نانک رام مینگل، ہم ہی تمھارے قاتل ہیں۔۔فرید مینگل

میں بارہا اپنے ہمدردوں، عزیزوں، دوستوں اور رشتہ داروں سے ہر تحریر کے بعد وعدہ کرتا ہوں کہ ٹھیک ہے خطرات ہیں، چپقلشیں ہیں، جان کھونے کا خطرہ ہے، آج کے بعد میں وڈھ کی صورت حال پر حالات کی بہتری تک قلم نہیں اٹھاؤں گا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد کچھ ایسے ہی حالات، واقعات، حادثات یا پھر عوامی بدحالی کا سامنا ہوتا ہے کہ تمام تر خطرات اور دوستوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے باوجود ضمیر اندر ہی اندر ملامت کر کے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے اور ضمیر کے زندہ ہونے کے سبب پھر سے دہکتی آگ سے کھیلنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔

آج بھی کسی ایسے ہی واقعے نے مجھ نیم مردہ انسان کو پھر سے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ یوں تو بلوچستان میں جب جب آگ دہکی ہے، تب تب بلوچستان کے ہندو بلوچ اپنا سینہ تان کر سروں کی قربانی دینے چل پڑے ہیں۔ جیسے جب لالیں شہید خان مہراب خان کو اس وقت کے انگریزی چاپلوس اور موقع پرست سرداروں نے اپنے حاکم کے سامنے لڑنے کےلیے تنِ تنہا چھوڑا تو وہاں ریاست قلات کے ہندو بلوچ ہی خان کے ساتھ مر مٹنے اور شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہونے کے لیے پہلی صفوں میں موجود تھے۔

جب سکندر مرزا کے طاغوتی لشکر نے میری محبوبہ کے شہر یعنی ریاست قلات کے مرکز پر دھاوا بولا تو وہاں ہندو برادری بھی جامِ شہادت نوش کرنے رقص کرتے آ پہنچی۔

چلیں ماضی قریب ہی کی بات کرتے ہیں، تمھیں مکّا باز آئینی غدار جنرل مشرف تو یاد ہے نا؟ جی وہی مشرف جس نے نوری نصیر خان کے دیار کو پھر سے خون میں نہلانے کی پالیسی کا آغاز کیا تو وہاں بھی ڈیرہ بگٹی میں اولین شہید ہونے والے ہندو بلوچ ہی تھے جو لُمہ وطن پر بے رحمانہ بمباری کے تحت شہید کر دیے گئے۔

مشرف نے بلوچستان کو ایک ایسی آگ میں جھونک دیا جس کی وجہ سے آئے دن ڈیتھ اسکواڈ کے بے لگام مجرم شیر زال لُمہ ملک ناز اور کلثوم بلوچ جیسی خواتین تک کو نہیں بخشتے اور سر عام گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں۔

شہید نانک رام بھی ایسے ہی بھتہ خوروں کا نشانہ بنے۔

وڈھ جو نواب بگٹی کی شہادت کے بعد سے مسلسل زیرِعتاب ہے۔ یہاں ہر وہ شخص جو انکاری ہو یا تو اٹھا کر لاپتہ کر دیا جاتا ہے یا پھر اسے شہید نانک مینگل کی طرح دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے اور ان قاتلوں کو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔

نانک مینگل کا قاتل میں اس مردہ اور بزدل سماج کو اس لیے نہیں کہتا کہ یہاں وہ قتل کر دیا گیا ہے، ایسے تو پورا بلوچستان ایک قتل گاہ بنا دیا گیا ہے مگر میں اس قتل میں اس سماج کو اس لیے ملوث کرتا ہوں کہ یہ ظلم سہنے کا عادی ہو چکا ہے۔ یہ سماج ہر ظلم پر کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کر کے اپنی باری کا انتظار کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ شہید نانک مینگل کو تو 2013 سے مسلسل دھمکیوں اور حملوں کا سامنا تھا مگر یہ مردہ سماج ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا اور نانک مینگل کے شہید ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ اس سے قبل بھی دو بار اسی وڈھ میں انھی منشیات فروش موالی بھتہ خوروں نے شہید نانک مینگل اور اس کے بھائیوں پر بیچ بازار حملے کیے، مگر اس قاتل مردہ سماج کو آواز اٹھانے کی بھی سکت نہ ہوئی۔

نانک مینگل ہمیں بخش دیجیے کہ ہم بے ضمیر، بے ایمان اور مردہ و منافق لوگ ہیں۔ ہم مردہ ضمیر صرف اور صرف اس وقت چیختے ہیں جب بھتہ خور مافیا کی گولی ہمارے اپنے ہی جسم پر آ لگتی ہے۔ ہم تو اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب بھتہ خور آئیں اور ہم سے ہمارا سب کچھ لے جائیں مگر ذاتی جان کی پناہ ملے۔ ہماری سرکاری، قبائلی اور قومی غیرت اتنی ناکارہ ہو چکی ہے کہ وڈھ انتظامیہ، قبائلی ادارہ، اور عوام کے بیچوں بیچ تمھارے دشمن آ کر تمھیں شہید کر جاتے ہیں اور ہم کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ سرکار اور انتظامیہ سے اب اس لیے بھی گلہ نہیں کہ ایک طرف وہ ان قاتلوں کو ہمیشہ بچانے کی کوشش میں رہی ہے تو دوسری طرف ان کی ساری توجہ چوکیوں سے بھتہ وصولی میں ہے۔ لیکن ہم عوام تمھارے قاتل اس لیے ہیں کہ ہم اس بھتہ خور انتظامیہ اور اس کے قاتل چیلوں کو اپنی ان حرکتوں سے باز رکھنے کے لیے ایک مؤثر آواز تک نہیں اٹھا پاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس لیے نانک مینگل، ہم ہی تمھارے قاتل ہیں، ہم ہی تمھارے مجرم ہیں۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نانک رام مینگل، ہم ہی تمھارے قاتل ہیں۔۔فرید مینگل

  1. یہ سماج ظلم سہنے کا عادی ھے؟؟ واہ۔ غریب پنجابی مزدوروں کو چن چن کر ھلاک کرنے والے، تین سالہ پنجابی بچے کو اس کی ماں کے سامنے بم سے اڑانے والے آج مظلوم ھوگئے۔
    جب کوئ مظلوم ظلم کے جواب میں ظالم سے بڑا ظلم کرتا ھے اور وہ بھی بے گناہ شہریوں کے خلاف، تو پھر اسے ھمدردی مانگنے کا کوئ حق نہیں۔ قاتل سے قاتل کی طرح ھی نمٹا جاتا ھے۔

Leave a Reply