پچھتاوا۔۔جمیل آصف

“یہ ایک ٹانگ سے لنگڑا ہے اور چہرہ دیکھو کتنا مطمئن ہے یار، اور کیسے پھرتی سے چھلی بھون رہا ہے ۔۔ لگتا ہی نہیں کہیں سے بھی اسے دکھ ہے اپنی معذوری کا ۔۔۔”
حاشر اور سعد فیکٹری سے گھر جاتے ہوئے بہت ڈسٹرب تھے دل کر رہا تھا کہیں گاڑی کو ہی مار دیں کیونکہ ایک بڑا کنٹریکٹ ہاتھ سے نکل گیا، جس سے  ان کی بہت سی توقعات وابستہ تھیں ۔
ایک بہت بڑی ایکسپورٹ کی فرم اپنا مینوفیکچرنگ یونٹ، اچھی گاڑی اور بڑا سا بنگلہ ملازمین کی فوج کے ساتھ، کیا کچھ آسائشات نہیں تھیں، جن سے اللہ نے انہیں نواز نا ہو، مگر پھر بھی سکون ان کی زندگی میں خال خال ہی نظر آتا تھا ۔

بھٹیارے کے چہرے پر اطمینان دیکھ کر یہ پہلا موقع نہیں تھا، وہ حیران ہوئے ہوں، اکثر وہ سوچتے ضرور تھے ۔ مگر یہ سوچنا حسرت سے نہیں حسد سے تھا، بقول ان کے یہ دو ٹکے کے لوگ کیسے اتنا خوش رہتے ہیں ۔

گاڑی شوں کرکے سگنل کراس کر گئی ۔
ایک دم سعد کے ذہن میں کیا آیا ۔
“حاشر یار بریک لگاؤ فوراً”
گاڑی کو ایک سائیڈ پر کرتے ہوئے حاشر نے سعد سے کہا
“اب کیا مصیبت ہے، تمھیں اندازہ ہے اس وقت ہم کس کرب کا شکار ہیں ۔ میں فوراً آرام کرنا چاہتا ہوں ۔دماغ ماؤف پڑا ہے، ایک سال سے امید تھی آج وہ بجھ گئی اور تمھیں پتا نہیں کیا سوجھ رہی ہے ”

حاشر نے اسے چلّا چلّا کر کہا
“یار آگے سے یو ٹرن لے کر اس چھلی والے کے پاس چلتے ہیں کچھ دیر کے لیے ۔۔۔”
سعد کے الفاظ سن کر حاشر اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگا
” پاگل ہوگئے ہو صدمے سے کیا، چلو جلدی گھر میں سب انتظار کر رہے ہیں ۔ اب جا کر سب کو یہ منحوس خبر بھی دینی ہے،”
سعد نے اسے غصے سے دیکھا ۔
” یار میں اس سے ملنا چاہتا ہوں”
طنزیہ مسکراہٹ سے حاشر نے اس کی دماغی صحت کو شبہ کی نظر سے دیکھا اور گاڑی یو ٹرن کی طرف بڑھا دی ۔
” تم اس سے چاہ کیا رہے ہو ۔ ہمیں آرام کی ضرورت ہے ۔دماغ بہت زیادہ دباؤ میں ہے اندرونی بے چینی نے عجیب کیفیت کی ہوئی ہے ۔ اور تم اس دو ٹکے کے معذور ریڑھی والے سے ملنا چاہتے ہو ۔ کیا بچوں والی حرکتیں ہیں ۔۔۔”
حاشر نے اسے کھری کھری سنا دیں، مگر سعد کسی اور سوچ میں گم تھا، حاشر کی گفتگو اسے بے معنی لگنے لگی ۔
” او ہیلو بات سنو ”
حاشر نے گاڑی ریڑھی کے پاس روکی اور مجید خان کو آواز دی ۔۔

مجید نے سر اٹھایا، ریڑھی کے سامنے بڑی مہنگی گاڑی اور سوٹڈ بوٹڈ نوجوانوں پر نظر پڑی ۔۔۔
“جی صاب ابھی آیا ”
اور انہیں جواب دے کر چھلی کو جلدی جلدی تیار کرنے لگا ۔
“یار کچھ دیر اس کے پاس بیٹھتے ہیں ۔”
سعد نے حاشر کو کہا، حاشر کو پکا یقین ہو گیا کہ اس کی دماغی حالت آرڈر کینسل ہونے سے ڈسٹرب ہے ۔
۔انتہائی کوفت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
“چلو ٹھیک ہے، جلدی سے بات کر لو یا جو لینا ہے لے لو، لوگ کیا سمجھیں گے، اگر کسی جاننے والے نے دیکھ لیا تو ”
اور سعد اور حاشر گاڑی سے اتر کر مجید خان کی ریڑھی کی طرف بڑھے ۔۔۔

اسلام علیکم خان صاحب کیسے ہیں؟”
سعد نے خلاف مزاج مجید خان سے خیریت دریافت کی، اور اس کی طرف ہاتھ بڑھایا، جسے حاشر نے انتہائی کراہت کے ساتھ نفرت کی نظر سے دیکھا ۔۔۔ اس نے سوچا ایک بار یہ گھر چلے اس کی طبیعت کیسے صاف کرتا ہوں۔ سوسائٹی کے رکھ رکھاؤ ہی بھول گیا چند لمحوں میں ۔۔ اس ریڑھی والے سے تو ہمارے خاکروب اچھے ہیں ۔۔۔
“باسٹرڈ، بلڈی چیپ، ڈفر”
حاشر زیر لب غصے سے سعد کو بولنے لگا ۔۔۔
پھر اس نے خود کو اس ماحول سے غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کی ۔۔۔ اور خود سے ہم کلام ہوا
“میری بلا سے جہنم میں جائے”

مجید خان نے تھری پیس میں ملبوس ایک خوش لباس نوجوان کو دیکھا تو اس کی خوش اخلاقی سے سلام کا جواب دینے کے لیے اپنا واحد ہاتھ خوش دلی سے بڑھا دیا ۔۔۔
“وعلیکم السلام صاب، اللہ کے فضل سے بالکل ٹیک ٹھاک ہوں ”
سعد نے اس کا گرم جوشی سے ہاتھ تھاما اور گفتگو کے لیے مناسب الفاظ کو تلاش کرنے لگا ۔
” خان صاحب چھلی کتنے کی ہے”
مجید خان : صاب 20 والا بھی ہے، 30 والا بھی ہے ، آپ بولو  کون سا بنا دو
سعد :30 والی دو بنا دیں اور اچھی سی تیار کردیں
مجید خان : جی صاب
حاشر : سعد مجھے ضرورت نہیں پلیز اپنے لیے بنوا لو ۔۔ پتا نہیں صفائی رکھتا بھی ہے کہ نہیں؟
حاشر کے انداز اور لب و لہجہ کو مجید خان نے محسوس کیا، دونوں ہی اسے مختلف لگے ۔۔۔
“جی صاب ایک ہی بنا دیتا ہوں آپ فکر نہ  کریں”
سعد اپنے اندر اٹھتے ہوئے سوالات کو اب ترتیب دینے لگا ۔ ۔
“سعد: خان صاحب آپ اتنی گرمی اور دھوپ میں کیسے کام کر لیتے ہیں؟”
سعد نے اس دھوپ اور بھٹی کی بھڑکتی آگ میں اسے حیرانگی سے کام کرتے دیکھا ۔۔۔ وہ تو اے سی کے بنا زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔۔۔ اسے یاد آیا ایک بار بنا اے سی کے ٹیکسی میں سفر کرکے اس کی جان پر بن آئی تھی ۔۔۔ اسے اس کی ہمت پر رشک آیا ۔

“مجید خان: صاحب ۔۔ مالک سے اجر لینے کے لیے پسینہ بہنے کی حد تک محنت تو کرنی پڑتی ہے ۔۔ تبھی رزق ملتا ہے ۔۔”
سعد کو بات سن کر جھٹکا لگا ۔۔۔ کتنے اطمینان سے وہ شکر کے ساتھ کہہ رہا ہے ۔۔۔

“سعد: اتنی محنت کرتے ہیں ، کتنا کما لیتے ہیں دن بھر میں؟”
اس کے ذہن میں تھا کم از کم وہ 2000 تو روز بناتا ہو گا ۔۔۔

” مجید: جس سے دو وقت کی ضرورت پوری ہوجائے صاحب۔۔ کبھی کام اچھا چل جائے تو” سعد کے ذہن میں وہی عام کاروباری بات، کوئی اپنی آمدن نہیں بتاتا ۔۔.

” سعد : خان صاحب وہ تو ٹھیک ہے! اوسط کچھ تو بنتا ہو گا 500، “1000؟”
اس نے پھر بھی اصرار کیا ۔
“مجید: کبھی 800 اور کبھی 1000 صاحب”
800، ہزار کا سن کر اسے دھچکا لگا ۔۔ اس سے زیادہ تو وہ ہوٹل میں لنچ یا ڈنر کرتے ہوئے دوستوں کے ساتھ ٹپ دے جاتے ہیں ۔۔۔ اور یہ سارا دن کی محنت کے بعد بھی اتنا ۔۔۔ اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا ۔۔۔پھر بھی دوبارہ تسلی ۔
“سعد :یعنی 800 روپے روز کما لیتے ہوں
مجید خان کو کچھ کچھ اس میں بے چینی محسوس کی، عجیب بات کر رہا ہے ہم اتنا ہی کماتے ہیں ۔۔ اس میں حیران ہونے والی کیا بات۔۔۔

” مجید: جی صاحب۔۔ آپ یہ لیں گرم گرم چھلی آپ کچھ پریشان دکھائی دیتے ہیں ”
سعد نے گردن ہلا دی۔۔.
“سعد: درست کہا!خان صاحب
اتنے پیسوں میں گزارا ہو جاتا ہے ۔؟
مجید: ایک کمرے کا گھر،بیوی بچوں کو دو وقت کی روٹی ملتی رہے صاحب ۔۔ اللہ کا شکر ہے۔ضرورت پوری ہو رہی بس کرم ہے اس پروردگار کا”
سعد حیران تھا یہاں ہٹے کٹے افراد مانگتے ہیں ۔اور یہ اپنی معذوری کے باوجود کتنے اطمینان سے ہے ۔اسے بہت ترس آیا ۔
” سعد: اپنی اس معذوری کا دکھ نہیں؟ کتنی مشکل ہوتی ہو گئی ۔؟
مجید: نہ صاحب ۔۔ یہ معذروی نہیں ہے۔۔ یہ بس نقص ہے ۔۔ اللہ نے مجھے دماغ دیا ،عقل دیے ،ہاتھ دیے ۔۔ اس نقص سے میری زندگی میں کوئی دکھ نہیں ۔۔ صاحب جب رزق کی تلاش ہو تو بندہ اندھا دھند کوشش کرتا ہے تو پھر عادت ہوجاتی ہے بھاگتے بھاگتے اور انسان اپنی مشکلوں کا بھی عادی ہوجاتا ہے ۔۔ جو عادی ہوگیا وہ شاکر ہوگیا۔۔
سعد: رات کو نیند آ جاتی ہے ۔ان حالات میں بھی؟

مجید: ہاں صاحب۔۔ بس کام مندا ہو یا چنگا کبھی فکر نہیں ۔۔ سارا معاملہ مالک پہ چھوڑ کہ سو گیا اللہ کا احسان ہے صاحب، سکون کی نیند آتی ہے اور مالک کا بلاوہ آتے ہی آدھی رات نماز پڑھ کہ پھر فجر تک پُرسکون سویا رہتا ہوں۔۔”
اس دوران حاشر نے اس کو آواز دی اب چلیں میں مس فٹ محسوس کر رہا ہوں، اس ماحول میں
” ہاں چلیں”

سعد نے بوجھل دل کے ساتھ گاڑی کی طرف قدم بڑھائے ۔۔
اور اس کی گفتگو پر غور کرنے لگا۔۔۔

” ہم میں اور اس میں کیا فرق ہے ۔۔۔ جو وہ اتنا مطمئن نظر آتا ہے ۔۔۔ جس اطمینان کے لیے ہم لاکھوں روپے لگاتے ہیں ۔۔۔ پھر بھی وہ خوشی چہرے پر نہیں آتی جو اس کے چہرے سے پھوٹتی ہے

کیا وہ خوشی کے اسباب مصنوعی ہیں ۔۔۔ جن کو ہم اختیار کرتے ہیں ۔۔”
وہ خود سے باتیں کرنے لگا ۔۔۔

ایک سوچ اس کے ذہن اور دل میں آئی ۔۔
زور سے خود سے بولا
” ہم میں توکل کی کمی ہے۔۔۔”

حاشر نے چونک کے دیکھا اسے کیا ہو گیا ۔۔۔
” حاشر حاشر ہم میں شکر، قناعت اور توکل کی دولت کی کمی ہے ۔۔۔ ”
اور بے اختیار بلک بلک کے رونے لگا ۔۔۔

آج اس نے اپنی بے چین زندگی کا راز اس بھٹیارے سے پا لیا ۔۔۔
پچھتاوا اسے تڑپا رہا تھا ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن پچھتاوے کے آنسوؤں سے اس کی روح کی کثافت دھل رہی تھی ۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پچھتاوا۔۔جمیل آصف

Leave a Reply