اِ ک سوال کا جواب۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

سوال:آپ شاعر ہیں آپ اپنی تخلیقی صلاحیت کا سرچشمہ کہاں دیکھتے ہیں ؟

جواب:
:سائنسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو سے ابتدا کی جا سکتی ہے۔ میری ماں پنجابی میں اشلوک، دوہرے، دوہڑے، اور لوک شاعری کی دیگر اصناف میں طبع آزمائی کر تی تھیں۔ لیکن یہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہم چھ بھائی بہنوں میں اکیلا میں ہی کیوں شاعری کی طرف راغب ہوا؟ میرے تین بچوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہوا ۔۔۔ تو یہ صلاحیت کیا خود پیدا کردہ ہے؟ کون سے خارجی عوامل اس کی اُپج، ترویج و ترقی میں مددگار رہے ہیں۔ کیا نا مساعد حالات نے اس ترقی کو پیر تسمہ پا کی طرح باندھ کر رکھا ہے یا اسے آتش زیر ِ پا کی طرح آگے، اور آگے بڑھنے پر مجبور کیا ہے۔ میں نے مختلف نظموں میں ایک غیر متعلق ماہر نفسیات کی طرح اپنا بھی کیا ہے اور درون ِ دل نیم روشن فضا میں بھی اسے ٹٹول ٹٹول کر دیکھا ہے۔ کچھ ایک نظمیں بہت طویل ہیں۔ ’’بیاض ِ عمر کھولی ہے‘‘ چار پانچ صفحے بھر دے گی، لیکن کوشش کرتا ہوں کہ کوئی ایک نظم جو اتنی طویل بھی نہ ہو، اس سوال کا جواب بخوبی دے سکے۔پھر سوچتاہوں کہ طویل ہوئی تو بھی کیا ۔۔۔۔ یہی نظم پیش کر دوں

بیاض ِ عمر کھولی ہے
عجب منظر دکھاتے ہیں یہ صفحے جن پہ برسوں سے
دھنک کے سارے رنگوں میں
مرے موئے قلم نے گُل فشانی سے کئی چہرے بنائے ہیں
کئی گُلکاریاں کی ہیں

لڑکپن کے
شروع ِ نوجوانی کے
بیاض ِ عمر کے پہلے ورق
سب خوش نمائی کے نمونے ہیں
گلابی، ارغوانی، سوسنی، مہندی کی رنگت کے
یہ صفحے ، سات رنگوں کی دھنک کے جھلملا تے
وہ مرقعے ہیں
کہ جن میں ہمّت وجرآت
تہّور ، منچلا پن
ہر چہ بادا باد ہر صفحے پہ لکھا ہے
انہی صفحوں میں وہ مکتوب شامل ہیں
حنا مالیدہ دو ہاتھوں
نے جن کی پیار سے تشکیل کی تھی
اور وہ رقعے بھی جن میں پیار کا اظہار شعروں میں رقم تھا
میری پہلی عمر کی کچّی بلوغت میں۔۔۔۔

بیاضِ عمر کھولی ہے
عجب منظر دکھاتے ہیں وہ صفحے بعد کے ان چند برسوں کے
کہ جن پہ میری خود آموزی و ذوق ِ ِ حصولِ علم نے
مجھ کو پڑھائی میں مگن رکھ کر
ادب کے عالمی معیار کا حامل بنا یا تھا
افادی، نفسیاتی، سائنسی تحقیق کی آنکھیں عطا کی تھیں
مجھے لکھنا سکھایا تھا
غلط آموز ہونے سے بچایا تھا
قواعد، بحث، خطبہ، ناظرہ کی تربیت دی تھی
یہ کار آموزیٔ علم و ادب
تِمرین و مشق ِ شعر میں ایسے ڈھلی تھی
مبتدی سے ماہر و مشّاق کہلانے میں
فقط چھ سات برسوں کا فروعی وقت حائل تھا۔۔۔۔

بیاضِ عمر کھولی ہے

بدلتا وقت، آندھی سا، ورق ایسے پلٹتا جا رہا ہے
،مجھ کو لگتاہے
کوئی اک سال تو بس اک مہینے میں
گذر جاتا ہے چپکے سے۔
کئی دن ایسے آتے ہیں
کہ اپنی طولعمری میں
ہزاروں سال جیتے ہیں۔۔۔۔

مرا سویا ہوا ذوق ِ تجسس جاگ اٹھا ہے
ورق پلٹو تو دیکھو، (مجھ سے کہتا ہے)
کسی صفحے کے مخفی حاشیے میں بھی
تو کچھ تحریر ہو گا
یا کوئی پُرزہ سٹیپل سے جُڑا ہو گا
کوئی بُک مارک شاید ہو
کہ جس پر گنجلک الفاظ یا واوین میں، بین السطور
امکانیہ معنی رقم ہوں گے
مرا ذوق ِ تجسس چاہتا ہے اب ، بڑھاپے میں
یہ پوتھی کھول ہی لی ہے اگر میں نے
تو کچھ بھی رہ نہ جائے میری یادوں کی
گرفت ِ نا رسا سے!۔۔۔۔

بیاض عمر کھولی ہے
یہ مخفی حاشیے
یہ خط کشیدہ لائنیں
واوین میں پابند فقرے
میرے جملہ قرض کے بارے میں لکھے ہیں
ادائی ہندسوں کی فربہ پرتوں میں رقم ہوتی ہوئی
میزان تک ایسے پہنچتی ہے
کہ ہر ’فردا‘ سے ’حاضر‘ تک
ہر اک ’حاضر‘ سے’ آئندہ‘ کے دن تک
سُود ہی در ُسود ہے جو بڑھتا جاتا ہے
یہ قرضے وہ ہیں
جو میں اپنے کندھوں پر لیے وارد ہوا تھا
ایک بچہ
بالغوں کی بے ریا دنیا کی جھولی میں
کہیں املاک میں
پُرکھوں کے چھوڑے قرض ہیں
جن کی ادائی مجھ پہ واجب تھی
یہ سب قرضے ادا کرنا ضروری تھا
مگر کچھ قرض کی رقمیں
بزعم ِ خود ، مری شوریدہ سر طبع ِ رسا نے
اپنے کھاتے میں لکھی تھیںاپنی مرضی سے
یہ راس المال جس کو پیشگی میں نے ادا کرنا تھا
حرف و صوت کا تھا ۔
لفظ کی پرتوں کا تھا
نظموں کے سمندر میں کسی غوّاص کا سا تھا
یہ قرضہ عالمی انشاء کے اس سلک ِ بیاں کا تھا
جسے اردو میں ڈھلنا تھا
مری نظموں کی صورت میں!۔۔۔۔

بیاض ِ عمر کھولی ہے۔۔۔۔
وہی محنت، مشقت، کاوش و کاہش، عرق ریزی
اٹھانا زیست کی بھاری صلیبیں
نوجوانی سے بڑھاپے تک
تھکے ماندے، دریدہ پاؤں من من کے
تھکن سے چور گر جانا تو پھراٹھنا
مسلسل ماندگی سے مضمحل
سانسوں کے سرگم پر
پھٹے تلووں سے چلنا، چلتے جانا، قریہ در قریہ
وطن سے دور مغرب کی زمیں تک گردش ِ پیہم
مسلسل ہجرتیں
خانہ بدوشی، لا زمینی، بحر و بر سیر و سیاحت
ملکوں ملکوں، شہروں شہروں گھومنا
شب بھر کہیں رکنا تو اگلی صبح چل پڑنا
نئے ملکوں کو شہروں کو
عناں برداشتہ پا در رکاب آوارگی ،عزلت۔

یہ آتش زیر ِ پا
حرکت پذیری آخرش لائی ہے
مجھ کو اپنی جیتی جاگتی قبروں کی سرحد تک
یہ جیتی، جاگتی قبریں
مری لا مختتم ، عمر ِ دراز و مرتفع کے میل پتّھر پر
دہانے کھول کر بیٹھی ہوئی مجھ کو بلاتی ہیں

کپِل وستو کا شہزادہ
میں گوتم بُدّھ اپنا یہ جنم تو جی چکا ہوں
۔۔۔ اور شاید
اس جنم کے بعد پھر اک اور ہے
اک اور ہے، اک اور ہے
نروان، تو میں جانتا ہوں
مجھ سے کوسوں دور ہے اب بھی۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

بیاض ِ عمرکو اب تہہ کروں اور طاق پر رکھ دوں!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply