• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ٹیلی ویژن ڈرامے “سہ پہر میں دکھ” کا فنی اور نفسیاتی جائزہ/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

ٹیلی ویژن ڈرامے “سہ پہر میں دکھ” کا فنی اور نفسیاتی جائزہ/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

ڈرامہ عملی زندگی کی تصویر دکھاتا ہے جس میں مختلف کردار اپنی گفتگو اور عمل کے ذریعے اسے جامع انداز میں اسٹیج پر پیش کرتے ہیں، تاکہ ڈرامہ دیکھنے والے کا دل بے اختیار ہو کر سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ زندگی میں کتنے دکھ اور سکھ ہیں۔ان کی تعداد اور وقت کا کوئی تعین نہیں کر سکتا۔بلاشبہ ان دکھوں کا واسطہ انسان کی پیدائش سے
لے کر موت تک جڑا نظر آتا ہے۔انسان ہر روز نت نئے تجربات اور مشاہدات کی بھٹی میں جلتا اور ان دکھوں سے روشناس ہوتا ہے جن کی بابت اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ڈرامہ نگاری اصناف نثر کی خوبصورت اور باکمال صنف ہے جس کی تاریخ تقریبا ڈیڑھ صدی پر مشتمل ہے۔اس کی ابتدا یونان سے شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ اپنی فنی منازل طے کر کے اصناف ادب میں شامل ہوگئی۔اصناف نثر میں داستان ، ناول ، انشائیہ، رپورتاز ، مقالہ اور ڈرامہ نگاری جیسے عناصر شامل ہیں۔ مذکورہ اصناف کو آج بھی قدرکی نگاہ سے دیکھا ،لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
اگر برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قدیم سنسکرت ڈرامے جن میں شرکرشن اور رام چند رومی اردو ڈرامے کی ابتدا بنے۔مگر جو شہرت ڈرامہ نگاری میں آغا حشر کشمیری کے حصے میں آئی وہ کسی دوسرے کے ماتھے کا جھومر نہیں بنی۔
آغا حشر کاشمیری ڈرامہ نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکمال شاعر اور نثر نگار بھی تھے۔
ڈرامہ لکھنے کے لیے ارسطو نے ڈرامہ نویسی کے چھ اصول وضع کیے تھے جنہیں بنیاد بنا کر ڈرامہ لکھا جاتا تھا۔ان چھ اجزاۓترکیبی میں کہانی، الفاظ، خیال، کردار، آرائش اور موسیقی شامل ہے۔ ارسطو کے بعد جدید نقادوں نے ڈرامہ نویسی کے اجزائے ترکیبی میں کچھ اضافہ بھی کیا۔یوں ڈرامہ نویسی نے تنقید اور تحقیق کے زمرے میں وقت کے ساتھ اپنی منازل طے کیں جس کے واضح اثبات و ثمرات آج بھی معاشرے میں موجود نظر آتے ہیں۔
جدید نقادوں کے نزدیک ڈرامہ میں پلاٹ ، مرکزی خیال ، آغاز ، کردار ، سیرت نگاری ، مکالمہ ، تسلسل ، انجام ، اسٹیج اور موسیقی جیسے عناصر شامل ہیں۔یوں کہہ لیجئے مذکورہ اجزائے ترکیبی کی بدولت ڈرامہ نویسی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔بہرحال ڈرامہ نویسی کا فن آج بھی لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔لوگوں کے جذبات اور تصورات کو طلسماتی ماحول بنانے پر مجبور کردیتا ہے۔انسان کی زندگی میں نہ جانے کتنے دکھ ہیں صرف انہیں سمجھنے ٹٹولنے اور حقیقت کے قریب ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ڈرامہ نگاری ایک فنی ادب ہے اور انسانی نفسیات پر اس کے جمالیاتی اثرات شعوری کیفیت اجاگر کرتے ہیں۔
فاضل دوست منظور راہی عصر حاضر کے عظیم ڈرامہ نویس ہیں۔ان کا نام اور فن کسی تعارف کا محتاج نہیں۔لہذا ان کے فن اور شخصیت کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ڈرامہ نگاری میں حقیقت کا رنگ کس خوبصورتی سے بھرتے ہیں کہ دیکھنے والا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ان کی اس ہمہ گیر ادبی خدمت کا یادگار گلدستہ “سہ پہر میں دکھ” ہماری نسلوں کے پاس موجود ہے۔وہ کس طرز کے ڈرامہ نگار ہیں اس بات کا فیصلہ یقینا ان کی کتاب پڑھنے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔میرے نزدیک ان کے ڈرامے معاشرے کو امن ، محبت، بھائی چارہ اور ہم آہنگی کو فروغ دیتے نظر آتے ہیں۔ان کے ڈراموں میں عملی تدبیروں کا جم غفیر موجود ہے جو لوگوں کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
فاضل دوست کچھ ایسے ہی تخلیق کار اور منطقی سوچ کے مالک ہیں جن کے ڈراموں میں فن اور انسانی نفسیات کا جذبہ کشید ہوتا ہے۔لہذا اس حقیقت کے پیرائے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ حقیقی زندگی کے کتنے قریب تر ہیں۔
وہ اپنے مشہور ڈرامے “گواچے لو ک” میں انسانی قدروں اور لہو کی فضیلت کو اس انداز سے روشناس کرواتے ہیں کہ تمام دنیا کے لوگوں میں ایک ہی رنگ کا لہو ہے۔سب فرزند آدم ہیں اس امر کے باوجود بھی لوگ خون اور گوشت کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔لالچ اور حرص و ہوس نے انسانی زندگی کو کس قدر محال بنا دیا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر آسانی سے دوسروں کا خون کر دیتا ہے۔وہ انسانی رشتوں پر بھی نوحہ کناں ہوتے ہیں کہ ہمارے دلوں سے رشتوں کا تقدس کیوں پامال ہوتا جا رہا ہے؟
میں جیسے جیسے ان کے ڈرامے پڑھتا ہوں مجھے ان کے ڈراموں میں ادبی جھلک ، انسانیت کا پرچار ، اخلاقیات کے تارے ، پختہ شعور ، انسانی جبلت کی کہانی ، مفاد پرستی کی جنگ ، حرص و ہوس کی انتہا نظر آتی ہے۔
کتاب “سہ پہر میں دکھ ” میں پانچ ٹیلی ویژن ڈرامے شامل ہیں۔ ان کا ہر ڈرامہ الگ الگ کہانی پر مشتمل ہے۔ڈراموں کا آغاز و انجام بڑا دلچسپ اور منفرد ہے۔
انسان ان ڈراموں کو پڑھ کر سیکھ سکتا ہے کہ انسان اپنی زندگی سے منفی سوچ، خود غرضی، بے حسی جیسی قباحتوں کو کیسے دور کر سکتا ہے؟ آخر ہماری وہ کون سی مجبوریاں اور لاپرواہیاں ہیں جنہوں نے ہمیں جکڑ کر کردار کشی پر مجبور کردیا ہے۔ غربت کی چکی اور دولت کی بہتات کس قدر تعجب خیز ہیں جو انسانیت کے درمیان ایک شرارہ بن کر زندگی کا تماشہ دیکھتی ہے۔ اگرچہ دونوں صورتوں کے خوف اور زہر الگ الگ ہیں جو انسانوں کو احساس کمتری اور احساس برتری کے ماحول میں داخل کرتے ہیں۔وہ حالات و واقعات کی بڑی بے باکی سے پردہ چاک کرتے ہیں کہ قوت، طاقت اور اختیار بے بس لوگوں پر کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟
انہیں بے جا تنقید اور ظلم و ستم کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟
یقینا گزری اور نئی باتیں زندگی کے رخ بدل دیتی ہیں۔اگر ان ڈراموں میں زندگی کی باتوں کو حقیقت کی ہتھیلی پر لکھا جائے تو وہ باتیں بہت جلد قلب و ذہن میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔فاضل دوست نے اپنے ڈراموں میں حقیقت نگاری سے کام لے کر اپنی فنی اور نفسیاتی عوارض کو ماہر نباض کی طرح دیکھا ہے ۔بلاشبہ منظور راہی نے ڈرامے لکھتے ہوئے انسانی نفسیات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔نفسیاتی مسائل کی گرہیں کھول کھول کر بیان کی ہیں تاکہ گہرائی اور گیرائی کا دامن یکساں دکھائی دے۔
انہوں نے اپنی نگاہوں سے نفسیاتی بھاپ لے کر مختلف النوع کو کرداروں کے ذریعے انسانیت کی ترجمانی کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔وہ اپنے ڈراموں میں منفی رجحانات کو اس طرح بے نقاب کرتے ہیں جیسے کوئی ماہر نباض نبض دیکھ کر مرضیاتی حالت بتا دیتا ہے۔ ان کا اصول نگارش نہایت شگفتہ ، دلچسپ ،اساطیری ، اچھوتا اور فنی خوبیوں سے مزین اور اعلی پائے کے وصف کی نشاندہی کرتا ہے۔ جو نہ صرف انسانوں کو سحرانگیز ماحول میں لے جاتا ہے بلکہ حقیقت کے قریب بھی لے آتا ہے۔تاکہ انسانیت کی مشترکہ خصوصیات اور اثرات مثبت پیش رفت کو فروغ دے سکیں۔
انہوں نے اپنے ڈراموں میں طبقوں میں بٹے ہوئے لوگوں کی نفسیات کو پردہ سکرین پر ایسے پیش کیا ہے جیسے کوئی اصل کہانی اپنا منظر پیش کر رہی ہے۔
بلاشبہ یہاں کردار سازی کی سیرت بنیادی عناصر کا روپ اوڑھ کر ڈرامہ کو پر تاثیر بنا دیتی ہے۔
میں یہ لکھنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ منظور راہی عصر حاضر کے عظیم ڈرامہ نگار ہیں بلکہ وہ عظیم افسانہ نگار بھی ہیں۔میں ان کے لکھے ہوئے ڈراموں کو عزت، قدر ، ستائش ، فہم اور فخر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ میں نے ان کے لکھے ہوئے ڈراموں میں چربہ سازی اور نقل سازی کا رجہان نہیں دیکھا بلکہ وہ ذاتی محنت ، ریاضت، معاشرتی حقائق کے ذریعے ایسی کہانی پیش کرتے ہیں جہاں انسان تاریخ اور ماضی کی قدروں میں کھو جاتا ہے۔
تاریخ انسان کو کبھی نہیں بھولتی اور نہ خود مٹتی ہے۔ اگر ہم بات کا دوسرا رخ دیکھے تو دنیا میں ہر انسان ایک دوسرے کو بھول جاتا ہے مگر تاریخ انسان کو صدیوں تک زندہ رکھنے کا عزم ادا کرتی ہے۔
منظور راہی کے یہ ڈرامے ہمیں اور آنے والی نسلوں کو یاد کرواتے رہیں گے کہ” سہ پہر میں دکھ” بھی مل جاتے ہیں۔ اگر انسانی زندگی پر غور و خوض کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دکھ کسی وقت بھی آ سکتا ہے۔ میں ان کے اس دکھ کو ایوب نبی کے صحیفے کی اس آیت پر ختم کروں گا۔
” انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے تھوڑے دنوں کا ہے اور دکھ سے بھرا ہے۔وہ پھول کی طرح نکلتا اور کاٹ ڈالا جاتا ہے۔وہ سایہ کی طرح اڑ جاتا ہے اور ٹھرتا نہیں” (ایوب 14 باب 1 تا2 آیات)

 

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply