ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی،اولمپین راؤ سلیم ناظم سے خصوصی انٹر ویو

سلیم ناظم صاحب پاکستان ہاکی کا ایک اہم نام جن کے نام کے ساتھ ہمیں ہاکی کی تاریخ کا روشن دور یاد آ جاتا ہے۔ ہاکی جہاں ہمارا قومی کھیل ہے وہیں پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پاکستان کے پاس ہاکی کے چار ولڈ کپ ہیں۔ دنیا میں کسی اور ملک کے پاس یہ اعزاز نہیں ہے۔ سلیم ناظم صاحب بھی اسی دور میں ہاکی کھیلے۔اولمپکس کھیلے اور اس ٹیم کا حصہ رہے۔جن کے سینو ں پہ جیت کے یہ تمغے پاکستان کی شان بن کر سجے ہوئے ہیں۔
پہلے تو یہ کہ جس دور میں ہم پروان چڑھ رہے تھے۔ اس دور میں بڑوں کو نام سے یا صاحب لگا کر مخاطب نہیں کیا جاتا تھا۔ چاچا جی کہا جاتا تھا۔ اس لئے ہماری تربیت کا مان رکھ لیجیے  ہمیں چا چاجی کہنے کی اجازت دیجیے، کہ اس کے بنِا ہم یہ انٹرویو نہیں کر سکتے۔
اس انٹرویو کے لئے میری معلومات چونکہ خاصی کم تھیں۔ کیونکہ ہم کھیل کے شعبے میں اتنے ہی ماہر ہیں،جتنا بندر کے ہاتھ میں ہتھوڑا۔ چنانچہ ہم نے چاچاجی سے انٹریو سے قبل وقت لیا جس کے لئے ہم ان کے تہہ دل سے ممنون ہیں۔ ان کامختصر سا تعارف، اس کے بعد ان سے کیا ایک اہم انٹرویو۔

سلیم ناظم نیشنل بنک سے بطور وائس پریذیڈنٹ ریٹائر ہو ئے۔ ہاکی تو کھیلی لیکن اس کے بعد پاکستان ہاکی فریڈریشن سے بطور جوائٹ سیکریٹری منسلک رہے۔ ایشین ہاکی فیڈریشن کے چیئرمین رہے۔ بطور سپورٹس ایڈوائزر حکومت پاکستان کے لئے بھی اپنی خدمات پیش کیں۔ اور پاکستان سپورٹس بورڈ سے بھی منسلک رہے۔ گویا کھیل سے منسلک ہر ہر شعبہ سے وابستگی نے ان کی ذات کو گوہر نایاب بنا دیا۔

جیسا کہ ہم نے موجودہ اولمپکس میں تمام کھیلو ں کی کارکردگی دیکھتے ہو ئے ایک سوال کیا تھا کہ اگر  ایسا اولمپین آ پ کے سامنے آ جائے جو سونے کا تمغہ سینے پہ سجا کر لایا  ہو تو؟ہمیں جو  جواب ملا اسی سے آغاز گفتگو کرتے ہیں۔

رابعہ۔ہم نے پہلے اولمپکس کیسے جیت لئے؟
سلیم ناظم۔پہلا اولمپک روم میں 1960 میں ہم نے جیتا، پھر1968 میں میکسیکو میں جیتا،پھر1984 میں تیسرا اولمپک لااینجلس امریکہ میں جیتا۔ پاکستان واحد ملک ہے جس نے تین اولمپک جیتے ہیں۔ دوسرے ملک ہالینڈ، جرمنی ہیں۔ لیکن تین اولمپکس جیتنے کا اعزاز ابھی تک کو ئی توڑ نہیں سکا۔ یہ اعزاز تاحال صرف پاکستان کے پاس ہے۔ یہ اولمپک ہم نے کیسے جیتے؟
ظاہر ہے کسی بھی ٹورنامنٹ کو جیتے کے لئے محنت درکار ہو تی ہے۔ آ پ کی Dedication ہے، Devotionہے۔ پلاننگ ہیں Strategy ہے، میرے سمیت اس وقت کے جو لوگ بھی تھے۔جن میں بریگیڈیئر منظو رحسین عاطف،نور خان،ان کا ذکر کر نا ضروری سمجھتا ہو ں کہ ان کے بغیر ہماری جیت ناممکن تھیں۔ کھلاڑیوں کی محنت اپنی جگہ پہ، لیکن ان کی دلچسپی ان کی محنت، ان کی پلاننگ،اس کا حصہ تھی۔اس طرح ایک ٹیم ورک سے کوئی کھیل جیت تک پہنچتا ہے۔

رابعہ۔ ہاکی میں پاکستان اولمپکس گولڈ میڈل ہولڈر ہے۔ کیا اس وقت حکومتوں کا کھیلوں کی طرف رحجان تھا؟
سلیم ناظم۔ہمارے ملک میں ایک تو یہ بد قسمتی ہے کہ جب بھی کوئی نئی حکومت منتخب ہو کر آ تی ہے۔ اس کی پہلے ہی دن سے ہم ٹانگیں کھنچناشروع ہو جاتے ہیں۔ پہلے اس کے الیکشن کو نہیں مانا جاتا۔ مختلف قسم کے پروٹیسٹ شروع ہو جاتے ہیں۔ان کی جومثبت منصوبہ بندی ہو تی ہے۔ اس میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ بلز پاس نہیں ہو نے دیے جاتے۔ جس کی وجہ سے حکومت ظاہر ہے حکومتی مسائل سے نبرد آزما ہو تی رہتی ہے۔ لہذاکھیلو ں کی طرف زیادہ رحجان نہیں ہو پاتا۔
حاضر حکومت کے حالانکہ وزیر اعظم خود کرکٹ کے لیجنڈ کھیلاڑی رہے ہیں۔ سپورٹس میں رہے ہیں۔ اس کے باوجود کھیلوں کی طرف زیادہ رحجان نہیں ہو سکا۔ ان کی ایک اپنی سوچ تھی کیونکہ وہ فارن میں کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔لیگز  کھیلتے رہے ہیں، انہو ں نے اس طرز پہ یہا ں پہ کھیلو ں کو چلانے کی کوشش کی،جو کہ یہاں کے ماحول کے مطابق مناسب نہیں ہے۔

رابعہ۔پوری دنیا میں کسی بھی کھیل کو نئی نسل میں زندہ رکھنے کے جذبے کو حکومتیں کتنی اہمیت دیتی ہیں؟
سلیم ناظم۔یہ پہلے ہی سوال کا حصہ بن جاتا ہے کہ نئی نسل کے لئے حکومت کو ئی واضح پلان سامنے نہیں لا سکی، کہ وہ کھیلوں کی طر ف مائل ہوں۔ پہلے جو کھیلوں کے لئے رعایتی نمبر دئیے جاتے تھے کہ جب کالجز، سکول میں، یونیورسٹیز میں صوبائی سطح پہ ضلعی سطح پہ داخلے ہو تے تھے تو کھلاڑیوں کو وظائف دئیے جاتے تھے۔ وہ بھی تقریباً ناپید ہو چکے ہیں۔ کھلاڑیوں کے ایجوکیشنل داخلے میں بھی پہلے جیسی بات نہیں رہی۔اس لئے بھی ہمارے ملک میں کھیلو ں کا رحجان کم ہو تا جا رہا ہے۔

رابعہ۔ سرموجودہ اولمپکس میں پاکستان کی تاریک کارکردگی کی کیا وجو ہات ہو سکتی ہیں؟
سلیم ناظم۔ موجودہ اولمپکس میں بھی وہی بات ہے حکومت کی عدم دلچسپی، پھرفیڈریشنز،جن کے کھلاڑیوں نے اس میں حصہ لینا تھا،ان کی نااہلیت، وہ پیسوں کا صحیح استعمال نہیں کر سکے۔ بعض جگہ تو یہ بھی سننے میں آ تا ہے کہ کھلاڑیوں کے پیسے ان پہ خرچ نہیں ہو تے۔اور وہ عہدے داران کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ اس صورت ِ حال میں ہم اچھی کارکردگی کی توقع کھلاڑی سے کیسے کر سکتے ہیں۔

رابعہ۔بچوں کارحجان کھیلوں کی طرف کیسے کیا جا سکتا ہے؟
سلیم ناظم۔یہ بہت ہارٹ ٹچنگ سوال ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں کی بہت زیادتی ہے، محکمہ تعلیم کی بہت زیادتی ہے کہ انہوں نے ایسے سکولوں، کالجوں، یو نیورسٹیوں کوا ین او سیز جاری کئے ہو ئے ہیں۔ جن کے اپنے میدان نہیں ہیں۔حالانکہ سکول کالج وہ ہو تے تھے جن کی اپنی ایک بڑی گراؤنڈ ہو تی تھی۔جہاں ریسیں  ہو تی تھی، تفریح کا پیریڈ ہو تا تھا تو بچے جو کھلا ڑی ہیں یا نہیں ہیں، ان کے پاس جسمانی ورزش کے لئے اپنی ایک جگہ ہو تی تھی۔ کوئی فٹ بال کھیل رہا ہو تا تھا، کو ئی کرکٹ کھیل رہاہوتا تھا۔ کبھی ویسے بھاگ دوڑ  ہو رہی ہو تی تھی۔ اب بچہ گھر کے کمرے سے نکلتا ہے اور سکول کے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ اس طرح سے کھیلو ں میں رحجان پیدا نہیں کیا جا سکتا۔

رابعہ ۔ سر آپ نے بین الاقوامی سطح تک ہاکی کھیلا، یہاں تک پہنچنے کے لئے،آ پ اپنے دور میں کتنا وقت پریکٹس کو دیتے تھے؟
سلیم ناظم۔ کسی بھی کھیل میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے کے لئے آ پ کو عام کھلاڑی کی نسبت زیادہ محنت کر نی پڑتی ہے۔ اور میں سمجھتا ہو ں کہ ہاکی جیسے کھیل کے اولمپک کھلاڑی بننے کے لئے کم از کم دن میں سات گھنٹے آپ کو اس کے لئے Devotکرنا پڑتے ہیں۔ اس میں فزیکل مارننگ ٹریننگ، پھر Skillٹریننگ ہے، شام میں آ پ نے کمبائین ٹریننگ کر نی ہے۔ پریکٹس کرنی ہے، ٹیم میچ کھیلنا ہے،تو اس طرح تقریبا ً سات گھنٹے پہ محیط ٹریننگ آ پ کو جاری رکھنی پڑتی ہے۔

رابعہ۔”پڑھو گے لکھو گے بنو کے نواب،کھیلو گے کودو گے، ہو گے خراب”اس کہاوت کے بارے میں آ پ کی کیا رائے ہے؟
سلیم ناظم۔ میں بالکل اس کو ٹیشن سے متفق نہیں ہو ں۔ الحمداللہ میں نے خود بھی گریجویشن کی، ایشن گیم بھی کھیلی، ولڈکپ بھی کھیلا، اولمپکس بھی کھیلے اور ٹیم کی مینجمنٹ کا بھی حصہ رہا،اورفیڈریشن کا حصہ بھی رہا۔اور نیشنل بینک سے بطور پریذیڈنٹ ریٹائر ہوا،تو ایسی بات نہیں ہے کہ کھیل سے آ پ خراب ہو جاتے ہیں۔ہمارے پاس ایسی بھی مثالیں ہیں کہ جن  کے کھیل میں اتنی ہائی سکیلز حاصل کر لیں کہ پڑھائی ان کے سامنے ناپید رہی۔ اس لئے اس کہاوت سے میں ہر گز اتفاق نہیں کرتا۔

سوال۔ گھر سے کھیلنے کے لئے آپ کو کتنی سپورٹ تھی؟
سلیم ناظم۔ یہ سوال میرے لئے بہت Discouraging ہے۔ کیونکہ میرے والد صاحب کی آل انڈیا کے وقت کی گریجویشن تھی ان کا یہی کہنا تھااور ان کی یہی سوچ تھی کہ میری اولاد زیادہ سے زیادہ پڑھائی کی طرف مائل ہو۔لہذا مجھے کھیلنے کے لئے گھر سے اتنی زیادہ سپورٹ نہیں تھی۔ جب میں نے میٹرک کیا اور میٹرک میں سات ساڑھے سات سو کے قریب نمبرز تھے لہذا میرے بڑے بھائی جو اس وقت آ رمی میں کپٹن تھے اور مشرقی پاکستان میں قومی فریضہ انجام دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کو ڈاکٹر بنایا جائے۔ چونکہ میرا کھیل کی طرف رحجان تھا۔اس لئے میں نے کھیل کو ہی اولیت دی۔ اور الحمد اللہ میں اولمپک پلیئر بھی بنا اور گریجویشن بھی کی۔

رابعہ۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس ہاکی کے چار ولڈ کپ اور تین اولمپکس میڈل ہیں۔اب ہاکی ٹیم دنیا میں تیسرے نمبر پہ بھی دکھائی نہیں دیتی۔اسکی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
ہاکی کا ڈکلائین، ہمارے نگران جو گزشتہ  پانچ دس سال سے آ رہے ہیں وہ اس Caliberکے نہیں ہیں جس Caliberکے پہلے لوگ ہوا کرتے تھے۔ جس میں،میں نے ذکر کیا ائیر مارشل نورخان، بریگیڈئیرعاطف مرحوم بریگیڈئیرحمیدی مرحوم، کرنل مدثر اصغر، ڈاکٹرغلام رسول مرحوم،ائیر مارشل عمر فاروق، ائیر مارشل کے ایم اظہر، جنرل کے مظہر، جنرل موسی، یہ وہ لوگ تھے جنہو ں نے ہاکی کے عروج میں اپنا کردار ادا کیا۔ اب لوگ اس لیول،اس صلاحیت کے نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا ہا کی کا ڈکلائین ہوا۔ اور ہم آ ج اٹھاویں نمبر پہ ہیں۔

رابعہ۔کیا ہم دوبارہ کبھی ہاکی کو اس مقام پہ لاسکتے ہیں؟
سلیم ناظم۔ ہاکی میں دوبارہ اس مقام پہ  آ نا، یہ بہت ناممکن سی بات ہے۔ ہمت مرداں مددِ  خدا تو ہے اس کے لئے ہمیں بہت ایمان داری کے ساتھ،بہت Dedication کے ساتھ، بہت Devotion کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ فنڈزکھلاڑیوں پہ خرچ کر نا ہو نگے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو، کارپوریٹ سیکٹر کو اس میں لانا ہو گا۔ اور پاکستان میں کرکٹ کی طرح لیگزبھی کروانی ہو نگی۔اگر اس طرح کریں تو ہم پانچ چھ سال میں  ٹاپ چھ سے آ ٹھ تک آ سکتے ہیں۔ اور جب ٹیم چھ سے آٹھ میں آ جاتی ہے تو پہلے تین میں آ نا آ سان ٹارگٹ ہو جاتا ہے۔

رابعہ۔کچھ افراد کا خیال ہے کھیل ایک خاص وقت تک آ پ کا ساتھ دیتا ہے اس کے بعد سماجی طور پہ موجود ذمہ داری ایک کھلاڑی کے لئے مشکل حالات پیدا کر سکتے ہیں؟
سلیم ناظم۔ سماجی مشکلات بالکل پیدا ہو تی ہیں اور اس وقت پیدا ہو تی ہیں جب آ پ کھیل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس وقت اس کھلاڑی کی ساری خدمات اس ملک میں بُھلادی جاتی ہیں۔ کوئی آدمی انفرادی حیثیت میں اپنا گیم کر لے تو کر لے۔ ہمارے سامنے بے شمار مشکلات ہیں۔ گذشتہ ماہ ہمارے ہاکی کے ایک کھلاڑی پرائڈ آ ف پرفارمنس نوید عالم کی کینسر سے وفات ہو ئی۔ غازی محب کی کینسر سے وفات ہو ئی۔اور بے شمار ایسی مثا لیں ہیں لیکن حکومت کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی اور آج تک کوئی ایسی پالیسی واضح نہیں کی جا سکی کہ کھلاڑیوں کا مستقبل کیا ہو گا۔
ان کے بھی گھریلو مسائل ہیں،ان کے جوجسمانی کنڈیشن کے مسائل ہو تے ہیں۔ ان کے لئے خصوصی طور پہ کوئی فنڈ بنایا جائے، کوئی وظیفہ مقرر کیا جائے۔ انتہائی شرم ناک بات ہے ہمارے انیس سو ساٹھ کے ایک کھلاڑی (میں ان کا نام نہیں لینا چاہو ں گا کہ میں سمجھتا ہو ں ان کی تضحیک ہو گی۔)زندہ ہیں اور ان کی عمر نوے برس کے قریب ہے۔ انہیں ابھی پاکستان سپورٹس کی طرف سے پانچ ہزار وظیفہ دیا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اولمپک کھیلوں کی جو معراج ہے۔اس کے مطابق یہ ان کی شدید  تضحیک ہے۔

رابعہ۔ کیا فارن کوچیز کے بنا ہم کسی بھی کھیل میں آ گے بڑھ سکتے ہیں؟یا صرف ہاکی کی بات کی جائے تو کسی بین الاقوامی کوچ کا تجربہ کتنا بہتر ثابت ہوا؟
سلیم ناظم۔ اب چونکہ ہاکی کو فارنرز اپنے پیٹرن پہ لے گئے ہیں تو فورن کوچ تو اس کا حل نہیں ہے۔ اس کا حل یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ فورن کوچ کو یہاں بلا یا جائے وہ ہمارے لوکل کوچیز کو اپنے پیٹرن پہ ٹرینڈ کرے۔اور ہمارے لوکل کوچیز سکول کالج اور ضلعی سطح پہ،جہا ں نرسری فیڈنگ ایریا ہیں۔ ان کو وہا ں بھیجا جائے تو یہ کمی پوری ہو سکتی ہے۔

رابعہ۔آپ نے بھی کوچنگ کی، بحیثیت کوچ ملک میں موجود ہاکی کے کھلاڑیوں کے حوالے سے آ پ کیا رائے رکھتے ہیں؟نئی نسل میں کتنا پو ٹینشل ہے؟
سلیم ناظم۔ کوچ کی حیثیت سے میں نئی نسل سے کوئی اتنا زیادہ مطمئن نہیں ہو ں۔ کیونکہ نئی پود میں وہ Devotionنظر نہیں آ تی۔ جو پہلے کھلاڑیوں میں تھی۔ جیسے شہناز شیخ،اختر رسول،سمیع اللہ، منظور الحسن، منظور جونیئر، ان کھلاڑیوں میں Personal Devosion Personal Interest تھا، Personal skillsکے بارے میں وہ جتنے سنجیدہ تھے۔ آ ج کے کھلاڑیوں میں یہ خوبیاں نظر نہیں آ تیں۔

سوال،1976کے اولمپکس کی کچھ نا قابل فراموش یادیں؟
سلیم ناظم۔ اس کا ایک ناقابل فراموش واقعہ یہی ہے کہ ہم لوگ سیمی فائنل میں ہار گئے۔جس کی ہمیں بالکل تو قع ہی نہیں تھی۔کیونکہ اس ٹیم کے بارے میں یہ رائے تھی کہ یہ دنیا کی ہر اعتبار سے بہترین ٹیم ہے۔ ہماری توقع تھی کہ ہم اولمپک گولڈ جیتیں گے۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے ٹوون سے ہار گئے۔ اس وقت کھلاڑی بہت دلبرداشتہ تھے۔ ایسے میں بریگیڈیئر عاطف نے موٹیویٹ کیا کہ Still there is a Medal،آپ وکٹری سٹینڈ پہ آ ئیں گے،اولمپک ویلیج میں آ پ کا قومی ترانہ گونجے گا اور آ پ کا جھنڈا لہرایا جائے گا This is an Honor to the Country۔ اسے کھلاڑیو ں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اور الحمد اللہ وہ ٹیم دو کھلاڑیوں شہاز شیخ اور صلاح الدین کے زخمی ہو نے کے باوجود ہالینڈ کو تھری ون سے جیت کر، وکٹری سٹینڈ پہ براؤنز کا اعزاز لینے میں کامیاب رہی۔

ایک اور واقعہ جو اپنے والد مرحوم کی نسبت سے شیئر کر نا چاہو ں گا اوران کو اس کا خراج تحسین بھی پیش کرو ں گا۔ کہ جب میں 1975 کا ولڈ کپ کھیلنے کے لئے ملائشیا میں موجود تھا۔میری غیر موجودگی میں پنجاب یو نیورسٹی کی ہاکی ٹیم کا اعلان ہوا تو اس میں مجھے کیپٹن کی حیثیت سے نامزد کیا گیا۔ تب ہم گلبرگ فیصل آباد میں مقیم تھے۔ وہاں چوہدری غلام رسول وڑائچ مرحوم جو خود فیزیکل ڈائریکٹر تھے۔ ان کے پاس والد صاحب مرحوم پاکستان ٹائمز لے کر گئے۔ انہو ں نے کہا کہ آ پ کا بیٹا تو ولڈ کپ کھیلنے گیا ہوا ہے۔ پھریونیورسٹی کی کپتانی کا تو اتنا اہم رول نہیں رہ جاتا۔ والد صاحب نے کہا مجھے اس چیز کی خوشی ہے۔کہ آج میرے بیٹے کا شمار پڑھے لکھے کھلاڑیوں میں ہو گیا ہے۔ کیونکہ یونیورسٹی کا کپتان یا تو گریجویٹ ہو گا یا پوسٹ گریجویٹ ہو گا۔

رابعہ۔ کیا سٹیڈیم کو یونیورسٹی میں بدل دینا ایک مناسب فیصلہ ہو گا۔
سلیم ناظم۔ یہ کو ئی اچھی سوچ نہیں ہو گی۔ کسی بھی کھیل کا سٹیڈیم ہو،اس کا ایک اپنا رول ہے۔ یہ ضرور کہو ں گا کہ اب اتنے بڑے سٹیڈیم بنانے کا رواج نہیں رہا۔اس لئے ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر پہ چھوٹے چھوٹے سٹیڈیم ضرور میسر ہو نے چاہئیں۔ اور سٹیڈیم Multipal Purposeکے لئے ہو نے چاہئیں۔ اسے کسی ایک کھیل کے لئے مخصوص نہیں کر دینا چاہیے۔ اس میں ایتھلیٹک، فٹ بال ہاکی، کئی ان ڈور گیمزہو سکتی ہیں۔ سٹیڈیم کو اس طرح سے ڈزائین کیا جانا چاہیے۔

رابعہ۔ کھلاڑیوں کے لئے سہولیات کے حوالے سے آ پ کی کیا رائے ہے ؟ کونسی سہولیات ہو نی چاہیے؟ کون سی سہولیات تھیں جو اب نہیں رہیں؟
سلیم ناظم۔کھلاڑیوں کے لئے سہولیات کا ذکر کرتے چلیں ،وطن عزیز میں کھلاڑیو ں کو چونکہ کھیلوں کے حوالے سے پہلے ملازمتیں ملتیں تھیں۔ وہ اب نہیں رہیں یہ کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی ہے۔ اب ملازمتیں کونٹریکٹ کی بنیاد پہ دی جاتی ہیں۔ کھلاڑی ا س لئے بھی کھیل کی طرف کم رحجان کر رہے ہیں۔ کیونکہ انہیں پتا ہے نوکری تو ملتی نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہو ں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں، انہو ں نے یہ اعلان کیا کہ کو ئی کھلاڑی کسی بھی کھیل میں، پاکستان کا گرین بلیزر پہنتا ہے اس کے لئے کو ئی ایجوکیشنل کرائٹیریا نہیں ہو گا۔ کسی بھی محکمے میں اس کو سروس دی جائے گی۔ That was the Golden Area of Pakistans Sportsجس میں پاکستان ولڈ  چمپئین  بھی ہوا۔اولمپکس چمپئین بھی ہوا اور دوسرے کھیلوں میں بھی پاکستان نے بہت شاندار کارکردگی دکھائی۔ چونکہ ہمارے ملک میں بھی کھلاڑی اتنے پڑھے لکھے نہیں ہو تے اچھی اور بڑی ویل آف فیملیز سے کھلاڑی نہیں ہو تے۔ میڈیوکر فیمیلز سے آ تے ہیں۔ لہذا میں سمجھتا ہو ں ایسے قوانین کو بحال ہو نا چاہیے۔ محکمے کی ٹیمیں بننی چاہئیں اور کھلاڑیو ں کے روز گار کا مستقل بنیاد پہ بندوبست ہو ناچاہیے تاکہ کم از کم ان کے گھر کا کچن چل سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رابعہ۔چاچاجی اپنے اتنے قیمتی وقت میں سے اتنا سارا وقت دینے کا بہت بہت شکریہ۔کیونکہ انٹرویو بہت طویل رہا اسے پہلے آ پ نے انٹرویو کی تیاری کے لئے وقت دیا۔ اور یہ بے لوث پن اب معدوم ہو تا جا رہا ہے۔ جزاک اللہ خیرا ًکثیرا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس مفصل انداز اور جواز کے ساتھ چاچا جی نے بات کی ہے۔ ہمارے سامنے اولمپکس کی ناقص کارکردگی کی وجوہات تو آ گئی ہیں۔ بنیادی طوطور  پہ کھلاڑی تب ہی ملک کے لئے کھیلےگا، جب اس کی ذمہ داریوں کا بوجھ حکومتیں بانٹنے کا فیصلہ کریں گی۔ اس کے لئے ان کو قانون سازی کرنی پڑے یا پہلے سے موجود قوانین کو بحال کرنے کی طرف توجہ دے۔ اور موجو د ہ عہدے داران پہ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی طریقہ کار ہو۔ تاکہ کھلاڑیوں کے فنڈز ان پہ ہی خرچ ہو ں۔
تنقید برائے تنقید کرنا بہت آ سا ن ہے۔تنقید برائے دلیل و جوازسے اصل صورت حال سامنے آ جاتی ہے۔ کھلاڑی ملک کے لئے اپنی صلاحیتیں قربان کرتا ہے توملک کو بھی اس کے لئے اس کے خاندان کے لئے اپنے وسائل کو بروئے کار لانا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply