ایران بدمعاش نہ بنے/نجم ولی خان

ہم پاکستانیوں کامسئلہ یہ ہے کہ ’خنجر کسی کے دل پہ چلے تڑپتے ہیں ہم میر، سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘۔ مجھے تو یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ ’امت مسلمہ‘ کا جتنا درد پاکستان میں پایا جاتا ہے وہ کسی دوسرے اسلامی ملک میں نہیں ہے۔ ہم نے افغانستان کو روس کی دستبرد سے بچانے کے لئے ان کے ساتھ جہاد کیا اور افغانی تھے کہ انہوں نے اس کے بعد امریکا سے پنگا لے لیا پھر ہمیں اس کی بھی قیمت ادا کرنی پڑی۔ سچ پوچھئے تو فلسطینیوں کے ساتھ بھی ہم ہی کھڑے ہیں، ہماری ہر حکومت نے آپسی سیاسی اختلافات کے باوجود اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کااعلان ہی کیا ہے ورنہ سعودی عرب تو اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کر چکا ہوتا اگر حماس مزاحمت کا آغاز نہ کرتی۔ بوسنیا ہو چیچنیا ہو یا افریقہ کی کوئی دور دراز ریاست کا معاملہ، پاکستانیوں کا دل اپنے بھائیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے اور ایران کے ساتھ تو ہمارے ایک مسلک کے خصوصی عقیدت بھرے تعلقات ہیں، ہمارے ملک سے ہزاروں بلکہ لاکھوں زائرین ایران ، عراق، شام جاتے ہیں۔ ہم اپنے ایرانی بھائیوں کو دیکھتے ہیں تو ان پر صدقے واری ہوتے ہیں۔ عالمی پابندیوں کے باوجود ہم وہاں سے گیس لینا چاہتے ہیں، ریل کی لائن بچھانا چاہتے ہیں۔ان کی امریکہ کے خلاف طویل مزاحمت کو سراہتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ایران ہمیں اپنے زیرنگیں، اپنا کمی کمیں ہی سمجھ لے۔

اگر آپ پوچھیں تو شکوے ہزار ہیں۔ مجھے وہ دور بھی یاد ہے جب نوے کی دہائی میں پاکستان میں فرقہ واریت کا طوفان گرم تھا اور پھر اس کے بعد موجودہ صدی کے پہلے اور دوسرے عشرے میں بھی۔ ایک دھڑے کو کچھ دوسرے ملک سپورٹ کرتے تھے اور جواب میں ایران اپنے دھڑے کو یعنی ہمارے ملک میں ہونے والی خونریز جنگ میں ایک فریق ایران بھی تھا۔ اس کے بعد افغانستان میں ہی دیکھ لیا جائے۔ پاکستان بارے کہا جاتا ہے کہ اس کے وہاں مفادات ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں سب کے مفادات تھے۔ شکوہ تلخ سہی مگرایران، افغانستان میں اپنے مفادات کی پاسبانی میں انڈیا کا حلیف تھا اور پاکستان کا حریف۔ پھر سی پیک کا معاملہ ہی دیکھ لیا جائے کہ جس طرح اس کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ہوئیں اور ان میں ایران کانام بھی آیا۔ میں چاہ بہار کی بندرگاہ کا ہرگز مخالف نہیںہوں کہ ہر ملک کو اپنے وسائل کوبنانے اور ترقی دینے کا حق حاصل ہے لیکن اگر کوئی منصوبہ اس ذہن اور کوشش کے ساتھ بنایا جائے کہ پاکستان کو ناکام کیا جائے تویہ بھائی چارہ ہرگز نہیں ہے۔ میں اقبال کے اس شعر کا پوری طرح قائل ہوں، ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے، نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر مگر سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ صرف ہم ہی ہیںاور امت میں اتحاد کو برقرار رکھنے کی ساری ذمے داریاں ہماری ہی ہیں؟ آپ ہی اپنی اداؤںپر غور کیجئے، ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔

ایران کی جانب سے فضائی حدود کی بلا اشتعال خلاف ورزی پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت پر ایک گھناؤنا وار ہے۔ جس کے سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس خلاف ورزی کے نتیجے میں دو معصوم بچے جاں بحق جبکہ تین بچیاں زخمی ہوگئی ہیں۔ جو ایران کے اس دعویٰ کی تردید ہے کہ یہ حملہ کسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف کیا گیا ہے۔ اس حملے کی ساری ذمہ داری ایرانی حکومت، آئی آر جی سی اور ایرانی انٹیلی جنس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان رابطے کے متعدد چینلز ہونے کے باجود بین الاقوامی قوانین کے برعکس کارروائی عمل میں لائی گئی۔ اس واقعے کا جواز پیدا کرنے کے لیے جیش العدل نامی تنظیم سے ایک جعلی پریس ریلیز بھی جاری کروائی گئی۔ پاکستان کا ری ایکشن دیکھ کر ایران کو اپنے اِس غلط اور بے تکی حرکت کا اندازہ ہو گیا۔ جیش العدل جسے آئی آر جی سی خود چلا رہی ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کے کسی طرح اِس مسئلے سے جان چھڑائی جائے اِسی لئے جیش العدل سے دوبارہ جھوٹا بیان دلوایا گیا کہ یہ راکٹس غلطی سے بارڈر کے پار چلے گئے جبکہ اصل میں نشانہ سستان، ایران کے اندر ہی واقع جیش العدل کے اپنے کیمپ تھے۔یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کے ایک دہشت گرد تنظیم خُود آئی آر جی سی کی طرف سے فائر کئے جانے والے راکٹس غلطی سے بارڈر کراس کرنے کی وضاحتیں دے رہی ہے۔ اِس سے صاف پتہ چلتا ہے کے یہ جیش العدل سے منسوب اکاؤنٹس آئی آر جی سی اور ایرانی انٹیلی جنس خود چلا رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لئے درد سر ، ہماری قومی یکجہتی اور سلامتی کے لیے خطرہ، بی ایل اے اور بی ایل ایف کے کیمپس ایران میں موجود ہیں۔ کلبوشن یادیو بھی ایران سے آپریٹ کرتا رہا ہے تو کیا ہم بھی ایران پربموں سے حملہ کردیں۔ ایران کا یہ خیال کہ پاکستان اِس واقعے کو کسی بھی صورت نظر انداز کرے گا اُسکی بہت بڑی بھول ہے۔ ایرانی سفیر کو واپس نہ آنے کا عندیہ اور ایران میں موجود پاکستانی سفیر کو واپس بلانا پاکستان کی طرف سے انتہائی درست ردعمل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس سے پہلے بھی دراندازی اور دہشت گردی کے واقعات ایران کی سرزمین پر رونما ہو رہے ہیں جنوری 2023 میں ضلع پنجگور میں ایرانی سرحد کے باہر ایران کی جانب دہشت گردانہ سرگرمی کے دوران چار سیکورٹی اہلکار شہید ہوگئے تھے اور جبکہ اپریل 2023 میں ایران کی طرف سے دہشت گردوں نے کیچ میں پاکستان فورسز پر حملہ کیا سو اگر ایرانی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ عالمی بدمعاش بن سکتی ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ میں بطور پاکستانی سمجھتا ہوں کہ پاکستان قطعی طور پر عراق اور شام جیسا طرز عمل نہیں اپنائے گا۔ ہماری حکومت اور فوج اپنی قومی سلامتی اور سالمیت کے لیے ہر وہ قدم اٹھائے گی جو ہمارے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرے گا۔ پاکستان ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بقاء باہمی کے اصول کو ترجیح دیتا ہے لیکن اپنی ملکی سلامتی کے تقاضوں سے قطعاً غافل نہیں ہے اور ایران کی اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کالم کا اختتام ایران نہیں اپنے سیاسی احمقوں اور غداروں کے نام ہے۔ اس کارروائی کے دوران مخصوص سیاسی عناصر نے بھی پاک فوج کو بدنام کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا انتہائی گھناؤنا استعمال کیا، ان کے ساتھ اس مہم میں ہندوستانی اکاونٹس ان کو لائیکس اور شیئرنگ سمیت دیگر سپورٹ دے رہے تھے مگر محب وطن پاکستانی نوجوانوں نے انہیں منہ توڑ جواب دئیے، انہیں ناکام و نامراد کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنی سرزمین پر حملے اور اپنے بچوںکی شہادت پر دشمن کی زبان بولنا بدترین سے بھی بُری غداری ہے۔ حکومت اور فوج کو فوری طور پر ان تمام ففتھ کالمسٹس اور گھس بیٹھیوں کو ٹریس کر کے انہیں نشان عبرت بنانا چاہئے۔ یہ وہ میر جعفر اور میر صادق ہیں جو دشمن کے حملے پر فصیلوں کے قُفل اندر سے کھولتے ہیں، انہیں راہ دیتے ہیں۔ دشمن کے منہ سے پہلے ان کے ہاتھ توڑنا ضروری ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply