بُک ریویو:چالیس چراغ عشق کے۔۔طاہر علی بندیشہ

Forty Rules of Loveمجھے تو اوور ریٹڈ ناول لگا ہے ۔ ایسے ہی ہوّا بنایا ہوا ہے۔
مجھے یہ ناول متاثر نہیں کر پایا ، شاید اس لیے کہ مصنفہ نے جو نکتہ نظر بیان کرنے کی کوشش کی ہے اسی ماحول میں ہوش کی آنکھ کھولی ۔ تذکرة الاولیاء ، سفینة الاولیاء ، تاریخ اولیاء جیسی کتب میٹرک کے زمانے میں ہی پڑھ چکا تھا جن میں عرب و عجم کے مشہور اولیاء کرام کے حالات زندگی قلمبند کیے گئے ہیں۔

خورشید ندیم صاحب نے اس ناول پر کالم لکھا ، برسبیل تذکرہ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے بھی اس ناول کا اپنے کسی کالم میں ذکر کیا۔ خوش گمانی یہی کی جا سکتی ہے کہ بڑے قد کے علمی و ادبی لوگ ہیں ہو سکتا ہے انہیں اس میں وہ بات نظر آئی ہو جسے دیکھنے اور محسوس کرنے میں ہماری کم علمی حائل رہی ہو۔

صوفی لوگ شروع سے ہی عوام الناس میں بنا کسی رنگ و نسل اور مذہبی امتیاز کے گھلتے ملتے چلے آئے ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ خلافِ شرع رہے ہوں گوکہ بسا اوقات دیکھنے والی آنکھ دھوکا کھا جاتی ہے جیسے کہ ایک دفعہ خواجہ با یزید بسطامی اپنے وطن واپس لوٹے تو دیکھا خلقت ان کے استقبال کے لیے فصیلِ شہر سے باہر امڈی پڑی ہے ۔ ماہِ رمضان تھا روزے سے تھے مگر مخلوق کو دیکھ کر گدڑی کے کِیسہ سے کھجور نکال کر منہ میں ڈالی اور چبانا شروع کر دی ، لوگ یہ دیکھ کر یہ کہتے ہوئے واپس پلٹے “ یہ کاہے کا فقیر جس نے فرض روزہ ہی ترک کر رکھا ہے “۔
بایزید بسطامی علیہ رحمہ سے ہی منسوب یہ قول ہے “ موتوا قبل ان تموتوا ، مرنے سے پہلے ہی مر جاؤ “۔

سینکڑوں حکایات ہیں جن میں صوفیوں کا انسانوں کے ساتھ حسن سلوک نظر آتا ہے اور اسی حسن سلوک کی بنیاد پر لوگوں نے کلمہ طیبہ بھی پڑھا۔
بایزید بسطامی علیہ رحمہ کا ہی ایک واقعہ یاد آ گیا آپ کا ایک پڑوسی زرتشت کا ماننے والا تھا ۔ ایک بار وہ سفر پر گیا ۔ واپسی پر احوال پُرسی پر اس کی بیوی بتانے لگی باقی سب تو ٹھیک رہا البتہ شیرخوار بچہ رات کو بہت روتا تھا تو ساتھ والے شیخ اپنا دِیوا ( چراغ ) لا کر دیوار کے پاس کھڑے رہتے اور روشنی دیکھ کر بچہ خاموش ہو جاتا تاآنکہ سو جاتا ۔
آتش پرست اسی حسن سلوک سے متاثر ہو کر مشرف با اسلام ہوا۔ ہمارے ہندوستان کے صوفیوں کے حالات بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے بلا تفریق مذہب انسانوں سے پیار کیا ۔یہ رواداری اور توازن صوفیوں کے ہاں ہی پایاجاتا ہے کہ میاں میر گولڈن ٹیمپل کی پہلی اینٹ رکھتے ہیں۔

شاید پہلے سے صوفیا کے حال احوال سے شناسائی ہونے کی بنا پر ناول متاثر نہیں کر پایا ، اور دوسرا نکتہ : ناول کا مرکزی کردار ایلا کوئی جاندار کردار نظر نہیں آتا ۔ اگر اُسے صوفی ہی بنانا تھا تو صوفیوں کا تو یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ ایڑی کے نیچے سے چشمہ نکالتے ہیں پیاس بجھانے کے لیے نا کہ پانی کی تلاش میں ہلکان ہوتے ہیں۔ وہ حالات کے آگے جھکتے نہیں بلکہ ان کو جھکا لیتے ہیں۔ مصنفہ کے تعارف میں لکھا ہوا ہے کہ ان کی تحریروں کا موضوع خواتین ہوتی ہیں اور وہ حقوق نِسواں ، آزادئ اظہار اور شناخت کی علمبردار ہیں۔ اس ناول میں جس طرح انہوں نے ایک ماں کو گھر سے نکالا ہے جس کے تین میں سے دو ٹین ایج بچوں کو ابھی ماں کی ضرورت ہے وہ شریعت اور دنیاوی آر اء کو نظر انداز کرتے ہوئے ، صرف صوفی ازم اور فطرت کے حوالے سے دیکھیں تو بھی وہ کہیں قابل قبول اور صحتمند رویہ نظر نہیں آتا ۔ جیسے کہ آخری باب میں کردار کے خود فہمی ذہنی کلام سے عیاں ہوتا ہے کہ مصنفہ بتلانا کیا چاہتی ہے ۔
‏“ are you going to your husband for a man with no future? “ her friends and neighbors had asked her again and again . “And how about your kids? Do you think they will ever forgive you ?”
‏And that is how Ella had come to understand that if there was anything worse in the eyes of society than a woman abandoning her husband for another man , it was a woman abandoning her future for the present moment.

لمحۂ موجود سے لطف اندوز ہونا مستفید ہونا برحق مگر یہ کونسی صوفی تعلیمات ہیں کہ اپنے کیرئیر یا وقتی پیار کے لیے بچے چھوڑ دیے جائیں۔ اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جو اب شادی کے بیس سال بعد پیار ہوا ہے وہ دائمی رہے گا جبکہ شادی والا پیار بھی دائمی نہیں رہا تھا حالانکہ شروع میں شادی کی بنیاد محبت ہی تھی۔
بیچ بیچ میں کچھ مکالمے بڑے عمدہ ، دلچسپ اور مبنی بر حکمت بھی ہیں جو کہ کچھ چالیس اصولوں میں سے ہیں اور کچھ ذیلی ، مگر نجانے کیوں ایلا ایک کمزور کردار لگا ، آخر پر بھی وہ سفر پر نکلتی دکھائی گئی مگر کس کی تلاش میں ؟ اس نے قونیہ میں کیا پایا ، ایمسٹرڈیم پہنچ کر اسے کیا حاصل ہوا ؟ what were her achievement after leaving the home and children ? یہاں اختتامیہ خاموش ہے ۔ جبکہ صوفی اور صوفی ازم دونوں ہی بنا کسی مقصود و شہود کے نہیں ہوتے ۔

ہو سکتا ہے یہ میرے نا پختہ تخیل کی کارستانی ہو مگر امر واقع تو یہی لگتا ہے کہ بس عورت کو گھر سے نکلنے پر اِن کوریج کرنا مقصد تھا ۔
ایلا کی کہانی کسی طرح بھی فٹ نہیں بیٹھتی سوائے اس پسِ منظر کے کہ مصنفہ فیمینسٹ ہیں اور انہیں کسی طرح سے عورت کو گھر سے باہر لے کر آنا ہے
حالانکہ اگر ہم صوفی ازم میں دیکھیں تو ہمارے پاس کتنی ہی صوفی خواتین کی امثلہ موجود ہیں۔ تیس سے اوپر صوفی بیبیوں کا ذکر مولاناجامی نے اپنی کتاب “ نفحات الانس “ میں کیا ہے ۔ دوسری طرف یہ پہلو بھی مدنظر رکھا جا سکتا ہے کہ مقصد مردوں کو ڈرانا تھا کہ وہ اپنی بیویوں کو وقت دیں اور ڈریں اس وقت سے جب بیوی کسی اور سے وقت لینا شروع کر دے ۔

یوں تو کتنے ہی مکالمے قابل حوالہ ہیں مگر اصلی صوفیاء کی تعلیم کا لبِّ لباب یہ قول ہے
“ Nothing should stand between yourself and God. Not imams, priests, rabbis, or any other custodian of moral or religious leadership. “

شمس تبریزی اور مولانا روم والا ناول کا سارا حصہ ایک طرح سے ان کی سوانح حیات ہے جس میں دیگر مختلف کرداروں کو تخیل کی ملمع کاری سے سنوارا گیا ہے مگر مجھے حیرت ہوئی کہ جہاں اتنے سارے مثنوی سے اشعار بطور حوالہ نقل کیے وہاں مشہورِ زمانہ شعر کیسے مصنفہ سے چُوک گیا ۔

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد
مولوی تب تک نہ تھا مولائے روم جب تک وہ شمس تبریزی کا طالب نہ ہوا

ناول میں تکنیک پر بات کرنا نقّادوں کا کام ہے ہم تو فقط قاری ہیں ۔ البتہ جس طرح بجائے یہ کہ کسی راوی سے یا تیسرے شخص سے کہانی بیان کروائی جاتی ، مصنفہ نے ہر کردار سے اس کی کہانی کہلوا کر انہیں داستان گو بنا دیا ہے ، یہ ایک متاثر کن یا کچھ ہٹ کر تکنیک نظر آتی ہے۔ جو لوگ صوفیاء کے احوال سے نا آشنا ہیں ان کے لیے یہ ناول ابتدائی آشنائی کے طور پر اچھا ثابت ہو سکتا ہے ۔ صوفی ٹچ کے ضمن میں شمس تبریزی کی باتیں پُراثر ہیں اور صوفیوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ایک قیاس یہ بھی کیا جا سکتا ہے چونکہ اسلامی اور مشرقی ہونے کی بنا پر صوفیاء کا کلچر مغرب میں نہ ہونے کی وجہ سے اہل مغرب کم آگاہ ہیں اس لیے شاید اس ناول کو کچھ زیادہ ہی پذیرائی ملی مگر حیرت اس بات پر ہوئی کہ ہمارے ہاں اس ناول کو کس برتے پر اتنا سر پر اٹھایا گیا ۔
کیا یہ بھی ایک فیشن ہے کہ جس کی سب واہ واہ کر رہے ہوں ہم نے بھی کرنی ہے یا پھر ستائشِ باہمی کا کوئی اصول کار فرما ہے۔

کتاب دوست ہونے کی بنا پر کتاب خریدنا ثواب سمجھتا ہوں تاکہ ناشر سے تعاون بھی ہو سکے اور ہارڈ کاپی ویزیبل ہونے کی وجہ سے شاید کتب بینی کے فروغ میں اپنا مقدّرت بھر کوئی حصہ شامل ہو سکے۔ مگر یہ کتاب خریدنے کا افسوس ہی ہوا ۔ ایہو پیسے کسے ہور چنگی جیہی کتاب تے لا دیندا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : برسبیل تذکرہ کل کچھ مواد کھنگالتے ہوئے یہ بات علم میں آئی کہ ایک کالم نگار ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک یہ ناول اوور ریٹڈ ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply