ریزگاری(افسانوی مجموعہ)-تبصرہ:خالدہ پروین

اس رنگارنگ دنیا میں زندگی اور کہانیوں کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ محبت ، جدائی ، طبقاتی تفریق، معاشرتی استحصال، نفسیاتی گرہیں، زبان بندی، روح اور جسم کے بندھن کو برقرار رکھنے کی اذیت، اخلاقی قدروں کا زوال، نام نہاد جدیدیت، کرداری منافقت اور وقت کی بےنیازانہ رفتار ایسے آفاقی موضوعات ہیں جو زمان و مکان کی قید سے ماورا ہیں۔

ہر ذی شعور انسان ان مسائل کو دیکھتا اور حسبِ استعداد اثر قبول کرتا ہے لیکن ایک عام انسان
” گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ ”
کے مصداق انہیں دیکھتا ہے اور گزر جاتا ہے جبکہ ایک تخلیق کار کے لیے اس وقت تک گزرنا ممکن نہیں ہو پاتا ,جب تک وہ اسے جذب کرتے ہوئے تخلیقی شاہکار کی صورت میں نہ ڈھال لے۔

یہ عام کہانیاں ہمارے ارد گرد ازل سے موجود ہیں جنھیں ایک تخلیق کار اپنی سوچ اور صلاحیت کے مطابق انفرادیت بخشتا ہے۔ جدید دور کے ابھرتے ہوئے افسانہ نگاروں کی کھیپ میں منفرد سوچ اور ندرتِ بیان کے حامل تخلیق کار ہی اپنی پہچان اور مقام بنانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ ارشد ابرار ارش حساس سوچ اور منفرد و پختہ اسلوب کے حامل افسانہ نگار ہیں۔ ریزگاری ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جس میں 22 افسانے شامل ہیں۔ تمام افسانے اپنے مواد اور معیار کی بنا پر قاری کو اپنے سحر میں مبتلا کرتے ہوئے دل و دماغ پر گہری چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔

تحریر کو قاری کے ساتھ جوڑنے میں عنوان کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے ارد گرد بکھری کہانیاں عام ہی ہوتی ہیں مگر مصنف کا تخیل اور اسلوب انھیں منفرد بناتا ہے اور تخلیق کار کا زاویہ نظر ان عام کہانیوں میں سے منفرد عنوان کشید کرتا ہے۔ “ریزگاری” میں افسانوں کے منفرد ، علامتی اور استعاراتی عنوانات :
“قتلِ آب” ، “قصہ ایک رات کا” ، “سزا” ، “چراغ” ، “خطوں میں مخفی محبت” ، “گستاخ” ، “بانجھ” ، “بڈھا سالا” ، “ساتویں سمت” ، “اداکار” ، “پچکی پڑی کہانی”، “ویلنٹائن ڈے”، “ریزگاری”، “گونگے لوگ”، “آخری آدمی”، “قرض”، “دھوپ کا سفر”، “مسیحا”، “تو آٹھواں رنگ محبت کا”، “چہرے”، “گندی مکھی” اور “آخری پتھر” اپنے اندر ندرت، رومان، تحیر اور تجسّس کو سموئے ہوئے ہیں۔ افسانے کا عنوان قاری کو مقناطیسی انداز میں اپنی طرف کھینچتے ہوئے افسانہ پڑھنے کی طرف مائل کرتا ہے تو افسانے کا منفرد اسلوب اور ادبی زبان تحریر میں ایسا جادو بھر دیتے ہیں کہ افسانہ طویل ہونے کے باوجود قاری کو اختتام تک اپنے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔

ارشد ابرار ارش دور رس سوچ اور عمیق مشاہدے کےحامل تخلیق کار ہیں۔ یہی خصوصیات ان کے افسانوں کے موضوعات میں تنوع کا باعث ہیں۔ “قتلِ آب” مسقبل میں پانی کی کمی سے پیدا شدہ مسائل اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہی کی عمدہ عکاس جس میں شاندار منظر نگاری نے ان لفظی تصویروں کو متحرک روپ عطا کر دیا ہے۔
“آخری آدمی” میں جنگ کی تباہ کاریوں کے عام موضوع کو داستانوی انداز، منظر نگاری، تحیر و تجسّس سے بھرپور مکالموں نے جہاں شاہکار بنا دیا ہے وہیں استفہامیہ انداز کا حامل آخری مکالمہ قاری کی سوچ کو واضح رخ سجھانے میں کامیاب ٹھہرتا ہے۔

اس شش جہت دنیا میں ہر انسان اپنے اندر ایک “ساتویں جہت” بھی رکھتا ہے ضرورت صرف اس کو دریافت کرنے کی ہے۔ افسانے کا فلسفیانہ انداز مخصوص سوچ اور مزاج رکھنے والے قاری کے لیے تحیر و تجسس کا باعث ہے۔

ارشد ابرار ارش جب کسی بھی موضوع کو احاطۂ تحریر میں لاتے ہیں تو شان دار منظر نگاری جہاں آنکھوں کے سامنے تصویر کھینچ دیتی ہے وہیں متاثر کن مکالمے سماعتوں کو بیدار کرنے کا باعث ثابت ہوتے ہیں۔
“تو آٹھواں رنگ محبت کا” میں سلونی کہتی ہے:
“ارش۔۔۔! مجھے اسی پگڈنڈی پر تمھارے ساتھ چلنا ہے جہاں تمہاری ہمراہی حاصل تھی۔ میں آج بھی انہی راستوں پر آنکھیں لیے بیٹھی ہوں۔ ”
” کیا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو بیچ راستوں میں چلتے ہوئے اچانک خاموشی سے زمین پر بیٹھ جاتا ہے؟؟؟ اگر کبھی تمہاری ملاقات اس اجنبی سے ہو جائے تو اسے کہنا کہ اب لوٹ آئے۔۔۔ کہ۔۔۔ راستوں پر رکھی ہوئی دو آنکھیں اب پتھر ہونے کو ہیں۔ ”

زاویہ نظر اور اسلوب بیان کسی بھی تحریر کو سادگی، پیچیدگی اور انفرادیت کی صفات عطا کرتے ہیں۔ محبت، بے وفائی ، منافقت اور ظلم واستبداد ہر دور میں مصنفین کے محبوب موضوعات رہے ہیں ۔ ارشد ابرار ارش نے بھی ان موضوعات کو برتا ہے لیکن مصنف کے منفرد اسلوب بیان اور تکنیک نے انھیں ایک نیا رنگ اور قاری کو مختلف زاویہ فکر عطا کیا ہے۔ “پچکی پڑی کہانی” اگرچہ دولت و طاقت کے علمبرداروں کے ظلم، معاشرتی بے حسی، انسانی گراوٹ اور بد قسمتی کی عمومی داستان ہے لیکن مصنف کا منفرد علامتی بیانیہ ، تخلیق کار کی تخلیقی کشمکش کی عکاسی اور موزوں و ادبی زبان نے نے ایسا معیار بخشا ہے جو قاری کو احساس اور نیا زاویہ نظر بخشنے کا باعث ہے۔

“اداکار” اور “چہرے” میں موجود دوہرے اور دوغلےکردار اپنے اندر موجود کراہت کو منوانے میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔

“بڈھا سالا” جہاں یک طرفہ بے غرض محبت کی داستان یے وہیں محبت میں عمر کی قید سے آزادی کا خوب صورت اظہار بھی ہے۔

“خطوں میں مخفی محبت “، ” تو آٹھواں رنگ محبت کا” ، ” ویلنٹائن ڈے ” اور قصہ ایک رات کا ” کے منفرد رومانوی عنوان قاری کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جبکہ موضوع، منفرد اسلوب اور زبان وبیان دل ودماغ پر گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔

افسانہ “مسیحا” میں موجود زندگی کی حقیقت، افسانہ “چراغ” میں معاشرے کا ناقدری کا رویہ، افسانہ “سزا ” میں تلمیحاتی آغاز ، کہانی کا تجسس و تحیّر، اور چونکانے والا اختتام ، افسانہ ” آخری پتھر ” میں غریب کی بے بسی، محبت کے نام پر ہوس پرستی اور اختتام پر بےحسی اور ظلم کی عکاسی قابلِ تعریف ہیں۔

افسانہ “ریز گاری” میں ماضی، حال اور مستقبل کی منظر کشی کرتے ہوئے وقت ، عمر، بے قدری اور بے بسی کی عمومی کہانی کو علامتی عنوان منفرد اسلوب اور انوکھی تکنیک نے نیا پن عطا کر دیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے ماہ و سال ریزگاری کی مانند ہیں جو سنبھالنے کے باوجود ختم ہو جاتے ہیں، لٹ جاتے ہیں اور گراں قدر نہیں رہتے۔ افسانے سے مطابقت رکھتا افسانوی مجموعے کا عکس اپنے اندر واضح تاثر سموئے ہوئے ہے۔

ہر تخلیق کار کے پیشِ نظر کوئی نہ کوئی احساس، رویہ، مشاہدہ اور مقصد ہوتا ہے جو تخلیق کا باعث ٹھہرتا ہے۔ مقصدیت کے تحت لکھی گئی تحریروں میں عموماً مقصدیت غالب ہونے کی بنا پر نہ چاہتے ہوئے بھی فن مجروح ہو جاتا ہے جبکہ ارشد ابرار ارش کا کمال یہ ہے کہ ان کے ہاں مقصدیت کے باوجود فن اپنا آپ منوا کر رہتا ہے۔ افسانوی فضا خوب صورت ادبی زبان سے مل کر مقصدیت کو مؤثر بنا دیتی ہے۔ “آخری آدمی”، “گونگے لوگ”، “قتلِ آب”، “چراغ” اور “گندی مکھی” اس کمال کی بہترین امثال ہیں۔

افسانہ “دھوپ کا سفر” میں ماں اور بیٹی کی درناک داستان کو بیانیہ اسلوب، شاعرانہ زبان اور عمدہ منظر نگاری نے پرتاثیر بنا دیا ہے۔

“بانجھ” اور “قرض” بے حسی اور مکافاتِ عمل کی عبرت انگیز کہانیاں ہیں۔

الغرض یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ارشد ابرار ارش کا منفرد اسلوب و تکنیک اور خوب صورت ادبی زبان خوشگوار ہوا کے ایسے جھونکے کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے پژمردہ موضوعات کو تازگی اور نیا پن عطا کیا۔ “ریزگاری” اگرچہ ارشد ابرار ارش کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے لیکن مجموعہ میں موجود پختہ اور دور رس سوچ، عمیق مشاہدہ، منفرد اسلوب اور ادبی زبان وبیان مصنف کی خداداد صلاحیتوں کا کھلا اظہار ہیں۔ امید ہے کہ نئے ابھرتے ہوئے افسانہ نگاروں میں ارشد ابرار ارش اپنا نام اورمنفرد پہچان بنانے میں کامیاب رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ارشد ابرار ارش صاحب کو ان کے پہلے افسانوی مجموعے کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک کے ساتھ ساتھ دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہوئے مزید کامیابیاں اور عروج نصیب فرمائے۔
ادارہ پریس فار پیس کو ایک اور کامیابی مبارک ہو۔ اللّٰہ تعالیٰ ادارے کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply