غامدی کے نام                       ۔۔سعید چیمہ

لاچاری و بے بسی کے دشتِ بے کراں میں سفر جب طول پکڑ جائےتو فطرتاً چشم کسی سہارے کی طرف اٹھتے ہیں، سہارا تو الفاظ کا بھی بہت ہووے ہے اور الفاظ  کے مرجان کو افتخار عارف اگر شعر کی تسبیح میں پرو دیں تو سہارا دو چند ہو جاتا ہے۔

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں

ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے

ملائیشیا میں پاکستانی سفارت خانے نے یومِ آزادی کے سلسلے میں ایک تقریب منعقد کی تھی، مدعو جس میں خاکسار بھی تھا، پاکستان کو خیر آباد کہے ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے اس لیے پاک دھرتی کی یاد دل پر کچوکے لگاتے ہوئے جگر کو پانی کر رہی تھی، اس تقریب کے دوران مسلسل آبِ رواں میری آنکھوں سے جاری رہا،ایک انٹرویو میں یہ روداد سناتے ہوئے جاوید احمد غامدی کی آواز لڑکھڑا رہی تھی اور انٹرویو سنتے ہوئے درویش حیرت و استعجاب کے عالم میں گم ہو رہا تھا، بالآخر ایک عالمِ دین کو بھی یہ ملک چھوڑنا پڑا، غامدی جو ملک نہ چھوڑتے تو قتل کر دیے جاتے، اس سے پہلے بھی تو  علما  قتل ہوتے رہے ہیں..

بار بار سوال ذہن کے دریچوں سے ٹکراتا ہے کہ ہم اس شخص کو کیسے کھو سکتے ہیں جو اخلاق کی معراج پر فائز ہے، ہم میں سے کتنے ہیں جو غامدی صاحب ایسا اخلاق رکھتے ہیں، ذرا غور کیجیے کہ پاک سرزمین کن پر تنگ ہوئی اور ہو رہی ہے، اگر ایسے ہی جلیل القدر علما  اس ملک کو چھوڑ کر جاتے رہے تو ہمارا کیا بنے گا، جن چراغوں سے اس ظلمت کدہ میں اجالا ہونا تھا وہ دیارِ غیر کو منور کر رہے ہیں۔

غامدی صاحب خود بیان کرتے ہیں کہ لاہور کی ایک مسجد میں مغرب کی نماز ادا کر کے میں گھر پلٹنے کو تھا کہ ایک بزرگ نے مجھے کہنی سے پکڑتے ہوئے روکا، وہ بزرگ کہنے لگے کہ غامدی صاحب! آپ کیوں چاہتے ہیں کہ ہم بھی آپ کے ہمراہ شہید ہو جائیں، کسی دن حاملینِ باطل نے آپ کو قتل کرنے کے لیے مسجد میں دھماکہ کر دینا ہے اور آپ کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں نے بھی خوامخواہ جاں جانِ آفریں کے سپرد کر دینی ہے۔۔

یہی وہ وقت تھا جب غامدی  صاحب نے فیصلہ کیا کہ مجھے اب یہ ملک چھوڑ دینا چاہیے، نہ جانے کیوں آنکھوں کے سامنے وہ منظر آنے لگا جب رسالت مآبﷺ مکہ سے ہجرت کر رہے ہیں، کفارِ مکہ نے آں جناب کو ایسی تکالیف پہنچائی ہیں کہ اب ہجرت کے بغیر چارہ  نہیں، اُدھر تو ہجرت کی وجہ بننے والے کفار تھے، یہاں مگر غامدی صاحب کن کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہوئے، جو کلمہ گو تھے، جنہیں ایمانِ کامل کا دعویٰ تھا،کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اچھا ہوا غامدی صاحب ہجرت کر گئے، ہم شاید اس قابل ہی نہیں کہ ہم میں کوئی مدبر کوئی مفکر موجود ہو، کبھی وقت ہوتا تھا جب حکمران علما  کو تختہ مشق بناتے تھے، امامِ مالک کے بازو توڑے گئے، اس بوڑھے احمد بن حنبل کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے، امام موسیٰ کاظم کو زندان میں ڈالا گیا، اس دور میں حق پرست علما  کو عوام کی تائید حاصل ہوتی تھی، آج مگر ایسا نہیں ہے، یہ عوام ہی تو ہیں جنہیں اشتعال دلا کر حق پرست علما کو وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

کیا کسی کے پاس کوئی نسخہ کیمیا ہے جس سے لوگ اختلاف رائے کو برداشت کرنا سیکھ لیں، خدا بار بار قرآن میں کہتے ہیں کہ اگر ہم چاہتے تو سب سیدھے رستے پر چلا دیتے، لیکن یہاں ہر کسی کو آزادی ہے، جو چاہے رستہ اختیار کرے، جو چاہے رائے اپنائے، اختلافِ رائے تو فطرت کا قانون ہے، اور فطرت کے قانون کو توڑ کر کب کسی نے فلاح پائی ہے،اختتام جون ایلیاء کے اس قول پر کرتے ہیں کہ

Advertisements
julia rana solicitors london

آؤ کہ اختلافِ رائے پر اتفاق کر لیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply