے قصدِ خارجی پر قابو پانے کیلئے عقل اور روح کا ” ایک پیج ” پر ہونا ضروری ہے۔
انتہائی محنت طلب مشقت کے بعد عقل نے اپنا آپ منوا لیا ہے، اور کائنات کے ایک فیصد سے بھی کم حصے (مادّے ) پر روزبروز قابو پاتی چلی جا رہی ہے، لیکن فہم و دانش کی اس طویل مشقت کے نتیجے میں کائنات کا ننانوے فیصد سے زیادہ حصہ اپنے تمام اسرار رموز سمیت اس کی نظروں سے اوجھل ہو رہا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply