ایران کا حملہ اور پاکستانی شیعہ/ شاہد کاظمی

وطن کی مٹی کی خوشبو کی قدر وہ انسان بہت بہتر کرسکتا ہے جسے نے پردیس کا کرب سہا ہو۔ وہ جانتا ہے کہ اپنے دیس کا نشہ کیا ہے۔ آپ کے پاس اپنے وطن میں سہولیات کی کمی ہے، آپ مشکلات کا شکار ہیں، کھانے کو مشکل سے میسر ہے، لیکن ایک ضرب المثل بہت صادق ہے ہرطرح کے حالات میں کہ اپنے وطن میں آپ فٹ پاتھ پہ بھی سو جائیں توکم از کم اٹھائے گا نہیں  ۔

ایران نے پاکستان پہ ایک سرحدی گاؤں سبز کوہ  میں کاروائی کی۔ اس کاروائی میں ایران کے دعوے کے مطابق ایک دہشت گرد تنظیم جیش العدل کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران کے بقول اس کاروائی میں اس تنظیم کے ٹھکانوں کو نا صرف تباہ کیا گیا بلکہ بھاری جانی نقصان بھی ہوا۔ ایران کے اس دعوے میں صداقت ہے یا نہیں یہ مکمل الگ بحث ہے۔ ایران کا پاکستان کی سالمیت کے خلاف یہ کاروائی کرنا کسی بھی طرح قابل توجیح نہیں ہے۔ ایک شعیہ اکثریت ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں بسنے والے ملک کی کل آبادی کا کم و بیش 20 فیصد حصہ ذہنی و قلبی حوالے سے مکمل طور پر یکجان اور منفرد سوچ رکھتا ہے۔

یہ 20 فیصد افراد شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوئے، ایران کے شعیہ اکثریتی ملک ہونے کے باوجود کسی بھی طرح یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ ایران پاکستان کی سالمیت کے خلاف کسی بھی طرح کی ایسی بہیمانہ کاروائی کرے۔ فکری لحاظ سے پاکستان جذباتیت رکھتا ہے اور یہی جذباتیت پاکستانی عوام کا بھی خاصہ ہے۔ ہمارے لیے کچھ ممالک مقدس سرزمین کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب کی سرزمین تو کل عالم اسلام کے  لیے اہم اور خاص ہے۔ اس کے علاوہ عراق میں مقدس مقامات کی وجہ سے یہ سرزمین سنی اور شعیہ دونوں کمیونیٹیز کے لیے اہم ہے۔ بغداد شریف کے حوالے سے سنی مکتبہء فکر کی خاص اہمیت ہے تو کربلا، نجفء اشرف و دیگر مقامات شیعہ کمیونٹی کے لیے متبرک ہیں۔ اسی طرح ایران کی سرزمین شیعہ مکتبہء فکر کے لیے امام رضا علیہ السلام کے حرم اور دیگر مزارات  کی وجہ سے مقدس شمار کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے کروڑوں افراد زیارت کے شرف سے فیض یاب ہوتے ہیں اور ایران کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدت کا  سفر ہے۔ اس سفر میں ہرگز صورتحال ایسی نہیں ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھی کوئی حرکت برداشت کر لی جائے۔

پاکستان میں ایک مخصوص سوچ طویل عرصے سے مصروفِ عمل ہے۔ جو ہمیشہ پاکستان میں بسنے والی شیعہ کمیونٹی کو ایران کے کسی بھی عمل سے جوڑنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے۔ حالانکہ حالات اس سے یکسر مختلف اور الگ ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے افراد صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔ سبز پاسپورٹ رکھنا یقینی طور پر پاکستانیوں کی پوری دنیا میں پہچان ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی دوسرے ملک کی پاکستان کے خلاف کاروائی نا صرف قابل مذمت ہے بلکہ مکمل اور باقاعدہ ردعمل کی متقاضی ہے۔ پاکستان میں اس وقت شیعہ مکتبہء فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش چار سے پانچ کروڑ ہے۔ اور ایک بھی فرد آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو ایران کی محبت میں پاکستان کی مخالفت کرتا نظر آئے۔ یہ اپنے وطن سے محبت ہے۔ اور وطن کا عشق ہے کہ اس دھرتی سے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستانیوں کے لیے بطور مجموعی سعودی عرب ہو یا ایران محبت کا معیار پاکستانیت ہونا چاہیے۔ اگر کوئی بھی ریاست پاکستان کے خلاف کام کرے تو اس کی ہمارے دل میں کوئی جگہ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان نے ایران کی سرحد کے اندر کم و بیش 50 کلو میٹر تک کاروائی کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ یہ کاروائی یقینی طور پر ہونی بہت ضروری تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply