ایک اور خط ناصر عباس نیّر کے نام/سرورالہدیٰ

9جنوری2023کی تحریر پر ایک سال کا عرصہ بیت گیا۔اس عرصے میں “نئے نقاد کے نام خطوط” پر بہت سی تحریریں شائع ہوئیں اور مذاکرے ہوئے۔ایک مذاکرہ تو غالب انسٹی ٹیوٹ میں ہوا۔اس میں ادب کے بزرگ، جوان اور نوجوان اسکالرز نے خیالات کا اظہار کیا۔پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی ، پروفیسر شافع قدوای، پروفیسر عاصم صدیقی،ڈاکٹر معراج رانا، ڈاکٹر معید الرحمن، ڈاکٹر عبد السمیع، ڈاکٹر نوشاد منظر اور فیضان الحق نے اپنی تحریر اور تقریر سے اس جلسے کو یادگار بنا دیا۔کتاب کے مصنف پروفیسر ناصر عباس نیر آن لائن شریک ہوئے۔ڈاکٹر امتیاز علیمی نے کتاب سے چند اقتباسات پیش کیے۔یہ سب کچھ بہت ہی حوصلہ افزا اور خوبصورت تھا۔

ایک سال کے بعد اپنی ہی تحریر کو دیکھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے کہ کتاب کی اشاعت سے پہلے جو خطوط مطالعے میں آئے وہ دراصل شائع ہونے والی کتاب کے لیے کم سے کم ہمارے یہاں سنجیدہ ادبی حلقے میں راہ ہموار کر رہے تھے۔علمی اور ادبی دنیا کی اصل پہچان تو علم و احساس کی سطح اور اس میں پوشیدہ اخلاص سے ہے۔علم کے ساتھ اخلاص ادبی تحریر کو داخلی طور پر بہت پر قوت بنا دیتا ہے۔پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب ذہنی اور قلبی تنگنائی کے سبب علمی کتاب اور علمی چہرے سے اجتناب کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک صورت کتنی صورتوں کو خراب کرتی ہے۔اجتناب کوئی غیر فطری شے نہیں لیکن علمی کتاب اور علمی چہرے سے طویل فاصلہ وہ بھی جو تنگنائی کے سبب قائم ہوا ہو ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ۔ادب کے مختلف مسائل و اسالیب کے تعلق سے سوچنا، مستقل سوچنا، نئے ذہن کے ساتھ سوچنا کوئی کھیل تماشا  تو نہیں ہے۔

کیا وجہ ہے کہ ایک کھیل تماشے نے ہمیں اندر سے کشادہ کرنے کے بجائے چھوٹا کر دیا ہے۔ علم و ادب کی دنیا میں تناظر کا چھوٹا ہو جانا محرومی کے سوا اور کیا ہے ۔عمر بڑھتی جاتی ہے وقت بھی نکلتا جاتا ہے پرانے لوگ وقت کے ساتھ نئے بھی معلوم ہوتے ہیں ۔نئے لوگ فکری طور پر نئے ہوتے بھی نہیں کہ وہ پرانے معلوم ہوتے ہیں۔جن اہم ادیبوں سے ہماری جان پہچان ہے ان کے بارے میں بھی اگر سوچا جائے تو ہم خود کو وقت کے ساتھ بہتر بنا سکتے ہیں۔اس وقت اردو کے بزرگ اور بڑے اسکالر محمد سلیم الرحمٰن ہمارے درمیان موجود ہیں ان سے جب کسی ادیب یا کسی کتاب کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے تو وہ یہ بتا دیتے ہیں کہ اس کا موضوع کیا ہے اور زمانہ کیا ہے۔یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب کوئی ادیب خود کو وقت کے ساتھ تازہ دم رکھنا چاہے۔ بڑھتی ہوئی عمر ذہنی اور فکری طور پر اگر پرانا بنا دے تو اس میں قصور کس کا ہے۔ کون کتنا نیا ہے اور پرانا اس کا فیصلہ ہماری ادبی ضرورت میں شاید شامل نہیں ۔ہم فکری طور پر نئے ہو کر بھی پرانے ہو سکتے ہیں اور پرانے ادب پر گفتگو کرتے ہوئے تازگی کا احساس دلا سکتے ہیں۔

ابو الکلام قاسمی نے محی الدین قادری زور کی روح تنقید پر ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان ہے محی الدین قادری زور اور نظریاتی تنقید۔مضمون پڑھنے کے بعد انہیں علی گڑھ فون کیا۔کہنے لگے کہ یہ کتاب بعض اعتبار سے آج بھی اہم ہے تم ذرا اسے دوبارہ دیکھو۔اسی کو مطالعے اور تنقید کا پرانا اور نیا زاویہ کہتے ہیں ۔روح تنقید میں نقات کے تعلق سے زور نے مطلق العنانیت کا بھی ذکر کیا ہے۔گویا نقاد کو مطلق العنان نہیں ہونا چاہیے۔ نئے  نظریات اور نئے میلانات کا حوالہ دینا ہی کافی نہیں انہیں شخصی احساس کا حصہ بھی بننا چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ علمی اور نظریاتی گفتگو ہمیں بہت اجنبی معلوم نہیں ہوتی۔اس اجنبیت کو ختم کرنے کے لیے جن ادیبوں اور ناقدوں نے سخت محنت کی ہے ان میں ایک اہم نام ناصر عباس نیر کا ہے۔لیکن کوئی تحریر اسی وقت کسی قاری سے اپنی اجنبیت کو کم کر سکتی ہے یا ختم کر سکتی ہے جب وہ خود بھی اجنبیت کو آشنائی میں تبدیل کرنا چاہے گزشتہ چند برسوں میں بہت سے ایسے اذہان ٹھہر سے گئے جنہیں بہت سوچنا تھا اور فکری سطح پر ادبی معاشرے کو بہت کچھ دینا تھا۔

اس تلخ حقیقت کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کی تہہ میں یہ فکر کار فرما نظر ائے گی کہ نظریاتی گفتگو تخلیقی سوتے کو خوش کرتی ہے اور اگر یہ نظریاتی گفتگو مغربی علوم اور فنون سے تحریک پا کر وجود میں ائی ہے تو اسے اور بھی نظر انداز کرنا چاہیے۔مغرب سے مکالمے کا مطلب مشرق سے اگر دستبردار ہو جانا ہے تو ہماری ادبی تاریخ میں ایسا کب ہوا۔بعض سادہ لوح اور سنجیدہ لکھنے پڑھنے والے بھی علمی معاملات سے اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں کہ مجلسی گفتگو میں شریک ہوا جا سکے۔ دنیا میں علم اور آگہی کا جو سلسلہ اور سفر ہے اس کی طرف نگاہ کیجئے تو کہاں اس کا وقت ہے کہ ذہنی تنگنائی کو اپنا مستقر بنا لیا جائے۔وقت تیز تر بھاگتا جاتا ہے ہر آ نے والا دن آنے سے پہلے لگتا ہے کہ گزر جاتا ہے۔ہم ایک چھوٹی سی دنیا میں رہ کر خود کو کتنی بڑی دنیا کا باشندہ سمجھتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ چھوٹی دنیا کبھی چھوٹی نہیں ہوتی ۔

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ چھوٹی سی دنیا نے بڑی دنیا کو للکارا ہے۔ کم وسائل کے ساتھ کتنے اہم کام لوگوں نے انجام دیے ہیں۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب ذہنی اور فکری طور پر بلکہ قلبی طور پر انسان تنگنائی کا شکار نہ ہو۔ذہنی تنگنائی سے اگر صرف اپنا نقصان ہو تو بھی افسوسناک ہے مگر جب یہ بڑی آبادی کو اپنی گرفت میں لے لے تو یہ زیادہ بڑا نقصان ہے۔میں اس وقت جہاں بیٹھا ہوں وہاں سے تھوڑا سا فاصلہ ہے جہاں امداد امام اثر نے “کاشف الحقائق” جیسی کتاب لکھی۔کتاب کی اگر تمہید دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ چند احباب بیٹھے تھے اور ان میں سے کسی نے امداد امام اثر سے کہا کہ آپ ایک ایسی کتاب لکھیے ۔سر سید تحریک کے اثرات عظیم آباد پر بھی تھے امداد امام اثر کو سنسکرت، فرانسیسی، عربی، فارسی زبانوں سے گہری آشنائی تھی۔اس زمانے میں اردو کے کم ہی ایسے ادیب تھے جنہیں امداد امام اثر کی طرح انگریزی آتی ہو۔ایک خاص مقام پر ایک خاص وقت میں کس طرح مقامیت بین الاقوامیت کو اٹھا لاتی ہے اور اس میں مقامیت کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔”نئےنقاد کے نام خطوط” نہ کوئی منشور ہے نہ کوئی ترغیب ہے اور نہ کوئی تلقین ہے۔یہ الفاظ ادبی نقطہ نظر سے اتنے غیر اہم بھی نہیں جتنے کہ سمجھے جاتے ہیں۔مجھےان لفظوں کا خیال اس لیے آیا ہے کہ کبھی سنجیدہ لکھنے پڑھنے والے بھی سنجیدہ تحریر کو اصل سیاق میں دیکھ نہیں پاتے۔اور لگتا ہے کہ اس قسم کی علمی تحریریں منشور کی طرح ہیں۔ادبی ماحول اور معاشرہ کبھی ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔لیکن ادبی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ادبی معاشرے کو علمی اور تخلیقی طور پر سنبھالنے کے لیے اسے ایک مخصوص ذہنی اور فکری سطح پر رکھنے اور لے جانے کے لیے کچھ کتابیں وجود میں آتی رہی ہیں۔مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ تھوڑی سی ذہنی اور قلبی وسعت ہمیں داخلی سطح پر ثروت مند اور صحت مند بنا سکتی۔میلان کنڈیرا کے انتقال پر سید کاشف رضا نے ان کی یاد میں جس جلسے کا اہتمام کیا تھا وہ بھی ہماری علمی دنیا کا ایک اہم حوالہ ہے۔اسی سے ہماری علمی اور تہذیبی زندگی روشن ہوتی ہے۔نئے نقاد کے نام خطوط میں مشرق اور مغرب کی آگہی گلے ملتی نظر آتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

علمی دنیا تخلیقی دنیا بھی ہے اور تخلیقی دنیا علم سے کیسے بیگانہ رہ سکتی ہے۔ نئی اور پرانی کتاب ہی تو ہے۔پھر بھی کوئی پرانی کتاب وقت کے ساتھ بہت پرانی نہیں ہوتی۔ناصر عباس نیر کے یہ خطوط کس کے نام ہیں۔اگر یہ سوال کسی سے کیا جائے تو اس کا جواب کیا ملے گا۔جی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جیسے یہ خطوط مطالعے میں آ رہے ہیں وہ نام بھی روشن ہوتے جا رہے ہیں جن کے نام یہ خطوط لکھے گئے۔وقت کے ساتھ نئے نام سامنے آتے جائیں گے۔
جلد ہی “نئے نقاد کے نام خطوط” کا ہندوستانی ایڈیشن سامنے آ جائے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply