مصنف کی دیگر تحاریر کا لنک
گلگت-بلتستان و چترال کی مقامی کونیات (کوسمولوجی ) نے زندگی کے دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ موت جیسے ایک واقعے سے بھی نمٹنے کی کوشش کی ہے۔
یہ مضمون موت کے اس مظہر کو سمجھنے کی کوشش ہے جو اِن دیومالائی مخلوقات کی تخلیق کا تشریحی سانچہ مہیا کرنے کے ساتھ موت سے جڑے ہوئے ان خیالات کا تجزیہ فراہم کرنے کی کوشش ہے۔
دنیا کے دیگر معاشروں کی طرح گلگت بلتستان کی ثقافت میں بھی موت ایک خوفزدہ کرنے والی شئے تھی۔اسی لیے لوگ جسمانی ناتوانی، کمزوری اور موت کی دیگر وجوہات سے خوفزدہ ہوتے تو تھے مگر مرنے کے اس عمل کو زیادہ تکلیف دہ سمجھا جاتا ہے، جیسے موت بدروحوں کے سبب و قوع پذیر ہوئی ہو۔
اگر کسی شخص کی موت کی جسمانی وجوہات نامعلوم ہو ں تو ایسی صورت میں موت کی وجہ مختلف مخلوقات کو قرار دیا جاتا تھا۔ ایسی مخلوقات کے نظر آنے، دیکھنے،آواز سے، موسیقی کی آواز آنے سے جیسے ڈومو را بوبر پونیال میں لوگوں کا ماننا ہے کہ اسی صورت میں اس محلے میں یا گھر میں موت کی پیشگوئی کی جاتی ہے۔
گلگت بلتستان کے شینا اور بروششکی زبان بولنے والے افراد جھردنگ ایلو ایک ایسی دیومالائی مخلوق کو سمجھتے ہیں جو انسانی موت کا باعث بنتا ہے۔
یہ لفظ جھردنگ آنگ سے نکلا ہے جس کا مطلب شورشرابہ ہے جو بہت سے لوہے کے ٹکڑوں کے ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے۔
ہنزہ میں آج بھی اس دیومالائی مخلوق کی موجودگی کا احساس لوگوں کے ثقافتی حافظے میں تازہ ہے، جبکہ گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کی لوک ریت اور قصہ کہانیوں اور ثقافتی یادداشت میں یہ تصور دھندلا گیا ہے۔
رات کے اندھیرے میں کسی بھی جگہ، منظر پر نمودار ہونے سے قبل یہ مخلوق بہت بھاری جھنکار والی آواز پیدا کرتا ہے جو لوگوں کو جھردنگ ایلو کی آمد کی خبر دیتی ہے۔
تمام زبانی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی جنس مذکر ہے اور اس کے ساتھ کئی ایک چیزیں منسوب ہیں ۔ اس کے حلیے کے متعلق تصورات اور بیان بھی ہر جگہ قدرے مختلف ہے۔
گلگت بلتستان کی کونیات کی رو سے دن اور رات انسان اور غیر مرئی مخلوق میں منقسم ہے ۔ دن اور رات دونوں وقت صرف انسانوں کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ دن انسانوں کے لئے اور رات کا وقت دیومالائی مخلوق کے لئے متعین ہے۔ اس لئے گلگت بلتستان میں شام ڈھلتے ہی گھر کے دروازے بند کرکے خود کو گھر کے اندر بند کرنا لازمی ہوتا تھا، کیونکہ جو انسان رات کو گھر سے باہر رہ جاتا ہے وہ چڑیل ، یاچھولو، یامالے، چناقو اور جھردھنگ ایلو کا شکار بنتا ہے۔
مقامی کہاوت ہے کہ جو جانور رات کو گھر سے باہر رہ جاتا ہے وہ بھیڑیوں کا شکار بن جاتا ہے اور جو انسان رات کو گھر سے باہر رہ جاتا ہے وہ چڑیلوں اور جھردنگ ایلو کی خوراک بن جاتا ہے”۔
جھردھنگ ایلو رات کے گھپ اندھیرے میں نکلتا ہے، کیونکہ وہ دراصل رات کی مخلوق ہے۔ اس کے نظر آنے سے قبل فضا میں شور شرابے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ کچھ کہانیوں کے مطابق ایسی آوازیں آتی ہیں جیسے لوہے کی زنجیروں سے آوازیں نکلتی ہیں، کیونکہ اس نے لوہے کی زنجیریں اور لوہے کا لباس پہنا ہوتا ہے۔
اس کی جسامت دیو قامت بتائی جاتی ہے جب وہ چلتا ہے تو اس کے قدموں کی چاپ سے زمین پر جھٹکے آتے ہیں اور اس کے قدموں کی تھاپ لوگوں کے دل و دماغ کو خوف سے لرزا دیتی ہے۔
کچھ کہانیوں کے مطابق جھردھنگ ایلو کی شکل کتے جیسی ہے جبکہ بعض کے مطابق وہ اپنے ساتھ دیومالائی گدھا جسے قانگ ژکن کہا جاتا ہے لیکر چلتا ہے۔اس کے اوپر وہ انسانی روح اور مردوں کے جسموں کو لاد کر لے جاتا ہے اور کبھی کبھا ر وہ مردوں کو قبر سے چرا کر لے جاتا ہے۔ اس کی شکل کے متعلق تمام تر اختلافات کے باوجود ایک بات تمام کہانیوں میں جو مشترک ہے وہ یہ ہے کہ اس کے جسم سے جو آوازیں پیدا ہوتی ہیں وہ اس کے جسم کے اوپر لَدی انسانی ہڈیوں اور ڈھانچوں سے پیدا ہوتی ہیں جب وہ اس کے جسم پر پہنی ہوئی زنجیروں سے ٹکراتی ہیں۔ جھردھنگ ایلو کسی خاص جگہ یا گھر کے باہر جب قیام کرتا ہے تو اس محلے یا گھر میں کوئی انسان مرجاتا ہے ۔ مقامی روایت کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ اسی دن ہی اس جگہ کوئی انسان مر جائے جس دن جھردھنگ ایلو گزرا ہو۔ وہاں کوئی شخص اگلے دن یا رات کو بھی مر جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے وہ مرنے والے کی روح اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کے مرنے سے قبل رات کو جھردھنگ ایلو کو دیکھا ہے یا اس کی آواز کو سنا ہے۔
شام ہونے کے بعد گھروں میں بدروحوں کا نام لینے پر پابندی ہے جو رات کو نکلتے ہیں ان کا نام لینے سے ایسی بُری مخلوقات سامنے آجاتی ہیں۔ اس لئے رات کو جھردھنگ ایلو کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کا نام لینے کی بجائے شنا اور بروششکی میں بُری ” شکل والے “کا استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔
مشہور قصے کہانیوں کے مطابق اسے دن کے وقت نہیں دیکھا جا سکتا ، کیونکہ دن کی روشنی میں وہ بے شکل /مجرد ہو جاتا ہے لیکن رات کو وہ اپنے جسم میں آجاتا ہے اور اپنی خوراک تلاش کرتا ہے۔ جب کبھی کوئی شخص جھردھنگ ایلو کو دیکھتا ہے خواہ جھردھنگ ایلو کی نظر اس شخص پر نہ بھی پڑے تو وہ شخص ذہنی طور پر بیمار ہو جاتا ہے اور عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگ جاتا ہے۔ ایسا شخص موت اور خون کا شوقین بن جاتا ہے ۔ کبھی کبھار وہ ذہنی بیمار شخص قبرستانوں کے بارے میں جنونی بن جاتا ہے۔ کچھ کہانیوں کے مطابق وہ متاثرہ شخص کسی دوسرے شخص کی موت کے بارے میں پہلے ہی تصور کر لیتا ہے اور اپنے تصور کو حقیقت میں بدلتے ہوئے دیکھنے کا شدید خواہش مند ہوتا ہے۔ اگر اتفاق سے کبھی وہ شخص مر جاتا ہے تو اس شخص کی بہت زیادہ نفسیاتی تسکین ہوتی ہے۔ ایسے شخص کے لئے موت غیر معمولی خوشی کا باعث بنتی ہے۔
مقامی لوک داستانیں ایسی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جو ہمیں بتاتی ہیں کہ لوگوں نے اپنے گھر بار اور گاؤں صرف اس لئے چھوڑ دیا تاکہ وہ جھردھنگ ایلو کے شر اور اثر سے محفوظ رہیں۔
گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں بھوت آسیب والے گاؤں اور ایسے خالی علاقے موجود ہیں جو زبانی روایات کے مطابق لوگوں نے بُری دیومالائی مخلوق کی وجہ سے چھوڑے۔ اس طرح وہاں سے آبادی ختم ہوگئی اور وہ ویران علاقے جھردھنگ ایلو کے مسکن ہیں۔ انسانوں کی موجودگی اس دیومالائی مخلوق کے مسکن کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ انسانوں کے ساتھ اس کے خونی تعلق کی وجہ ایک ماسٹر کاہن/شمن نے اسے صرف رات تک محدود کر دیا ہے۔ اس سے قبل انسان جھردنگ ایلو کی پوجا کرتے تھے۔
جھردھنگ ایلو دراصل خوف کا دیوتا تھا لوگ اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جانوروں اور یہاں تک کہ انسانوں کی بھی قربانی چڑھاتے تھے ۔ لیکن ایک دن ایک ماسٹر کاہن/ شمن نے اسے قید کرکے صرف رات تک محدود کردیا اور لوگوں کو اس کی غلامی سے آزاد کرایا، تب سے اس کی انسانی سلطنت کا خاتمہ ہوا، اور اس محرومی کی وجہ سے وہ انسانوں سے سخت نفرت کرنے لگا۔
کیونکہ اندھیرے میں کوئی بھی شے پیدا نہیں ہوتی ہے اس لئے رات کی دنیا میں خود کو زندہ رکھنے کے لئے وہ انسانی روحوں کو اپنی خوراک بناتا ہے اس لیے گلگت بلتستان کی دیومالا اور لوک ریت میں جھردھنگ ایلو کو ایک مکروہ مخلوق کے طور دیکھا جاتا ہے۔
نوٹ۔ عزیز علی داد کا یہ مضمون مورخہ 22 دسمبر 2023 کو انگریزی زبان میں ایک مقامی ان لائن جریدے
https://wemountains.com/12/22/2113/?fbclid=IwAR3WCvUMlbpmb20CP2mQVBfu6pu31vnvnnYu7L4hAJ5jhXj6KO_N6_aijn4 میں بعنوان
Jardhang’aaylo: A Mythical Creature of Gilgit-Baltistan
شائع ہوا تھا , جس کا اردو ترجمہ مصنف کی اجازت سے قارئین کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں