ابنارمل کردار (2): منزہ احتشام گوندل

(محترمہ منزہ گوندل کی یہ خوبصورت تحریر چونکہ “مکالمہ” پہ شروع ہوئی ایک بحث کے حوالے سے نہایت اہم ہے، اس لیے بشکریہ “ایک روزن” شائع کی جا رہی ہے۔ ایڈیٹر)

میں جن نسوانی کرداروں کا جائزہ پیش کروں گی وہ ساری Lac caninumہیں۔جن میں پہلا نام جدید اردو نظم کی معروف شاعرہ سارہ شگفتہ کا ہے۔’’سارہ شگفتہ کے بارے میں لکھنے اور پڑھنے سے دانستہ احتراز کیا گیا۔ اس احتیا ط کی وجہ نامعلوم ہے۔ شاید سارہ شگفتہ کو ایک بدکردار اور بدترین عورت سمجھ لیا گیا تھا۔ سارہ شگفتہ کے بارے میں بات کرنے کی جرأت سب سے پہلے امرتا پرتیم نے کی۔ امرتا کے ساتھ سارہ کی خط وکتابت تھی۔ بعد میں امرتا نے ان خطوط کو ترتیب دیا اور ’’ایک تھی سارہ ‘‘کے عنوان سے چھپوا دیا ۔ ان خطوط کے اندر’’سارہ ‘‘نے خود بھی جابجا اپنی جنسی بے روی کا اعتراف کیا ہے اور اس کی متعدد شادیوں کے ثبوت بھی ان خطوط سے ملتے ہیں بعد ازاں ’’صفیہ عباد ‘‘نے ’’ادیبوں میں خود کشی کے محرکات اردو ادب کے خصوصی حوالے سے ‘‘کے عنوان کے تحت پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔ جس میں ’’سارہ شگفتہ ‘‘پر بھی انہوں نے تحقیق کی ۔سارہ نے پے درپے شادیاں کیں اور شادیوں کے ساتھ ساتھ چار مرتبہ خود کشی کی کوشش کی اور آخر کار پانچویں دفعہ ریلوے ٹریک پر ٹرین کے آگے کود کو خود کشی کرلی۔ ڈاکٹر صفیہ عباد نے جہا ں سارہ کی خود کشی کے محرکات میں معاشی تنگدستی، تعلیم کی کمی، سماجی محرکات کی تشخیص کی ہے وہاں اس کی جنسی بے راہ روی کو بھی اس کی وجہ قرار دیا ہے۔
’’سارہ کی اخلاقی، سماجی اور جنسی بے راہ روی اس جوہر کو مثبت انداز میں پنپنے کے موقع فراہم نہ کرسکی۔‘‘ (۳)
اور اسی مقالے میں جہاں ڈاکٹرصفیہ عباد نے سارہ شگفتہ کے متعلق دوسرے ادیبوں کی آراء جمع کی ہیں ان کے ضمن میں ’’کشور ناہید ‘‘کا بیان ملاحظہ ہو۔
’’کشور ناہید نے اس ضمن میں واضح طور پر کہا ’’سارہ (جنسی جنونی)تھی ۔‘‘(۴)
اسی طرح عذرا عباس کا بیان ہے کہ
’’سارہ کی شادیوں کی تعداد تو ایک طرف ہے اس کے جذباتی تعلقات ان گنت رہے ‘‘۔(۵)
اسی طرح ایک جگہ عذرا عباس کا بیان کچھ اس طرح ہے۔
’’اگر کوئی عورت خود ہی سوسائٹی میں خود کو باعزت درجہ نہیں دیتی۔ تو مرد کیونکر اس کا احترام کرے گا۔ سارہ کا میل جول ان لوگوں سے بھی تھا جن سے ہم بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔‘‘(۶)
سارہ نے جس وقت خود کشی کی اس وقت اس کی عمر محض تیس سال تھی۔ تیس کی عمر تک وہ ان گنت شادیاں، ان گنت مردوں کے ساتھ تعلقات اور کئی بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ اس کو بہت رگیدا گیا۔ نفسیاتی طور پر ٹارچر کیا گیا۔ دوست، احباب، رشتہ دار ہر ایک نے اس پر تھوکا۔ اس کو ہوس پرست، بدکردار کہا، دراصل ’’سارہ شگفتہ ‘‘Lac caninum تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر Staphisagriaکے بھی اثرات تھے۔ سٹافی سگیریا میں بھی عیاشی کی بے پناہ خواہش موجود ہوتی ہے۔ اس کی مثال کو واضح کرنے کے لئے ڈاکٹر آر۔اے ۔امتیاز نے ایک خوبصورت حکایت رقم کی ہے۔
’’ایک عورت ایک جادوگرنی کے پاس گئی اور کہا کہ وہ اسے ایسی جگہ پہنچا دے جہاں عیاشی ہو۔ جادوگرنی نے ایک بکرا لانے کو کہا وہ عورت بکرا لے آئی جادوگرنی نے بکرے کی گردن پر عورت کو بٹھایا اور پیچھے سے بکرے کی گردن کاٹ دی ۔ دوماہ بعد عورت عیاشی والی جگہ پر رہی اور پھر اس کو واپس آنا پڑا ۔وہ دوبارہ جادوگرنی کے پاس گئی ۔ جادوگرنی نے کہا کہ اب اپنا بچہ لے آؤ وہ عورت بچہ لے کر جادوگرنی کے پاس چلی گئی۔ یہ ہے سٹافی سگیریا کی ہوبہو تصویر۔‘‘(۷)
یعنی اس دوا کی مریض عورت عیاشی کے لئے اتنی سفاک ہوجاتی ہے کہ اپنی اولاد کے قتل تک کے لئے آمادہ ہوجاتی ہے۔
’’سارہ ‘‘کا کیس بالکل سیدھا سادھا تھا۔ اس کے اس مزاج کو ٹھیک کرکے اعتدال پر لایا جاسکتا تھا۔ وہ اصل میں مریض تھی مگر افسوس کے ہمارے ہاں فرد کی بے راہ روی کی وجوہات کو ہمدردی کے ساتھ دیکھنے کی سعی نہیں کی جاتی اور ہم لوگ گالی گلوچ اور نفرت واستہزا کا نشانہ بنا کر لوگوں کو ضائع کردیتے ہیں اور یوں معاشرے کے اندر روز بروز مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ (Lac caninum )عورت کو ہومیو پیتھک ڈاکٹر حضرات (کتیا)بھی کہا کرتے ہیں اور یہ لفظ بظاہر تو یقیناً نہایت نامعقول اور گھٹیا ہے مگر علامت کے طور پر نہایت موزوں اور مناسب لفظ ہے کہ اس مرض کی مریض عورت کی حالت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے جیسے (Breading)کے موسم میں کتیا کی ہوتی ہے کہ جس کے پیچھے درجنوں کے حساب سے کتے لگے ہوں۔
’’سارہ شگفتہ ‘‘کے بعد دوسرا کردار جو ایسی قبیل کا ہمیں نظر آتا ہے وہ ’’سعادت حسن منٹو‘‘ کے خاکوں کے مجموعے ’’لاؤڈ سپیکر‘‘کا کردار ’’ستارہ ‘‘ہے ۔ ستارہ کا خاکہ لکھنے سے قبل منٹو نے چند باتیں کہی تھیں ۔ ان باتو ں سے منٹو کی انسانی نفسیات کے متعلق گہری آگاہی کا پتا چلتاہے۔ وہ اس کردار سے نفرت نہیں کرتے اور اگر وہ ’’سارہ شگفتہ ‘‘کا خاکہ لکھتے تو یقیناً ’’سارہ ‘‘کے متعلق کبھی اس طرح کے الفاظ استعمال نہ کرتے جن کو اور لوگوں نے برتا ہے۔منٹو لکھتے ہیں۔
’’اِن تینوں بہنوں کی زندگی کی روئداد اگر لکھی جائے تو ہزاروں صفحے کالے کئے جاسکتے ہیں۔ لوگ مجھے کوستے ہیں کہ میں فحش نگار ہوں گندہ ذہن ہوں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس دنیا میں کیسی کیسی ہستیاں موجود ہیں میں انہیں فحش نہیں کہتا۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ یا تو کوئی آدمی ماحول کے باعث مذمومی حرکات کا مرتکب ہوتا ہے یا اپنی جبلت کے باعث۔
جو چیز آپ کو فطرت نے عطا کی ہے اس کی اصلاح نفسیاتی علاج سے کسی حد تک ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر آپ اس سے غافل رہے ہیں تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے یہ ذرا سوچنے کی بات ہے‘‘۔(۸)
یہی وہ اعلی صلاحیت ہے جو منٹو کو دوسرے لکھنے والوں سے ممتاز کرتی ہے اور انہیں محبوب بناتی ہے۔’’ستارہ ‘‘ کے خاکے کے شروع میں منٹو کا یہ وضاحت پیش کرنا اس بات کااعلامیہ ہے کہ وہ خود ہی ’’ستارہ ‘‘کو کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا سمجھتے ہیں اور اس کے کردار کی بناء پر اس کو فاحشہ یا بدکردار نہیں کہتے۔ بلکہ منٹو کے خیالات ’’ستارہ ‘‘کے لئے ہمدردانہ ہیں۔ منٹو نے ستارہ کے کردار کے حوالے سے نفسیاتی سطح پر غور بھی کیا ہے اور وہ اسے ایک خاص کیٹیگری کے اندر لے کر آتے ہیں۔
’’وہ عورت نہیں کئی عورتیں ہے ۔اس نے اتنے جنسی سلسلے کئے ہیں کہ میں اس مختصر مضمون میں اس کا احاطہ نہیں کرسکتا ہے۔
انگریزی زبان میں ایسی عورت کو NAFOMANILکہا جاتا ہے یہ عورت کی ایک خاص قسم ہے جو ایک مرد کے علاوہ سینکڑوں مردوں سے تعلق قائم کرتی ہے ‘‘۔(۹)
اس اقتباس کے بعد ستارہ کے متعلق کچھ جنسی سلسلوں کی مختصر روئداد قلمبند کرنے کے بعد منٹو کچھ اس طرح رقم طراز ہیں۔
’’میں یہ سب کچھ لکھنے سے ہچکچا رہا ہوں۔ اصل میں ستارہ ایک ’’کیس ہسٹری ‘‘ ہے اس پر نفسیات کے کسی ماہر ہی کو لکھنا چاہیے۔‘‘(۱۰)
منٹو پر بھی فحاشی کے بے تحاشا الزام لگے اور ان کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے۔ منٹو جیسا پُر اعتماد لکھنے والا بھی جب کسی کردار کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کرے تو جان لینا چاہیے کہ وہ کردار واقعی ’’سائیکی‘‘یا بیمار کردار ہے۔
’’ستارہ اس حد تک Lac caninum ہے کہ جس حد تک کوئی بھی Lac caninum ہوسکتی ہے۔ منٹو کی زبانی سنیے۔
’’ستارہ نے کچھ دیر کے بعد وہی سلسلہ شروع کردیا جس کی وہ عادی تھی اروڑہ، الناصر، محبوب اور اس کا خاوند ڈیسائی سب ہی اس کے التفات سے مستفید ہوتے رہے ۔‘‘(۱۱)
ایک اور اقتباس دیکھئے :۔
’’جہاں دیکھو ستارہ ۔۔۔میں نے سوچاکہ یہ ستارہ صرف زردیاں پیدا کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہے ادھر پی ۔این ۔اروڑہ انگلینڈ کا تعلیم یافتہ صدا بند، ادھر ڈیرہ دون کا اسکول کا پڑھا ہوا نوخیز لڑکا۔‘‘(۱۲)
’’ستارہ سے کسی مرد کا سابقہ پڑ جائے اور اتفاق سے وہ ستارہ کو پسند آجائے تو پھر دن اور رات کا بیشتر حصہ اسی کے ساتھ کاٹنا پڑتا ہے۔‘‘(۱۳)
ستارہ کا خاکہ لکھتے وقت منٹو قدم قدم پر لڑکھڑائے اور گھبرائے ہیں اور متعدد جگہوں پر انہوں نے واقعات کی تفصیل کو ادھورا چھوڑ کر معذرت کی ہے۔ ان کے خیال میں انہوں نے اس کردار کی بے راہ روی کے متعلق جتنے بھی واقعات قلمبند کئے ہیں وہ دراصل نہایت ناکافی ہیں اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ ان واقعات کو بھی بیان نہیں کرسکے جن کو انہوں نے کیا ہے۔
’’ستارہ ‘‘ایک ایسی عورت ہے جو بڑے بڑے جگر گردے کے مردوں کو زچ کردیتی ہے۔ حتیٰ کہ منٹو صاحب ستارہ کہ خاکہ لکھتے وقت بھی ’’زچ ‘‘ہوئے ہیں۔ اور زِچ ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ
’’میں اس میں ستارہ کا کوئی قصور نہیں دیکھتا۔ جو کچھ بھی اس سے سرزد ہوا ۔سراسر اس کی جبلت کے باعث ہوا۔ قدرت نے اس کو اس طور بنایا ہے کہ وہ جادہ ہر جام ہی بنی رہے گی۔ کوشش کے باوجود وہ اپنی اس فطرت کے خلاف نہیں جاسکی‘‘۔(۱۴)
دراصل ’’ستارہ ‘‘نام کا یہ کردار بھی ’’لیک کینینم ‘‘ہے۔ اگر منٹو کی جگہ کوئی اور خاکہ نگار ہوتا تو شاید اس کردار کے ساتھ اس طرح انصاف نہ کرپاتاجس طرح منٹو نے کیا ہے۔ اور حتی الامکان انہو ں نے اس کردار کو نفسیاتی خلل کے خانے میں رکھ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے باوجود لڑکھڑائے ہیں۔ ظاہر ہے ایک تخلیق کار کسی زندہ جیتے جاگتے کردار کی تشریح اس طرح نہیں کرسکتا جس طرح کوئی ماہر نفسیات یا طبیب کرسکتا ہے۔ اور جب کوئی کردار حقیقتاً کسی نفسیاتی عارضے یا جسمانی بیماری میں مبتلا ہو تو اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوپاتا۔ مگر منٹو نے بہت حد تک اس کردار کے ساتھ انصاف کیاہے۔
سارہ شگفتہ اور ستارہ تو حقیقی کردار ہیں مگر ہمارے ادب میں جابجا اس طرح کے تخلیقی کردار بکھرے پڑے ہیں۔ علی عباس حسینی کا ’’افسانہ ’’میلہ گھومنی ‘‘کی بے نام عورت جو بظاہر پورے افسانے کے اندر چھائی ہوئی ہے جو ایک دن گھومتی گھامتی کہیں سے آنکلتی ہے اور گاؤں کے سارے اچھے اچھوں کو نامرد کرکے چلی جاتی ہے۔ امراؤ جان ادا کی ’’بی آبادی ‘‘بھی ایک ایسا ہی کردار ہے۔
ہم بظاہر اس کردار کی تقسیم نہیں کرپاتے۔ مگر آج کے ترقی یافتہ دور میں ہر طرح کے ابنارمل کرداروں کی حقیقی تفہیم کو ممکن بنا کر انہیں نارمل انسانوں میں شامل کیاجاسکتا ہے۔

حوالہ جات

Advertisements
julia rana solicitors london

(۱) محمد علی صدیقی، ڈاکٹر، مضامین ،ادارہ عصر نو کراچی1991ء صفحہ نمبر ۶۳
(۲) ڈاکٹر آر۔اے ۔امتیاز، ہیومیو میڈیسن اور صحت ،مادی ویلفیئر پبلی کیشنز، ۲۰۰۱، صفحہ نمبر ۲۵
(۳) ڈاکٹر صفیہ عباد، راگ ، رت خواہشِ مرگ اور تنہا پھول ،نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد ،صفحہ ۱۸۶
(۴) = = = = = = صفحہ ۱۷۰
(۵) = = = = = = =
(۶) = = = = = = صفحہ ۱۷۷
(۷) ڈاٹر ۔آر ۔اے۔امتیاز = = = صفحہ نمبر ۶۵
(۸) سعادت حسن منٹو، منونما، سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور۲۰۰۸، صفحہ نمبر ۲۸۳
(۹) ایضاً = = = صفحہ نمبر۲۸۴
(۱۰) = = = = صفحہ نمبر۲۸۵
(۱۱) = = = = صفحہ نمبر۲۸۶
(۱۲) = = = = صفحہ نمبر۲۸۸
)۱۳) = = = = صفحہ نمبر۲۹۴
(۱۴) = = = = صفحہ نمبر

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply