دھرنے والوں کے “مِسنگ پرسنز” ایران میں؟-طیبہ ضیاء چیمہ

یہ جانتے ہوئے کہ مسنگ پرسنز افغانستان اور ایران میں دہشت گردی کیمپوں میں موجود ہیں، ماہ رنگ بلوچ ان دہشت گردوں کے لواحقین کو لے کر ریاست کے خلاف احتجاج کے لیے بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ جبری گمشدہ تھے تو ایران کے بی ایل اے /بی ایل ایف کیمپس میں کیا کر رہے تھے۔

یاد رہے کہ لا پتہ افراد کے احتجاجی کیمپ کی خاتون لیڈر ماہ رنگ بلوچ نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایران پر جوابی حملے میں جو بلوچ مرے ہیں ان کے لواحقین اسلاآباد اس دھرنے میں موجود ہیں۔۔ سچ منہ پر آہی گیا کہ ھمارے مرد مِسنگ نہیں بلکہ ایران افغانستان انڈیا کے کیمپوں میں کرائے کے دہشتگرد چھپے بیٹھے ہیں۔ دشمنان پاکستان انْ کی عورتوں بچوں بوڑھوں کو بطور ریاست مخالف پروپیگنڈا اکثر مظاہروں، لانگ مارچ اور دھرنوں میں استعمال کرتے ہیں۔

بیرونی طاقتوں کے کچھ ماؤتھ پیس سوشل میڈیا پر ہمدردیاں بٹورنے کے لئے بٹھا دیے جاتے ہیں۔ مگر ریاست اس بلیک میلنگ میں آنے والی نہیں، اس لئے کسی جذباتی مہم کو ملک کی سلامتی پر حاوی ہونے نہیں دیا جاتا۔ کل ایران نے بلوچستان پر حملہ کرکے معصوم بچوں کو مارا مگر سارا دن ماہرنگ بلوچ خاموش رہی۔

آج پاکستان نے جوابی کارروائی کی تو اپنے مِسنگ مردوں کی دہائی دینے لگی۔ جائے ایران جا کر دھرنا دے۔ اسلام آباد میں غداروں کے آلہ کار بنے کیوں بیٹھے ہیں؟ جب انتہائی مطلوب دہشت گرد سابق بی این اے کمانڈر سرفراز بنگلزئی نے 70 ساتھیوں کیساتھ ریاست کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور اس بات کا اقرار کیا کہ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کھیلنے والے لوگ پاکستان بالخصوص بلوچستان کیلئے امن و بقاء کے لیے خطرہ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سرفراز بنگل زئی نے مسنگ پرسنز کے نام پر جھوٹا پروپیگنڈا جو ملک دشمن عناصر کی طرف پھیلایا جا رہا ہے اس کو بھی بے نقاب کیا۔

غیر جانبدار مبصرین کے مطابق یہ امر بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ وطن عزیز میں لا پتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے نام پر ایک عجیب طرح کا بیانیہ ماضی قریب میں مرتب کیا گیا۔ تبھی تودوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کونسل کی طرف سے مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے حالانکہ عالمی دہشتگردوں کی لسٹ میں بی ایل اے پانچویں نمبر پر اور بی ایل ایف سترہویں نمبر پر ہے۔

ایسے میں بلوچ یکجہتی کونسل ان دونوں کے سیاسی چہرے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے، جو آج کل ایک ایسا احتجاج کر رہی ہے جس کا مقصد نہ صرف ملک کو کمزور کرنا ہے بلکہ بلوچ قوم کو بھی بدنام کرنا ہے۔ واضح رہے کہ یہ نام نہاد بلوچ یکجہتی کونسل کریمہ بلوچ کی موت کے بعد وجود میں آئی تھی جب اس کی لاش ایک ندی کے کنارے کینیڈا میں ملی تھی اور کینیڈا پولیس کی رپورٹ کے مطابق وہ نشے میں تھی اور یورپی تنظیم ڈس انفو لیب نے کریمہ بلوچ کا تعلق انڈیا کے ساتھ ظاہر کیا تھا۔۔

بلوچ سیاسی کارکن اور بلوچ طلبا تنظیم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی لاش کینیڈا کے شہر ٹورنٹو سے برآمد ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ 37 سالہ کریمہ بلوچ کینیڈا میں پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم تھیں جبکہ سنہ 2016ء میں بی بی سی نے کریمہ بلوچ کو دنیا کی سو بااثر خواتین، کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔ بیرونی میڈیا غداروں اور باغیوں کو نہ صرف پروموٹ کرتا ہے بلکہ پاکستان کے اندر بھی اپنے پیڈ صحافی ایجنٹوں سے بھر پور خدمات لیتا ہے۔

مبصرین کے مطابق یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بلوچ یکجہتی کونسل کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جو عبدالغفّار لانگو کی بیٹی ہیں، یہ وہ ہیں جو بی ایل اے کے ایک کمانڈر تھے اور ریاستی اداروں پر لاتعداد حملوں میں ملوث تھے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نہ صرف ریاستی وظیفہ پر تعلیم حاصل کرتی رہی ہیں اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد سے اب تک وہ سرکاری تنخواہ کے ساتھ ساتھ متعدد سہولتیں بھی لے رہی ہے۔

ایسے میں یہ سوال بجاطور پر اٹھتا ہے کہ ایک طرف سرکاری تنخواہ دوسری طرف دہشتگردوں کی حمایت کیوں۔ اس تمام صورتحال کے پس منظر میں غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ دستاویزی شواہد سامنے آنے کے بعد غالبا یہ کہا جا سکتا ہے کہ لاپتہ اور جبری گم شدگیوں کے مبینہ واقعات حقیقت پر مبنی نہیں اور انہیں پاکستان مخالف عناصر نے اپنے منفی عزائم کی تکمیل کیلئے گھڑا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے گلزار امام شمبے مرکزی دھارے میں شامل ہوئے تھے۔

ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور حکیم سعید مرحوم کی 30 سال پرانی پیشن گوئی تو سنی ہی ہوگی! صوفی برکت علی کی یہ ویڈیو بھی 30 سال پرانی ہے جس میں انہوں نے بولا کہ ایک دور آنے والا ہے جب پاکستان کی ہاں اور ناں میں اقوام عالم کے فیصلے ہوا کریں گے؟ آج لگتا ہے کہ ہم اس دور کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

بھارت اور بعض دیگر مغربی طاقتوں کی شہ پر وطن عزیز کیخلاف دہشتگردی پر مبنی مکروہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے اسی ضمن میں مبصرین کے مطابق یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ سرفراز بنگلزئی عرف مرید بلوچ (بی این اے کے سربراہ) کا اپنے ساتھیوں /خاندانوں سمیت ہتھیار ڈالنا پاکستان اور بلوچستان کیلئے ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ باہر بیٹھے لیڈران خود عیاشی کی زندگی گزار کر بلوچ نوجوان نسل کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سرفراز بنگلزئی نے قومی دھارے میں شمولیت کے موقع پر کیا۔ سرفراز کا کہنا تھا کہ پچھلے دو سال میں 150 بلوچوں کا قتل کیا گیا جس کی اصل وجہ ان نوجوانوں کا بھتہ دینے سے انکار تھا۔

ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کون بلوچ عوام کو ورغلا کر استعمال کررہا ہے، مجھے تحریک میں سوال اٹھانے کی وجہ سے سائیڈ لائن کردیا گیا۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ بنگلزئی نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کا ہیلی کاپٹر تکنیکی خرابی کی وجہ سے کریش ہوا لیکن بھارت کے ایماء پر BLA نے اس واقعے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ بنگلزئی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی مزاحمتی زندگی کے دوران بخوبی اندازہ ہوچکا ہے کہ بلوچستان اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جو ساتھی بلوچ سرمچار اس دنیا سے جاچکے ان کے خاندان بالخصوص خواتین انتہائی بری حالت میں افغانستان میں دربدر ہیں اس کے علاوہ بھارت اور بی ایل اے جنگی کارروائیوں میں خواتین کو بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ بلوچ نوجوانوں اور عوام سے میری اپیل ہے کہ اس بھارتی دھوکے میں ہرگز نہ آئیں اور بلوچ ماؤں کے لیے پیغام ہے کہ اپنے بچوں کو بیرونی ممالک کے مفادات کی آگ کا ایندھن بننے سے بچائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply