میاں وہمی ولد نور جمال/تبصرہ : مسلم انصاری

آپ نے کبھی کسی سے یہ بات سنی ہے “اندر کا بچہ زندہ رکھنا چاہئے!” اگر سنی ہے تو اس کا طریقہ کار شاید معلوم نہ ہو، مگر اندر کے بچے کا زندہ ہونا کچھ حرکات و سکنات سے معلوم ہو جاتا ہے، بے لوث محبت، دوسروں کی فکر، جلد رضا مندی، بھلا برا تسلیم کرنا اور کھلکھلا کر ہنس دینا وغیرہ
توصیف ملک کا ادب اطفال میں ایک چٹخارے دار کردار “میاں وہمی” ہنسی مسکراہٹ پھیلانے والا فرد ہے یا یوں کہیں کہ اندر کا بچہ زندہ رکھنے کی ایک محبت بھری کاوش ہے! ہمارے معاشرے میں رات کو سونے سے پہلے بچوں کو کہانیاں سنانے کا کلچر مر چکا ہے اسے زندہ رکھنے کی یہ دبیز سچی مسکراہٹوں بھری کتاب با معنی ہے!
اس کتاب میں دو، تین اور چار صفحات پر مشتمل وہمی صاحب کی مست مگن 30 کہانیاں ہیں اور چٹکلوں بھرے جملے جیسے “میاں وہمی مارے خوشی کے اچھلے تو ان کا سر چھت پر لگے پنکھے سے جا ٹکرایا” یک دم ہڑپّا ہُرّےےے ماحول بنا دیتے ہیں
میاں وہمی کھسکے نہیں ہیں مگر کبھی کبھار اپنے دُم چھڑک اوہام کی وجہ سے انہیں ٹیبل کلاک کی ٹک ٹک ایٹم بم لگتی ہے، کبھی مری کے سفر پر جاتے ہوئے سردیوں کا سن کر کوئلوں کی بوری پیٹھ پر لاد لیتے ہیں، اپنے قربانی کے بکرے کو موٹا کرنے کا سین بناتے بناتے خدا ترسی میں رسی کھول دیتے ہیں اور بکرے میاں، میاں وہمی کے آنگن سے رفوچکر ہوکر وہمی صاحب کے 49 شانے چت کردیتے ہیں، وہمی جانی کے خراٹوں سے ٹرین میں بچے خوف سے دبکے روتے ہیں تو خود میاں وہمی شکار پر پہنچ کر جان پاتے ہیں کہ اُڑی بابا گولیاں تو گھر میں رہ گئیں اور پھر ادھار کی گولیوں سے شکار کے نام پر کوّے کے پرخچے اڑا دیتے ہیں، کراچی والی ٹرین کی ٹکٹ کرواکر پشاور والی میں ڈیرہ ڈالتے ہیں اور پھر یوٹیلٹی سٹورز کی لائن میں لگ کر اپنی لاٹھی ہوا ہوائی کروادیتے ہیں، شیشے میں اپنا عکس دیکھ کر افلاطون بن جاتے ہیں اور آئنہ پھوڑ کر کہتے ہیں “کوئی ببوا ہمرا نقل اتار رہت تھا، ہم اُوکا پھوڑ دییت ہیں!”
(اوہ سوری یہ زبان میں نے استعمال کی ہے مگر یہ ہنسی مزاح لکھا ایسا ہی ہوا ہے، بولے تو رنگیلا بادام اسٹوریز ہیں اس میں)
میاں وہمی نیند نیند میں چاند گھوم آتے ہیں، راہ گیروں کو چور سمجھ کر پکڑوادیتے ہیں، الیکشن لڑتے ہیں، جیت کر فنڈ اپنے وہم کے نام کردیتے ہیں، اسکول کی افتتاحی تقریب میں حکیمی نسخے الاپنے لگ جاتے ہیں، پر دل کے بہت اچھے ہیں بولے تو مولائی انسان ہیں!
توصیف ملک کا یہ کردار ادب اطفال میں اچھا اور خوبصورت اضافہ تو ہے ہی مگر اسے پڑھنے کے لئے کسی عمر کی قید و بند نہیں ہے کیونکہ توصیف نے تفریح بھری باتوں میں گہری بات کا بیانیہ بھی چھوڑ دیا ہے
جیسے چڑیا گھر کی سیر پر وہ شیر کو دیکھ کر کہتے ہیں : “اگر میں بھی شیر ہوتا تو ان آہنی سلاخوں میں قید ہوتا”
اسی طرح ادھار لینے اپنے ایک جاننے والے کے یہاں میاں وہمی پہنچتے ہیں تو وہ کہتا ہے ادھار کل وصول کیجئے گا کیونکہ وعدہ کل کا تھا اور کل تو کل ہی آئے گا اور میاں وہمی نہیں سمجھ سکے کہ : “کل تو کل ہے اور کل تو کبھی نہیں آئے گا!”
اپنے خوبصورت اور منفرد دیدہ زیب سرورق پر بنے میاں وہمی اپنی کہانیوں سے بالکل میل کھاتے ہیں، اپنے جوش و جذبے کی وجہ سے ہر جگہ پائے جاتے ہیں جیسے کہ منڈیوں میں، چڑیا گھر، پارک، دعوت میں، الیکشنز اور سپاہی کی وردی تک میں!
آپ یہ کتاب ضرور پڑھیں کیونکہ اس سے ملتا جلتا کوئی نا کوئی کردار آپ نے اپنے اردگرد، آس پڑوس، دوست یاروں یا پھر رشتے داروں میں ضرور دیکھا ہوگا
بہت محبت توصیف ملک بھائی اس ہنستے بستے کردار سے متعارف کروانے کے لئے
اور میاں وہمی کے ذریعے ہمیں چسکارہ پوائنٹ کی کھٹی میٹھی کہانیوں تک پہنچانے کے لئے
رہے نام محبت کا
دوستا : کتب بینی کیجیے کیونکہ اس گھٹن بھرے ماحول میں خدا کی قسم کتاب کے سوا کوئی بے ضرر دوست نہیں، کوئی حتمی محبوب نہیں، دل کی پناہ گاہ اوراق کے سوا کچھ نہیں!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply