ابجان: میرا دوست، میرا رہنما، میرا بھائی/ڈاکٹر اشرف لون

وہ ہنگامہ خیز وقت ، بے یقینی کا وقت تھا، وہ سردیوں کا وقت تھا۔ اس ہنگامہ خیز وقت کے بارے میں لطیف کو بہت سی باتیں معلوم تھیں۔ 1970 کی دہائی میں لطیف کی پیدائش ہوئی تھی۔ 80 کی دہائی کے آواخر اور 90کی دہائی کی ابتدا میں ،جب و ہ نوجواں تھے انہوں نے کشمیر کے ہنگامہ خیزحالات کو قریب سے دیکھا۔ ان دنوں وہ سکول میں تھے۔ انہوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کر دی تھی۔ وہ ایک اچھے دائیں ہاتھ کے بلے باز تھے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ کرکٹ کے میدانوں میں لے جاتے اور میں ان کی اور ان کی ٹیم کی حمایت کرتا۔ لطیف ٹیلی ویژن پر کرکٹ دیکھتے بھی تھے اور انہیں کی صحبت میں، میں نے ٹیلی ویژن پر کرکٹ دیکھنا شروع کی اور بعد میں کھیلنا بھی شروع کر دی۔ انہوں نے کرکٹ کی باریکیوں کو سمجھنے میں میری مدد کی۔ وہ پہلے شخص تھے جن سے میں نے آل راؤنڈر کرکٹر اور عالمی کپ 1992 کے فاتح کپتان اور بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں جانا ۔ لطیف صرف دسویں جماعت تک ہی پڑھ سکے تھے لیکن وہ اردو اچھی طرح پڑھتے، لکھتے اور سمجھتے تھے۔ لطیف نماز کے پابند تھے ۔ وہ روزانہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور بہت سی قرآنی آیات معانی کے ساتھ حفظ بھی کر چکے تھے۔
‘‘ عمران خان بہت بڑے اور مشہور کرکٹ کھلاڑی ہیں۔ وہ ایک اچھے بلے باز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے گیند باز بھی ہیں۔انہوں نے پاکستان میں کینسر کے مریضوں کے لیے ایک ہسپتال بھی بنایا ہے۔’’
ابجان نے ایک دن مجھ سے کہا۔
لطیف، جسے ہم پیار سے‘ ابجان ’ کے نام سے پکارتے تھے، نے مجھ سے کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ انہوں نے کسی فرد سے اونچی آواز میں بات کی ہو یا دوسروں کو برا بھلا کہا ہو۔ وہ ایک سادہ مزاج والے نیک انسان تھے جو اپنے بچوں، والدین، بھائی بہنوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ وہ سب کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے ۔وہ اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے پیار کرتے تھے۔ اور ان کے رشتہ دار اور پڑوسی بھی ان سے پیار کرتے تھے۔ ابجان ایک دیانت دار انسان تھے۔

1990 کی دہائی کے اوائل میں، ابجان نے سیب کی کاشت کے بعد سردیوں میں دہلی کا سفرکیا جیسا کہ ان دنوں کشمیر کے اکثرسیب کاشتکار کرتے تھے ۔ دہلی سے ابجان میرے لیے کرکٹ کا بلا Bat)) لے کر آئے۔ ایک نایاب قسم کا بلا تھا جس کی سفید کپڑے سے لیمینیشن کی گئی تھی۔ یہ میرے لیے ایک حیرت انگیز بات تھی اور اس وقت تک مجھے اپنی زندگی میں سب سے قیمتی چیز تحفے میں ملی تھی۔ یہ خوبصورت بَلا میرے حوالے کرتے ہوئے ابجان نے مجھے خبردار کیا:
”بلے کا اچھی طرح خیال رکھیئے گا۔ یہ ایک خاص قسم کا بلا ہے۔ بلے کو کھیل کے میدان پر مت لے جائیں۔ وہاں لڑکے اس کو توڑ ڈالیں گے۔”
میں نے ان کے مشورے کو بہت سنجیدگی سے لیا۔ اور میرے بھائی نے جو بَلا مجھے تحفے میں دیا تھا اس کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کی۔

میں نے بی بی سی (ریڈیو)کا نام سب سے پہلے ابجان ہی سے سنا تھا۔ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے، یہاں کی سیاست اور عالمی سیاست کے بارے میں میں نے سب سے پہلے ابجان سے سیکھا۔ عراق سے لے کر افغانستان تک اور پاکستان سے لے کر ہندوستان تک بھائی لطیف کو بہت سے واقعات کا علم تھا اور کبھی کبھار وہ مجھے بھی ان چیزوں کے بارے میں بتاتے تھے۔ سیاست اور تاریخ میں وہ میرے پہلے استاد اور رہنما تھے۔ انہوں نے مجھے تاریخ پڑھائی۔ انہوں نے مجھے زندگی، اس کی سختی، اس کی خوبصورتی کے بارے میں سب کچھ سکھایا۔

ابجان میرے بارے میں اتنا پریشان تھے کہ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد اور جب میں کشمیر یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویشن کے لیے منتخب ہوا تو انہوں نے پریشان چہرے کے ساتھ مجھ سے کہا:
‘‘آپ فی الحال یونیورسٹی مت جائیے ! آپ وہاں ایڈجسٹ نہیں ہو پائیں گے۔ پتہ نہیں یونیورسٹی اور سرینگر کا ماحول آپ کو راس آئے۔ کچھ دیر انتظار کیجیے اور بعد میں دوبارہ کوشش کیجیے۔”

میں دل ہی دل میں جانتا تھا کہ ابجان نے مجھ سے یہ الفاظ کیوں کہے۔ میں جانتا تھا کہ وہ مجھ سے بے حد پیار کرتے ہیں اور گھر پر میری کمی محسوس کریں گے۔ ابجان جانتے تھے کہ میں یاد ستا (Home Sick) قسم کا فردہوں جسے ہرروز سرینگر میں اپنے گھر کی یاد ستائے گی۔ وہ مجھ کو مجھ سے زیادہ جانتے تھے۔ بعد میں ان کی باتیں اس وقت تقریبا صحیح ثابت ہوئیں جب میں یونیورسٹی پڑھائی کے دوران میں ہی چھوڑنے ہی والا تھا۔ مجھے ہرروز گھر اور والدین باالخصوص اپنی ماں کی یاد ستاتی تھی۔لیکن ابجان تب بہت خوش ہوئے جب دو سال بعد مزید تعلیم کے لیے دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں میرا انتخاب ہوا۔ اس بار انہوں نے مجھے روکا نہیں ۔ انہوں نے مجھے مبارکباد دے دی اور مجھے نیک دعاوں کی ساتھ دہلی رخصت کیا۔
جے این یو میں پڑھائی کے دوران میں ابجان مجھے پیسے بھیجتے تھے، ضرورت پر پیسہ میرے بینک اکاونٹ میں جمع کردیتے تھے۔ اپنا ہر کام چھوڑ کر ابجان نے میرے کام میں میری مدد کی، میرا ہاتھ بٹایا۔ میری سرجری کے دوران بھائی ابجان میرے ساتھ ہسپتال آئے اور میرے ساتھ تب تک رہے جب تک میں گھر جانے کے قابل نہ ہوسکا۔ انہوں نے میرے آرام کی خاطر سب کچھ کیا، تکلیفیں اٹھائیں۔ انہوں نے میرا بڑا خیال رکھا۔ بار بار مجھ سے کہتے تھے:
”دوائی وقت پر لینا۔ کوئی دوائی مت چھوڑنا۔”
میرے پیارے بھائی لطیف نے مجھے یادداشتوں پر مبنی کتاب لکھنے میں میری مدد کی۔ انہوں نے اہم تاریخوں اور کچھ المناک واقعات کی تصدیق میں میری مدد کی۔ میری خواہش تھی کہ سب سے پہلے میں اپنی کتاب ابجان کو ہی دکھاؤں۔ لیکن یہ خواہش اب صرف خواہش ہوکر رہ گئی ہے۔
نوے کی دہائی کی ابتدا میں جب کشمیر کی سیاسی صورتحال نے ایک پرتشدد رُخ اختیار کرلیا۔میرے بھائی ہرشام ہندوستان، پاکستان اور عالمی سیاست کے بارے میں جاننے کے لیے ریڈیو پربی بی سی اردو سنتے تھے۔کشمیر میں خوف کا ماحول تھا۔ نوجوانوں نے بندوق کا راستہ اپنایا تھا۔ ہر طرف ‘آزادی’ کے نعرے گونج رہے تھے۔بندوق، گولی، گرینیڈ، مائن بلاسٹ وغیرہ جیسے جنگی الفاظ ہر ایک کی زبان پر تھے۔ بھائی ابجان نے مجھے افغانستان کی روس کے خلاف لڑائی اور ان کی جیت، مقبول بٹ، ضیاء الحق، صدام حسین اور دنیا کی مختلف سیاسی و دیگر شخصیات کے بارے میں بتایا۔ایک دن میں نے اُن سے کشمیر میں چل رہی شورش، جنگ کے بارے میں پوچھا :
‘‘ جنگجووں نے بندوق اس لیے اٹھائی ہے کہ وہ آزادی چاہتے ہیں۔ لیکن گورنمنٹ ایسا نہیں چاہتی۔ اسی لیے آرمی ملٹنٹوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے’’۔
حالانکہمیں ہر روز جنگجووں کو سڑکوں، چوراہوں پر دیکھتا تھا لیکن مجھے آزادی کی کچھ خاص سمجھ نہیں تھی۔ اتنا سمجھ آتا تھا کہ کشمیر میں کوئی جنگ چل رہی ہے۔ ہر روز کریک ڈاون، چھاپے اور تلاشی اورکراس فائرنگ نے لوگوں کی نیندیں حرام کردی تھیں۔اور حالات میں بہتری کی کسی کو امید نہیں تھی۔
لطیف نے اپنا آبائی ،پیدائش کا گھر شادی کے وقت چھوڑ دیا تھا اور اس طرح وہ گھر جمائی کے بطور دوسرے گھر میں گئے تھے، اپنی اہلیہ کے گھر میں، لیکن ان کی روح ہمیشہ اپنے پیدائشی گھر، اپنے والدین کے ساتھ، اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ رہی۔ وہ تقریباً ہر روز اپنے اصل گھر ، اپنے پیدائشی گھر آتے تھے جہاں ان کے والدین رہتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے ان برسوں، ان دہائیوں کے دوران میں زندگی کا بھرپور لطف نہ اٹھایا ہو، لیکن انہوں نے کبھی کسی چیز کی شکایت نہیں کی۔ وہ خوش تھے اور زندگی کی ہر چیز سے مطمئن نظر آتے تھے۔
ابجان آج بھی کشمیر، ہندوستان اور پاکستان میں ہونے والے سیاسی واقعات کے بارے میں جاننے کے لیے ریڈیو پر بی بی سی اُردو اور وائس آف امریکہ سنتے تھے۔ وہ کبھی کبھار مجھ سے ریڈیو پر سننے والی خبروں، رپورٹوں اور برصغیر و عالمی سیاست پر بات کرتے، لیکن پہلے کی طرح نہیں۔
ابجان کو اپنے کھیل کے دن یاد آتے تھے جب وہ اور دوسرے بھائی حمید صحن میں کھیلا کرتے تھے۔ ان کو ہمیشہ وہ دن یاد آتے تھے ۔وہ حمید کی کمی محسوس کرتے تھے لیکن کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ حمید جن کی پیاری باتیں آج بھی میرے ذہن میں پیوست ہیں، جن کا چہرہ آج بھی میری آنکھوں میں بسا ہوا ہے۔
ابجان کے ساتھ ہر کوئی عزت سے پیش آتا تھا۔ انہیں زندگی سے پیار تھا۔ وہ زندہ رہنا چاہتے تھے اور مجھے ماضی کی سیاست اور اس وقت کی سیاست کے بارے میں مزید کہانیاں سنانا چاہتے تھے، دنیا کے سیاسی حالات پرمجھ سے مزید گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ لیکن خدا کی کچھ اور ہی مرضی تھی۔ 11 جنوری (2024) کی صبح، میں اس دل دہلانے والی خبر سے نیند سے بیدار ہوا کہ ابجان مجھے، اپنے والدین، بھائیوں اور اپنے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کے چلا گئے ہیں۔ وہ اپنے آخری سفر پرنکل چکے تھے۔

کچھ دیر کے لیے میں اس بری خبرپر یقین نہیں کر سکا۔ کچھ لمحوں کی کے لیے میں اپنے حواس کھو بیٹھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے میرے کندھوں پر کوئی پہاڑ گر پڑا ہے۔ میں اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہیں ہو پارہا تھا۔ میں نے اپنے آنسو روک لیے۔ میں دل ہی دل میں خدا سے دعا کررہا تھا کہ یہ خبر جھوٹی نکلے، ایک افواہ ہو۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد ابجان کا بے جان جسم میری آنکھوں کے سامنے تھا جو مجھے، میری روح کو، میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہا تھا۔ کوئی مجھے میری ٹانگوں پر کھڑا ہونے میں مدد کر رہا تھا جب میں ابجان کے بے جان بالوں، پیشانی اور چہرے کو اپنے دائیں ہاتھ سے چھو رہا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے۔

جب میں نے آنسوؤں بھری آنکھوں کے ساتھ ابجان کو اس کے آخری سفر کے لیے وداع کیا، اس کا چمکتا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے پھررہا تھا، ان کی گفتگو، ان کی دھیمی محبت بھری آوازمیرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ مجھے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ میرا بھائی اب ہمارے بیچ نہیں رہا، میرا پیرا بھائی اب میرے ساتھ نہیں ہے۔ جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو اس کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے پھر رہاہے۔

ابجان ! میرے پیارے بھائی جان: آپ کی یاد ہمیشہ مجھے ستائے رہے گی،آپ کی دھیمے لہجے میں گفتگو مجھے ہمشیہ یاد آتی رہے گی۔ آپ کا چہرہ ہمیشہ میری آنکھوں میں پھرتا رہے گا۔ خدا آپ کو جنت نصیب کرے۔۔آمین

مضمون نگار:
ڈاکٹر اشرف لون
پتہ: جواہرلال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی

Advertisements
julia rana solicitors

(اشرف لون کی 1990 کے کشمیر سے متعلق یادداشتوں پر مبنی کتاب 2024 کے اواخر میں اوم بکس انٹرنیشنل، نئی دہلی سے چھپنے والی ہے)

Facebook Comments

اشرف لون
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی،انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply