بس مجھے اس کرسی پہ بٹھا دو/حبیب شیخ

میں آ گیا ہوں

میری آواز سنو

مجھ پہ اعتبار کرو

میرا کہا مانو

کچھ اور صبر کرو

میں نجات دہندہ ہوں

میں فصلِ گلِ لالہ ہوں

میں تمہاری دعاؤں کا نتیجہ ہوں

میں لاکھوں میں ایک ہوں

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ رو چکی

میں تمہارے چمن کا دیدہ ور ہوں

میں تمہاری مصیبتوں کا مداوا ہوں

میں امید سحر ہوں

میں بے داغ اجالا ہوں

میں اس تاریک شب میں تنہا چراغ ہوں

میں اس بحرِظلمت میں ضیاء ہوں

میں اس نار میں اک نور ہوں

میں جھلستی ہوئی ہوا میں باد صبا ہوں

میں تمہارے زخموں کے لئے مرہم ہوں

میں تمہارے دکھوں کے لئے مسیحا ہوں

میری بات کو غور سے سنو

بس مجھے اس کرسی پہ بٹھا دو

Advertisements
julia rana solicitors

بس مجھے اس کرسی پہ بٹھا دو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply