کتھا چار جنموں کی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط20

وزیر آغا صاحب (اب جو مرحوم ہیں) سے میری خط و کتابت تیس برسوں کے طویل عرصے پر محیط رہی۔ خدا جانے میں نے کتنے مکتوب لکھے ہوں گے لیکن ان کی طرف سے جو مکتوب مجھ تک پہنچے، ان کی تعداد چالیس سے کم نہیں ہے۔ (سبھی میرے ریکارڈ میں ہیں) یہ مراسلت جاری رہتی اگر ٹیلیفون کا سلسلہ اتنا آسان نہ ہو جاتا، جتنا کہ اب ہے۔ راقم نے تو اپنے رقعہ جات کو کئی بار مرقع روزگار بنا کر مشاہدات اور تجربات کو وقائع نگاری کی سرحد تک پہنچا دیا، لیکن ان کے خطوط ہمیشہ خصوصی نکات پر یا واقعاتی کیفیات پر مرکوز رہے۔ شاید    میں نے ژاں پال سارترے کا ایک قول کہیں نقل کیا تھا
Our thought is only as good as our language and it is by our language that we must be judged.
انگریزی لفظ our سے مراد یہاں اگر شاعر خود بہ نفس نفیس ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ترسیل کی ناکامی کی ساری ذمہ داری شاعر (اور صرف شاعر) ہی کی ہے۔ قاری پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے اس کمنٹ کے ساتھ میں نے شمس الرحمن فاروقی صاحب کے کچھ ارشادات بھی بطور شہادت پیش کیے تھے:
(ایک)”نئی شاعری چونکہ نظریے کی شعری اہمیت سے انکار کرتی ہے (اس کا مطلب یہ نہیں کہ شاعر زندگی کے متعلق کوئی نظریہ رکھتا ہی نہیں، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ  وہ شعر کو نظریے کا پابند نہیں سمجھتا) اس لیے نئی شاعری میں بظاہر ایک انتشار و اختلال نظر آتا ہے۔“
(دو) ”شعر کی زبان کی ترکیب، وضع اور مشینری بالکل مختلف (اور اکثر) عام زبان کے مقابلے میں بے رحمی
سے توڑی پھوڑی ہوئی، کھینچی تانی ہوئی اور نا مانوس ہوتی ہے۔“
(تین) ”لہذا آئیڈیل حالات میں بھی شعر کی زبان کا سفر عوامی زبان کی الٹی ہی سمت میں ہوتا ہے۔“

مجھے محترم فاروقی کے ارشادات نمبر (۲) اور (۳)، خود اپنی شاعری کے حوالے سے تو خصوصاً اور اردو، ہندی یا یورپ کی کچھ زبانوں کے شعری ادب (جن زبانوں تک انگریزی کی وساطت سے میری رسائی تھی) کے سیاق و سباق میں عموماً کچھ ضرورت سے زیادہ ہی قابل گرفت محسوس ہوئے۔ میں نے محسوس کیا کہ استعاراتی استعمال کی پیچیدگی کی ذمہ داری خیالات کی پیچیدگی کے سر منڈھنا غلط ہے۔اگر ایسا ہوتا تو غالب کی شاعری کے زیر اثر (یا تتبع میں) دو تین شاعر تو دکھائی دیتے لیکن یہاں تو غالب ہی غالب ہے اور باقی سب متشاعر۔۔۔۔ داغؔ (جو بقول یگانہ چنگیزی ایک چوتھائی غالبؔ ہےء) کے بعد یہ شعرا (جن میں بہت سے غالب کے شاگرد بھی تھے) غالب سے ”ایک چوتھائی“ تو کیا، ۱یک فیصد کی حد تک بھی متاثر نہیں ہو سکے۔ غالب اس حوالے سے انگریزی شاعر ورڈزورتھؔ کی طرح Poet’s Poet۔نہیں تھا۔اس کے مفسر تو درجنوں، بلکہ بیسیوں ہیں، لیکن کیا کسی ایک نے بھی جرآت کی ہے کہ وہ غالب کے خصوصی رنگ میں شعر کہے؟
بات تو مرحوم و مغفور وزیر آغا کی ہو رہی تھی، لیکن کہاں سے کہاں پہنچ گئی؟ بہر حال واپس آتا ہوں۔
میں نے وزیر آغا صاحب کو ایک طویل خط اس مضمون کے سلسلے میں تحریر کیا۔ جس کا جواب انہوں نے مجھے اپنی کتاب ”اردو شاعری کا مزاج‘ سے ایک تراشہ نکال کر دیا۔
لکھا وزیر آغا نے: ”میں نے بہت سال پہلے اپنی کتاب ”اردو شاعری کا مزاج“ میں اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ موجودہ دور کے شعرا، جو صرف غزل پر ہی تکیہ رکھتے تھے، جب یہ دیکھا کہ زندگی کے پیرہن یعنی ’زبان‘ کی جملہ حسیات بر انگیختہ ہو چکی ہیں توانہوں نے اپنے آس پاس میں موجود قریبی اشیا اور مظاہر کو نئے علائم میں ڈھالنا شروع کیا….آپ بھی اس بات سے انکار نہیں کریں گے کہ یہ نئے علائم بہت سے نئے (اور کچھ پرانے) شعرا کی غزل گویہ کا جزو ِ بدن بن گئے۔ مثلاً جدید تر غزل میں پیڑ، پتھر، برف، گھر، شہر، پتے، شاخیں دھوپ، ح سورج، دھواں، زمین آندھی، سانپ کھڑکی، دیوار، منڈیر، گلی، کبوتر ڈھول، رات، چاندنی اور درجنوں دوسرے الفاظ اپنے تازہ علامتی رنگوں میں ابھر آئے۔ ان لفظوں کی اہمیت اس بات میں ہے کہ یہ اپنے ماحول کے عکاس ہیں اور زمین کے باس اور رنگ کو قاری تک پہنچاتے ہیں۔ یہ ماحول ایرانی چمن اور سطح مرتفع کا ماحول نہیں، بلکہ جنگلوں، شہروں، دیہاتوں اور کھیتوں کا ماحول ہے جو ہمارے ملک کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر علامتیں اس ماحول سے اخذ کی جائیں تو ان میں شاعر اپنی ذات کا اظہار نسبتاً آسانی سے کر سکے گا۔ اردو غزل میں غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ شعرا کی ایک پوری جماعت نے اپنے احساسات کو ارد گرد کی اشیا، مظاہر اور علائم کی زبان میں پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس کے لیے دیکھیں میری کتاب کے صفحات ۵۸۲ سے ۰۹۲ تک۔ (وزیر آغا)
وزیر آغاصاحب سے نسبتاً ایک جونیئر شاعر ہونے کے باوجود، بسا اوقات، یورپ اور امریکا کی جامعات میں میرے سالہا سال کی تدریس مجھے کئی بار یہ احساس دلاتی کہ موصوف ایسے کچھ امور سے نا آشنا ہیں، جو گذشتہ دو تین دہائیوں میں یونیورسٹیوں کے ہیومیینیٹیز  شعبہ جات میں زیر غور اور موضوع بحث رہے ہیں۔ اور ابھی تک ایک سو برس پہلے وہی لکیر پیٹے جا رہے ہیں، جو ساٹھ اور سترّ کی دہائیوں میں تیزی سے گذرتا ہوا تنقید کا افعی اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ مثلاً ٹی ایس ایلیٹ کا یہ فرمان:
If poetry is a form of communication, yet what is to
communicated is the poem itself….The poem’s existence
is somewhere between the writer and the reader..Thus
consequently the problem of what a poem “means”is a
good deal more difficult than as it first appears.”
یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ٹی ایس ایلیٹ کے دور میں قاری اساس تنقید کی تھیوری پر کام نہیں ہوا تھا اور انگریزی سے دیگر یورپی زبانوں میں تراجم یا دیگر یورپی زبانوں سے انگریزی میں تراجم خال خال ہی تھے۔ میں نے ڈاکٹر آغا کی توجہ ایک طویل مکتوب میں اس بات کی طرف مبذول کروانے کا جتن کیا کہ معنی کی ترسیل کی ذمہ داری شاعر پر تو بالکل نہیں ہے، نصفا نصف شاعر اور قاری پر بھی خال خال ہی ڈالی جا سکتی ہے، بلکہ کلیتاً قاری پر ہے۔ تو مجھے در پردہ خود اپنی ہی بات پر پوری طرح یقین نہیں تھا کیونکہ مجھے علم تھا کہ جدیدیت کی جو تحریک (پاکستان میں کم اور انڈیا میں زیادہ ) محترم  شمس الرحمن کی رہنمائی میں رواں دواں ہے، اس کے زیر اثر کچھ شاعر جانتے بوجھتے ہوئے ہی ابہام گوئی کی آڑ میں معمے بجھانے کا کام کر رہے ہیں اور کسی کمزور لمحے میں کہی گئی ن۔م۔راشدؔ کی ایک کہاوت کا سہارا لے رہے ہیں۔ جس میں راشد نے معنی کو ایسے نگینے کے مماثل سمجھا تھا جو انگوٹھی میں جڑا ہوا ہے، انگوٹھی ایک ڈبیامیں بند ہے، ڈبیا کو ایک مقفل صندوق میں رکھ دیا گیا ہے اور یہ صندوق بیچ سمندر میں ڈبو دیا گیا ہے، اور قاری سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس نگینے کو تلاش کرے۔
صنف غزل کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا اپنی بات منوانے پر مصر تھے۔ انہوں نے ایک اور مکتوب میں مجھے اپنی کتاب ”اردو شاعری کا مزاج“ سے ایک اور تراشا  بھیجا۔
”نئے زمانے کی برق رفتاری نے خود اس کی (شاعر) ذات کے اندر ایک ہیجان سا پیدا کر کے اسے نئی قدروں کی تلاش پر اکسایا ہے۔ اب وہ روایت کی سیدھی، پامال شاہراہ پر چلنا محض اس لیے پسند نہیں کرتا کہ زمانے کا نیا روپ زبان و بیان کے قدرے مختلف سانچوں کا طالب ہے۔ یہ سانچے، وہ الفاظ، علامات اور حسی تصورات ہیں جو فرد نے اپنے ماحول سے اخذ کیے ہیں، اور چونکہ ان کا نہایت گہرا تعلق ارد گرد کی دھرتی سے ہے، اس لیے غزل یقینی طور پر شاعر کی اپنی جنم بھومی کے قریب آ گئی ہے۔“

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ ہی انہوں نے ایک ایسا جملہ اپنے اس خط میں تحریر کیا جو میرے دل کو گرما گیا: ”دیکھئے، میں آپ سے کس قدر متاثر ہوا ہوں۔ میری اس مختصر تحریر میں بھی ” روپ“،” دھرتی“،” جنم بھومی“ تین الفاظ آپ کے خطوط کی زبان کے زیر اثر در آئے ہیں۔ گذشتہ شام ڈاکٹر انور سدید سے گفتگو میں ہم دونوں اس بات پر متفق تھے کہ اس دور میں صرف آپ ہی اردو کے ایک ایسے معروف شاعر ہیں،جو کئی برسوں تک یورپ اور امریکا کی جامعات سے منسلک بھی ہیں اور نہ صر ف عالمی ادب کے دم بہ دم بدلتے ہوئے منظر نامے پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنی نگارشات میں اس پرتبصرہ کرتے ہیں۔“
(ڈاکٹر وزیرآغا کے خطوط کی بنیاد پر اس سیریز کی تحریریں   آنے والی اقساط میں ملاحظہ فرمائیں)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کتھا چار جنموں کی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/قسط20

Leave a Reply