تبلیغی جماعت کے نئے امیرمولانا نذر الرحمن۔۔۔۔ فیصل عرفان

تبلیغی جماعت کے نئے امیرحافظ مولانا حاجی نذر الرحمن کا آبائی تعلق تحصیل و ضلع راولپنڈی کے گاؤں ’’بلاول‘‘ سے ہے۔یہ گاؤں راولپنڈی سے جائیں توچکری سے بجانب مغرب 10کلومیٹر دوردریائے سواں کے دوسری جانب واقع ہے،’’بلاول‘‘ قیام پاکستان سے قبل تحصیل فتح جنگ ضلع کیمبل پور میں شامل تھا،مولانانذر الرحمن 1929ء میں حافظ غلام محی الدین مرحوم کے گھر پیدا ہوئے ، حافظ غلام محی الدین مرحوم دیندار شخص اور حضرت پیر مہر علی شاہ ؒکے عقیدت مندوں میںسے تھے ،اس زمانے میں ذرائع آمد و رفت محدود ہونے کے باعث پیر صاحب سے ملاقات کیلئے وہ پیدل گولڑہ شریف آیا جایا کرتے تھے۔حافظ غلام محی الدین کے تینوں صاحبزادے حاجی حافظ فضل حسین ، حافظ محمد صدیق عرف محمد جی اور مولانا نذر الرحمن اسم بامسمیٰ ثابت ہوئے ۔
محمد نذیر رانجھا کی ’’تاریخ وتذکرہ خانقاہ سراجیہ نقشبندیہ مجددیہ‘‘ کے مندرجات کے مطابق :’ ’مولانا نذرالرحمن نے ابتدائی کتب کی تعلیم موضع بھترال ضلع راولپنڈی میں مولانا عبدالخالق سے حاصل کی،بعد ازاں دارالعلوم ربانیہ بھوئی گاڑ میں مفتی عبدالحی قریشی اور حضرت مولانا فرید الدین قریشی سے اعلیٰ کتب کی تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ خادم العلوم نبوت کٹھیالہ شیخاں ضلع گجرات میں شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود فاضل دیو بند وشاگرد حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی سے 1949 اور 1950 ء میں دورہ حدیث مکمل کیا۔‘‘
حصول علم کے بعد آپ اپنے گاؤں’’ بلاول‘‘ واپس آئے اور 1950سے 1955ء تک گاؤں میں ہی رہے۔گاؤں کی مسجد میں اس وقت ان کے بڑے بھائی حاجی حافظ فضل حسین امامت کراتے تھے ۔انھوںنے بھائی سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مسجد کی امامت میں سنبھالنا چاہتا ہوں تو حاجی حافظ فضل حسین نے مسجد ان کے حوالے کی اور خودمندرہ چکوال روڈ پر تحصیل گوجر خان کے ایک گاؤں حصال شریف نزد جاتلی کی ایک مسجد میں امامت شروع کر دی۔حاجی حافظ فضل حسین کاتذکرہ بھی یہاں دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، ڈیڑھ سال حصال شریف گزارنے کے بعد حاجی فضل حسین موہڑہ فاطمہ نزد بھنگالی شریف اور بعد ازاں کچھ عرصہ ٹھیکریاں گوجر میںامامت کراتے رہے،اسی دوران حاجی حافظ فضل حسین کے صاحبزادے اور مولانا نذر الرحمن کے بھتیجے قاضی عبدالروؤف گورنمنٹ ہائی سکول جاتلی میں نویں جماعت میں زیر تعلیم بھی رہے،حاجی حافظ فضل حسین مرحوم، اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ جب انہیں قرآن پاک حفظ کرانے کا ارادہ کیاگیا تو حافظ غلام محی الدین انہیں لے کر پیر مہر علی شاہ ؒکے پاس گولڑہ شریف پہنچے توپیر صاحب نے حاجی فضل حسین مرحوم کے ہونٹوں کیساتھ اپنے لب مَس کیے اور کہا کہ ’’حافظاں نیں کہار حافظ ہونڑیں‘‘یعنی حفاظ کرام کے گھر حفاظ ہی پیدا ہوتے ہیں‘‘۔حاجی حافظ فضل حسین گوجر خان سے غوثیہ مسجد تھانہ سٹاپ واہ کینٹ منتقل ہوئے اور پھر تمام عمر وہیں درس و تدریس میں گزار دی،وہ اس زمانے میں واہ کینٹ سے جب اپنے گاؤں بلاول سائیکل پر جاتے تو راستے میں ایک قرآن پاک دہرا لیتے تھے ۔
گاؤں میں قیام کے دوران ہی جب 1953ء میں ختم نبوتؐ کی تحریک چلی تو مولانا نذر الرحمن اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس میں شرکت کیلئے راولپنڈی روانہ ہوئے تو چکری پولیس چوکی کے انچارج نے انکے ساتھ آئے باقی ساتھیوں کو واپس بھیج دیا اور انہیں دو بزرگ ساتھیوں کے ہمراہ راولپنڈی جانے دیا جہاں مولانا نے تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اورجیل بھی کاٹی۔
معروف محقق راجہ نور محمد نظامی آف بھوئی گاڑ روایت کرتے ہیں :’’1955ء میں مولانا نذر الرحمن گاؤں سے دارالعلوم ربانیہ بھوئی گاڑ نزدٹیکسلا تحصیل حسن ابدال ضلع اٹک میںدرس و تدریس کیلئے چلے گئے،جہاں وہ 20جنوری 1960ء تک پڑھاتے رہے ، اسی دوران حضرت مولانا قاضی شمس الدین ہزاروی(برادر نسبتی مفتی عبدالحئی قریشی) کے ہمراہ خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف میںابوالفضل مولانا خواجہ خان محمد کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت فرمائی اور تکمیل علوم سلوک و معرفت کے بعد سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں خلافت اور بیعت کی اجازت حاصل کی۔مولانا نذر الرحمن کے دونوں صاحبزادے مولانا عبدالرحمن اور مولانا عبدالحنان بھی دارالعلوم ربانیہ بھوئی گاڑ میں پڑھتے رہے اور بعد ازاں مولانا عبدالحنان مرحوم اسی مدرسہ میں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔استادگرامی مفتی عبدالحئی قریشی کی خواہش پرمولانا نذر الرحمن مرکزی جامع مسجد ٹیکسلا میں تین سال اور تبلیغی مرکز مسجد3 -ایف واہ کینٹ میں چار سال امامت و خطابت کرتے رہے۔اسی دوران ٹیکسلا میں مولانا حکیم محمد داؤد کے قائم کردہ مدرسہ تعلیم القرآن میں طلباء کو عربی زبان بھی پڑھاتے رہے‘‘۔
ٹیکسلا اورواہ کینٹ کے بعد ڈی ایم ٹیکسٹائل ملز ڈھوک حسو راولپنڈی کی مسجد میں امامت و خطابت کا سلسلہ جاری رکھا۔وہیں سے زکریا مسجد راولپنڈی میں پڑھانے جاتے تھے۔بعد ازاں ڈی ایم ٹیکسٹائل ملز کو خیر باد کہہ کر مستقل طور پر زکریا مسجد سے منسلک ہوگئے اور وہاں دس سال گزارنے کے بعدرائے ونڈ میں عالمی تبلیغی مرکزمیں اہم ذمہ داریاں سنبھال لیں۔آجکل مدرسہ عربیہ تبلیغی مرکز رائے ونڈ میں طلبہ کو پڑھاتے ہیں۔وہ 2بارپیدل حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبدالرحمن ’’زکریا مسجد‘‘ راولپنڈی میں درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ منجھلے صاحبزادے مولانا عبدالحنان کا انتقال ہوچکاہے۔ تیسرے صاحبزادے مولانا محمد عثمان ، فاروق اعظم مسجد سمن آباد فیصل آباد میں امامت و خطابت کراتے ہیں۔اسی مدرسہ میں قبل ازیں مولانا نذر الرحمن کے بڑے بھائی حافظ محمد صدیق المعروف محمد جی بھی پڑھاتے رہے ہیں۔مولانا نذر الرحمن کے داماد مولانامحمد یونس مرحوم بھی اسلام آباد میں دینی مدرسہ چلا تے رہے ہیں۔موتی محل سینماء راولپنڈی کے عقب میں واقع مسجد و مدرسہ کے مہتمم اورتحصیل گوجر خان کے گاؤں گورسیاں سے تعلق رکھنے والے قاری محمد رفیق مرحوم کے حافظ محمد صدیق المعروف محمد جی اور انکے خاندان کیساتھ دیرینہ مراسم تھے اور اس خاندان میں ہونیوالے متعدد اہم فیصلے قاری محمد رفیق مرحوم کی مشاورت سے ہوتے تھے۔
حاجی عبدالوہاب نے اپنی وفات کے بعد جماعت کی قیادت سپرد کرنے کیلئے تین علماء کے نام تجویز کیے تھے۔مرکزی اجتماع گاہ رائے ونڈ میں حاجی عبدالوہاب کی نماز جنازہ سے قبل انکے پرانے خدمت گار مولانا محمد فہیم نے انکی وصیت پڑھ کر سنائی اور کہا کہ حاجی عبدالوہاب نے اپنی وفات کے بعد تبلیغی جماعت کی قیادت کیلئے تین علمائے کرام کے نام تجویز کیے، جن میں پہلے نمبر پر مولانا نذر الرحمن،دوسرے نمبر پر مولانااحمد بٹلہ اور تیسرے نمبر پر مولانا عبید اللہ خورشید کا نام ہے۔حاجی عبدالوہاب نے 17ستمبر 2015ء کو اپنی وصیت تحریر کرائی تھی۔بھارت سمیت دنیا بھر سے آئے ہوئے تبلیغی جماعت کے بزرگوں نے مشاورت کے بعد حاجی عبدالوہاب کی وصیت پر من و عن عمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور باہمی اتفاق سے مولانا نذر الرحمن کو تبلیغی جماعت کا نیا امیر مقرر کر دیا گیا۔مولانا نذر الرحمن نے ہی حاجی عبدالوہاب کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔وصیت میں درج تھا کہ اگر مولانا نذر الرحمن بھی اس دنیا سے پردہ کر جاتے ہیں تو انکے بعد امارت کی ذمہ داری مولانا احمد بٹلہ اور انکے بعد یہ ذمہ داری مولانا عبید اللہ خورشید کو سونپ دی جائے۔مولانا نذر الرحمن پاکستان میں تبلیغی جماعت کے ابتدائی 20افراد میںسے ایک اور حاجی عبدالوہاب مرحوم کیساتھ طویل عرصہ تک جماعتی نظم کے تحت ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں،2015ء میں از سر نو ترتیب دی گئی تبلیغی جماعت کی عالمی شوریٰ کے بھی رکن رہے ہیں۔
نوٹ:اداریہ/ مضمون نگار روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد میں سب ایڈیٹر ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply