کتھا چار جنموں کی ۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط3

تب پہلی بار دس برس کے بچے یعنی مجھے یہ غیر مرئی طور پر محسوس ہوا کہ یہ سفر ہجرتوں کے ایک لمبے سلسلے کی ابتدا ہے۔ میں کوٹ سارنگ آتا جاتا رہوں گا، لیکن اب میں پردیسی ہو چکا ہوں۔ اس گھر تک،اس گلی تک اور کوٹ سارنگ تک میرا رشتہ ایک ڈور سے بندھا ہوا ہے، جس کے آگے گانٹھ پڑی ہوئی ہے۔ اب میں کوٹ سارنگ نہیں رہ سکتا۔

1940ء
پانچویں جماعت کا امتحان نہ جانے کیسے پاس ہوا۔ مجھے یاد تک نہیں ہے کہ میرے School Leaving Certificate پر کیا لکھا ہوا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ میرے بابو جی نوشہرہ چھاؤنی سے کچھ دنوں کے لیے آئے اور سب کوتیارہونے کے لیے کہا۔ ماں، دادی اور اس سے دو برس بڑی بہن ساتھ لے جانے والا سامان باندھنے لگ گئیں۔ میں بد حواس سا کبھی ادھر دیکھتا، کبھی اُدھر دیکھتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔
ہم کوٹ سارنگ چھوڑ کر کیوں جائیں؟
”آگے پڑھنا نہیں ہے کیا؟ یہ اسکول تو صرف پانچویں جماعت تک ہے۔“ میری بہن نے کہا۔
”ہاں، پڑھنا ہے،“ میں نے کہا تھا، ”لیکن، کیا ہم یہاں اب کبھی واپس نہیں آئیں گے؟“
”کیوں نہیں آئیں گے؟ ہر برس گرمیوں کی چھٹیوں میں آیا کریں گے“ میری ماں نے کہا۔

میں نے دائیں بائیں دیکھا۔ مجھے لگا جیسے میرا کنچوں سے بھرا ہوا چھوٹا سا کپڑے کا تھیلا اچک اچک کر مجھ سے کہہ رہا ہو، ”مجھے ساتھ لے جانا نہ بھولنا۔ وہاں بھی سنگ سنگ کھیلیں گے“۔ گلی ڈنڈا دالان میں اکٹھے پڑے تھے۔ گلی جیسے تلملا رہی تھی، میری آنکھوں کو شاید دھوکہ ہوا ہو، لیکن مجھے لگا کہ ڈنڈا تو چُپکا پڑا رہا، لیکن گلی اچھل کر میرے پاؤں کے پاس آ گری۔ بولی، ”ہونھ، ہونھ، میں بھی ساتھ چلوں گی۔ ڈنڈے تو ہر جگہ مل جاتے ہیں، وہاں کوئی ترکھان کہاں ہو گا، جو نئی گلی بنا دے گا۔ مجھے ابھی سے اپنی کتابوں میں یا کپڑوں میں چھپا دو۔ ماں نے دیکھ لیا، تو نہیں لے جانے دے گی۔“ میں نے دیوار پر نظر دوڑائی۔ میرے پتنگ کی مانجھا لگی ڈور کی چرخڑی دیوار پر ایک کیل کے ساتھ ٹنگی ہوئی تھی۔ پتنگ نیچے زمین پر پڑا تھا۔ مجھے لگا جیسے پتنگ کو شاید ہوا کے ایک نا دیدہ جھونکے نے اڑا دیا ہو اور وہ میرے پاؤں کے پاس آ گرا ہو۔ لیکن نہیں، پتنگ تو وہیں پڑا تھا، ہو ا کے جھونکے نے اسے ہلا دیا تھا اور وہ پھڑپھڑا کر کچھ کہہ رہا تھا۔ پتنگ کی بولی صرف ومیں ہی سمجھ سکتا تھا، کوئی اور نہیں۔ وہ کہہ رہا تھا، ”وہاں بھی تو میں نے ہی دوسرے پتنگ بازوں کے بو کاٹے کرنے ہیں۔ مجھے کیسے نہیں لے جاؤ گے۔ نہیں لے جاؤ گے، تو میں خود اُڑ کر آ جاؤں گا۔“

میں نے یہ ہوشیاری ضرور کی تھی کہ لکڑی کی گلی کو آدھ درجن بنٹوں کو اپنے کپڑوں والے بکس میں چھپا دیا تھا، لیکن ڈور کی چرخڑی بہت بڑی تھی اور جب مجھے اس کے لیے کوئی جگہ نہ ملی تو میں نے دادی کی منت سماجت کی، لیکن دادی. جس نے زندگی میں کبھی غصہ نہیں کیا تھا، کبھی اونچی بولی تک نہیں تھی، کہنے لگی، ”مجھے یہیں چھوڑ جاؤ بیٹے، اور میری جگہ اپنی اس ڈور کو لے جاؤ۔۔۔۔میں، قسمت کی ماری بدھوا،آج تک میں نے کوٹ سارنگ سے پاؤں باہر نہیں نکالا۔ صرف ایک بار کلر کہار کے کٹاس راج میلے پر گئی تھی، گھوڑی پر بیٹھ کر، پر تب تمہارے دادا زندہ تھے، پٹھان ڈاکوؤں نے انہیں گولی سے نہیں مارا تھا۔ اب میری مٹی کیوں خراب کر رہا ہے تمہارا باپ؟ اس سے پوچھو، مجھے نوشہرہ ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ مجھے یہیں چھوڑ جاؤ۔ گھر ہے، اناج ہے، گائے ہے، ان سب کی نگہبانی کون کرے گا۔“
اور میں نے واقعی ہمت کر کے ماں سے بات کی۔ بابو جی سے بات کرنے کی جرات مجھ میں نہیں تھی۔ ماں اور بابو جی کے بیچ کچھ کہا سنی بھی ہوئی، لیکن آخر یہی طے ہوا، کہ بے بے یعنی دادی ماں کو کوٹ سارنگ میں ہی رہنے دیا جائے۔ ان کی ست سنگنی دوسری عورتیں بھی ہیں، روز آ جایا کریں گی اور چرخوں کا ”بھنڈار“ لگایا کریں گی۔ یعنی مل جل کر پانچ چھہ عورتیں اپنے اپنے چرخوں پر سوت کاتیں گی اور بعد میں دیکھیں گی، کس نے زیادہ سوت کاتا ہے۔

دوسرے دن انہیں لاری پر لد کر پنڈی گھیب کے لیے روانہ ہوناتھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ پنڈی گھیب سے بس بدل کربسال جائیں گے، اور وہاں سے ریل گاڑی پکڑیں گے جو انہیں نوشہرہ تک لے جائے گی۔ میں نے ریل گاڑی کبھی دیکھی نہیں تھی، تو بھی اس کی تصویریں ضرور دیکھی تھیں۔ میں جانتا تھا کہ بھاپ سے چلتی ہے اور کوئلہ انجن میں رکھے ہوئے پانی کے ایک ٹینک کو لگاتار ابالتا رہتا ہے، جس سے بھاپ بنتی ہے۔

کہاں جا رہے ہو؟

”کہاں جا رہے ہو؟“
یہ آواز کس کی ہے؟ کس نے کہا ہے؟
وہ چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کوئی تو ہو گا
مگر اک گھڑی دو گھڑی کے لیے وہ اکیلا ہے گھر میں
سبھی لوگ گاؤں میں سب سے بدا ئی کی خاطر گئے ہیں
”کہاں جا رہے ہو مجھے چھوڑ کر یوں اکیلا؟“
کوئی تو مخاطب ہے اس سے!
سراسیمہ، تنہا، ذرا سہما سہما، اسے اپنی گونگی زباں جیسے پھر مل گئی ہو
وہ کہتا ہے، ”جو کوئی بھی ہو نظر آؤ، میں بھی تودیکھوں!“
”میں چاروں طرف ہوں تمہارے
مرے دل کے ٹکڑے،مری آل اولاد، بیٹے!
تمہیں کیا مرے دل کی دھڑکن
مرے سانس کا دھیما، کومل سا سرگم
مرے جسم کی عطر آگیں مہک
جیسے صندل کی لکڑی میں بٹنا گھسا ہو….
مرا کچھ بھی کیا تیرے احساس کوجگمگاتا نہیں،اے مرے دل کے ٹکڑے؟
میں گھر ہوں، مکاں ہی نہیں، تیرا مسکن ہوں، بیٹے!
مری چھت کے نیچے ہی پیدا ہوا تھا
یہیں تیری نشاۃ اولیٰ نے تجھ کو جگا کر کہا تھا
ذرا آنکھ کھولو، تمہاری ولادت ہوئی ہے!
مگر آج توُ، یوں بدا ہو رہا ہے
کہ جیسے ترا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، میرے بچے؟“
سنا اس نے، دیکھا کہ دیوار و در بولتے ہیں
سنا اس نے، دیکھا کہ کمرے کی چھت بولتی ہے
سنا اس نے، دیکھا ہوا سنسناتی ہوئی بولتی ہے
سنا اس نے، دیکھا کہ زینہ اترتی ہوئی دھوپ بھی بولتی ہے
سنا اس نے، دیکھا کہ پنجرے کی مینا پھدکتی ہوئی چیختی ہے، کہاں جا رہے ہو؟
سنا اس نے، دیکھا کہ آنگن کی بیری کی شاخوں میں بیٹھے پرندے
چہکتے نہیں، بس خموشی سے اس کی طرف دیکھتے ہیں!
” یہ نظم کوٹ سارنگ سے ہجرت کے پندرہ برس بعد یعنی 1962ء میں خلق ہوئی”

میں نے اپنے کان بند کر لیے۔ میں گھر سے باتیں نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ اگر میں اپنی بہن کو بتاؤں گا کہ میں نے گھر سے باتیں کی ہیں، یا دروازے، دیواروں نے میرے جانے پر اپنا غم ظاہر کیا ہے، یا ہوا نے، دھوپ نے، پنجرے کی مینا نے، پرندوں نے مجھے کوسنے دیے ہیں، تو وہ ہنسے گی، کہے گی، ”جا، پاگل جھلّے، یہ سب تیرا وہم ہے۔ توُ ہے ہی جھلّا، بیت باز!“۔ لیکن کان بند کرنے کے باوجود میں یہ باتیں اپنے دل میں سنتا رہا۔ گھر مجھ سے بولتا رہا، کبھی پیار سے، کبھی غم سے اور کبھی غصے سے، یہاں تک کہ جب ہم بے بے دادی کو گھر میں چھوڑ کر لاری کے اڈے پر پہنچے تو بھی مجھے مکان کی آوازیں آتی رہیں۔ اب ان آوازوں میں گلی کی آواز بھی شامل ہو گئی تھی، گلی میں جس میں گلی ڈنڈا کھیلتا تھا، گلی جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ”چور سپاہی بھاگم بھاگ ۔ نپا گیا اے کالا ناگ“ میں اپنے دوستوں کے ساتھ شام کے جھٹپٹے میں کھیلتا تھا اور ایسی ایسی چھپنے کی جگہیں تاڑ رکھی تھی کہ بہت کوشش کے بعد جب پکڑنے والا مجھے نہ پکڑ پاتا اور کہتا، ”نکل آ چور ۔ میں نے دیا چھوڑ!“ تب میں ایک فاتح کی طرح کھلکھلاتا ہوا اپنی چھپنے کی جگہ سے باہر آتا تھا۔ اس گلی کی آواز بھی اب مکان کے دروازوں، دیواروں، سیڑھیوں کی آوازوں میں شامل ہو گئی تھی۔

دوسرے دن ہم سب لاری پر لد کر پنڈی گھیب کے لیے روانہ ہوئے۔ سارا سامان بابو جی کے جان پہچان کے لوگوں نے لاری کی چھت پر اطمینان سے باندھ دیا تھا۔ پنڈی گھیب سے بس بدل کر ہمیں بسال جانا تھا، اور وہاں سے ریل گاڑی پکڑنی تھی جس میں ہمیں نوشہرہ تک جانا تھا۔ لاری چلی۔ کچی سڑک پر جھک جھک جھکولے کھاتی ہوئی لاری گھیب بس سروس والوں کی تھی، جو دن میں ایک بار کوٹ سارنگ سے گذرتی تھی۔

بسال کے ریلوے اسٹیشن سے چلی ہوئی یہ ریل گاڑی راولپنڈی تک جاتی تھی، لیکن راستے میں ہی گاڑی بدل کر نوشہرہ اور پشاور تک جایا جا سکتا تھا۔۔۔جوں جوں بس پنڈی گھیب کی جانب بڑھتی گئی، گھر اور گلی کی آوازیں مدھم پڑتی گئیں۔ میں بھی لاری سے باہر کے نظاروں میں کھو گیا، یہاں تک کہ آوازیں بالکل بند ہو گئیں. جیسے کسی نے گراموفون کے ریکارڈ سے سوئی اٹھا لی ہو۔لگ بھگ ایک گھنٹے میں ہی لاری پنڈی گھیب پہنچ گئی اور ہم بسال جانے والی لاری کا انتظار کرنے لگے۔

تب پہلی بار دس برس کے بچے یعنی مجھے یہ غیر مرئی طور پر محسوس ہوا کہ یہ سفر ہجرتوں کے ایک لمبے سلسلے کی ابتدا ہے۔ میں کوٹ سارنگ آتا جاتا رہوں گا، لیکن اب میں پردیسی ہو چکا ہوں۔ اس گھر تک،اس گلی تک اور کوٹ سارنگ تک میرا رشتہ ایک ڈور سے بندھا ہوا ہے، جس کے آگے گانٹھ پڑی ہوئی ہے۔ اب میں کوٹ سارنگ نہیں رہ سکتا۔ مجھے آگے پڑھنا ہے۔ دسویں جماعت سے آگے کیا ہوتا ہے، اس کا مجھے علم تھا کیوں کہ میرے بابو جی بی اے، ایل ایل بی، پڑھ کر پلیڈر یعنی وکیل بن چکے تھے۔ میرے دو ماموں جان بھی وکیل تھے، اور حالانکہ میرے نانا صرف میٹر ک تک پڑھے ہوئے تھے تو بھی وہ نائب تحصیلدار تھے۔ پڑھنا میرا مستقبل ہے، گلی ڈنڈا، بنٹے، پتنگ بازی، چور سپاہی کا کھیل میرا ماضی ہے۔ مستقبل،ماضی وغیرہ جبڑا توڑ لفظوں کا تومجھے پہلے ہی پتہ تھا، کیونکہ پانچویں جماعت تک ہی میں نے گھر میں پڑی ہوئی کتابیں، جن میں کچھ ناول بھی تھے اور افقؔ لکھنوی کی راماین بھی شامل تھی، پڑھ لیے تھے اور اردو میں تو میں اپنی جماعت میں ہمیشہ اوّل آیا کرتا تھا۔ گھر چھوڑ کر دور دراز کے شہروں میں ”کھٹّیاں کمائیاں“ کرنے کے لیے جانے والے مردوں کے فراق میں ان کی بیویوں یا محبوباؤں کے لوک گیت بھی سن رکھے تھے جو مراثنیں گایا کرتی تھیں۔
”کتھے گیوں پردیسیا، وے!“ (میرے پردیسی ساجن، تم کہاں چلے گئے ہو؟“)

”چن پردیسی، ترکھی ترکھی آویں….. ساڈی جند ڑی نا ترساویں!“
(میرے پردیسی چاند، جلدی لوٹ آنا، میری جان نہ تڑپانا!“)

”چن ماہی، توں جے گیوں پشور۔۔۔۔۔ ساڈا بلدا اے جگرا ہور“
(چن ماہی، تو اگرپشاور جائے تو میرا دل (ہجر میں)کچھ زیادہ جلتا ہے)

”چن ماہی، توں جے گیوں کوہاٹ۔۔۔۔ ساڈی بلدی اے جند دی لاٹ
(چن ماہی،تو اگر کوہاٹ جائے تو میری جان مشعل کی طرح جلتی ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

”چن ماہی، توں جے گیوں لورا لائی…. ساڈی جان عذابیں آئی۔
(چن ماہی، تو اگر لورا لائی جائے تو میری جان عذاب میں آ جاتی ہے)
جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply