سیاست سے ہٹ کر۔۔۔محمد اسد شاہ

سوچ رہا ہوں کہ آج سیاست دوراں سے ہٹ کر چند باتیں کر لی جائیں – آئیے ذرا اپنے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے پاک صحابہ رضی اللّٰہ عنھم اجمعین کے دور کا ایک واقعہ یاد کرتے ہیں –
نبی آخر الزماں سیدنا محمد مصطفیٰ صلے اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے بچپن اور لڑکپن کا زیادہ وقت اپنے چچا ابو طالب کے گھر میں گزرا – ابو طالب اور ان کی زوجہ سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللّٰہ عنھا نے جس محبت اور چاہت کے ساتھ آپ کی پرورش کی ، اس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے – چچا کے گھر میں مالی خوش حالی نہ تھی ، لیکن آداب ، محبت ، خلوص ، شفقت اور چاہت کی فراوانی تھی – چچا نے آپ کو اپنے بیٹوں کی طرح ہی رکھا ، انھیں تجارت سکھانے کی غرض سے شام کے سفر میں بھی ساتھ رکھا –
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم جوان ہوئے تو شادی بھی ابو طالب کی اجازت سے ہوئی – سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللّٰہ عنھا عرب کی خوش حال ترین خاتون تھیں – شادی کے بعد نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی مالی پریشانی نہ تھی – لیکن دوسری طرف ابو طالب کے مالی حالات جوں کے توں تھے ، جب کہ وہ کثیر العیال بھی تھے – نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے بیٹے علی رضی اللّٰہ عنہ کو گود لے لیا – جب کہ آپ کے چچا سیدنا عباس رضی اللّٰہ عنہ نے عقیل بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ کو گود لیا –
چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی پرورش نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے خانۂ اقدس میں ہوئی –
ان کی پہلی شادی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ہی کی سب سے چھوٹی صاحب زادی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللّٰہ عنھا کے ساتھ ہوئی –
جب شادی کی بات چلی تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ ان کے پاس کیا کچھ ہے ؟
انھوں نے عرض کیا ؛ “ایک زرہ اور ایک گھوڑا -”
یہ دونوں  چیزیں جہاد کے لیے کام آتی تھیں – البتہ زرہ کی نسبت گھوڑا زیادہ ضروری تھا – نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے زرہ بیچنے کا حکم دیا – سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ زرہ لے کے بازار گئے – راستے میں سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ سے ملاقات ہوئی – زرہ انھوں نے خرید لی اور اس کی قیمت ادا کر دی – سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ واپس آئے اور اس رقم سے وہ سامان خریدا گیا جسے “جہیز” کہا جاتا ہے – البتہ ولیمے والے دن سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ نے وہی زرہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ کو تحفے کے طور پر پیش کر دی –
مذکورہ بالا واقعہ تقریباً تمام کتب سیرت میں موجود ہے – اس کو پڑھنے اور جاننے کے بعد یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہتی کہ “جہیز” کس کی ذمہ داری ہے – جہیز عربی زبان کا لفظ ہے ، جس کا معنیٰ “سامان سفر کی تیاری” ہے ، اور یہ کام دلہا کا ہے ، نہ کہ دلہن کے باپ یا بھائیوں کا –
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی چار صاحب زادیاں تھیں – کیا کسی بھی صاحب زادی کو آپ نے گھر کا سامان وغیرہ دیا ؟ سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ عنھا کو جو سامان ملا وہ بھی ان کے دولہا یعنی سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ کی جیب سے تیار ہوا – اور اس کی وجہ واضح ہے کہ سیدنا علی رضی اللّٰہ عنہ چوں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ہی کے خانہ اقدس میں پلے تھے – شادی کے بعد انھیں علیحدہ رہنا تھا تو علیحدہ گھر کا سامان انھیں خریدنا پڑا – ورنہ تینوں بڑی صاحب زادیوں کی شادیاں جن اصحاب کے ساتھ ہوئیں وہ اپنے اپنے گھروں میں صاحب حیثیت تھے ، چنانچہ ان کے لیے سامان کی کوئی فکر کرنا نہیں پڑی –
اسی طرح خود نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اللّٰہ رب العزت کے حکم پر مختلف وقتوں میں گیارہ نکاح فرمائے – کسی بھی زوجہ کے والد نے کوئی “جہیز” وغیرہ نہیں دیا – آپ کا تیسرا نکاح سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنھا کے ساتھ ہوا – ان کے والد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ ایک مال دار تاجر تھے جنھوں نے مسجد نبوی کے لیے جگہ کی قیمت اپنی جیب سے ادا کی تھی اور جنھوں نے غزوۂ تبوک کے موقع پر اپنے گھر کا سب کچھ لا کر آقائے دو جہاں سیدنا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے قدموں میں رکھ دیا تھا – لیکن ہم جانتے ہیں کہ اپنی بیٹی سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہ کی شادی کے موقع پر انھوں نے کوئی جہیز وغیرہ نہیں دیا -اگر لڑکی کے باپ کے ذمے کوئی جہیز ہوتا تو کیا ابوبکر کوئی کمی چھوڑتے ؟ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین کی تعداد تقریباً 2 لاکھ بنتی ہے – لیکن ہم جتنی بھی تحقیق کر لیں ، ہمیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کسی صحابی نے اپنی کسی بیٹی یا بہن کی شادی پر کوئی جہیز وغیرہ دیا ہو –
پھر ہمارے ہاں ، یعنی برصغیر پاک و ہند میں جہیز کہاں سے آ گیا ؟ یاد رکھیے کہ ہمارے ہاں جہیز کے نام پر جو ظلم ، بلکہ “درندگی” رائج ہے اس کا اسلام جیسے عظیم دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں- برصغیر کے قدیم ادوار میں مقامی لوگ شادیاں اس طرح کرتے تھے کہ پورا پورا جلوس لے کر جاتے تھے – اور واپسی پر جس کی بیٹی لے جاتے تھے ، اس کے گھر کا سارا سامان بھی لوٹ کر لے جاتے تھے اور اس موقع پر آتش بازی بھی کرتے تھے – آج کی بارات ، جہیز اور آتش بازی و فائرنگ دراصل اسی قدیم لوٹ مار کا تسلسل ہے –
عرب سمیت تمام بلاد اسلامی میں شادی کے موقع پر سامان کی تیاری دولہا کے ذمے ہے ، بعینہٖ اسی طرح ، جیسے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ نے اپنی پہلی شادی کے موقع پر اپنا سامان اپنی زرہ بیچ کر خود تیار کیا تھا – بارات ، بارات کا کھانا اور آتش بازی وغیرہ برصغیر کے علاوہ کسی بھی مسلم معاشرے میں رائج نہیں –
قارئین کرام سے دست بستہ عرض ہے کہ جہیز جیسی ظالمانہ غیر اسلامی رسم کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائیے – لاکھوں بچیاں اس منحوس رسم کی وجہ سے رُل رہی ہیں – اسی رسم قبیح کا اثر ہے کہ بہت سے لوگوں کو بیٹی کی پیدائش پر وہ خوشی نہیں ہوتی جو انھیں بیٹے کی پیدائش پر ہوتی ہے – اور یہی وہ رسم ہے جس کو پورا کرنے کے بعد بہت سے لوگ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کا وراثتی جائیداد میں قرآن کا مقرر کردہ حصہ غصب کر لیتے ہیں یا “معاف کروانے” کا ناٹک رچاتے ہیں۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply