پیالی میں طوفان (91) ۔ پرانے ٹی وی/وہاراامباکر

وہاپرانے وقتوں میں الیکٹرونکس بھاری بھرکم ہوا کرتی تھی۔ اس وقت الیکٹرونکس کے مسائل آج کے سمارٹ فون اور وائی فائی والے نہیں تھے۔ آج الیکٹرونکس دیدہ زیب غلاف میں ڈھکی اور پوشیدہ ہوتی ہے لیکن 1940 سے 1970 کے وقتوں میں ایسا نہیں تھا۔ کبھی آواز، کبھی دھواں اور کبھی شعلہ ۔۔ کسی آلے کے خراب ہونے کا پتا دیتا تھا۔ ٹرانسسٹر اور کمپیوٹر چپ نے اس سب کو چھپا لیا ہے۔ آلات کا چھوٹا سائز ان کے اندر کی وسیع اور پیچیدہ دنیا کو غائب کر دیتا ہے۔ ان کی آمد سے پہلے آپ ان کا جادو اپنی نظروں کے سامنے ہی دیکھ سکتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصور کریں کہ جرمن فزسسٹ جوہان ہٹورف 1867 میں اپنی نئی ایجاد دیکھ رہے ہیں۔ شیشے کی ٹیوب جس میں سے ہوا نکال دی گئی، اس میں سے دو دھات کے ٹرمینل باہر جھانک رہے ہیں۔ کتنا عجیب لگا ہو گا جب اس کے ساتھ بڑی بیٹری کو لگایا اور ٹیوب میں سے پرسرار اور نہ نظر آنے والی شے بہنے لگی۔ ہٹورف بنا سکتے تھے کہ ایسا ہو رہا ہے کیونکہ اس سے ٹیوب کا ایک سرا چمکنے لگا۔ اور اگر اس کے راستے میں کچھ رکھ دیا جائے تو اس پر سائے بننے لگیں گے۔
اگرچہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس میں بہہ کیا رہا ہے، لیکن اس کا نام رکھا جانا تھا۔ اس کو cathode rays کا نام دیا گیا۔ کیتھوڈ اس ٹیوب کا وہ ٹرمینل تھا جو بیٹری کے منفی سے جوڑا گیا تھا۔ اور یہ عجیب شعاعیں یہاں سے آ رہی تھی۔
آج کے پتلے LED ٹی وی سے قبل 1990 کی دہائی تک ٹیلی ویژن کے لئے یہی ٹیکنالوجی تھی جو کہ CRT یعنی cathode ray tube کہلاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوہان ہٹورف کی بنائی گئی اس ٹیوب کے تیس سال بعد جے جے تھامپسن نے دریافت کیا کہ اس میں سے جو شے بہہ رہی تھی، وہ شعاعیں نہیں تھیں بلکہ انفرادی طور پر منفی چارج والے ذرات تھے۔ ان ذرات کو ہم اب الیکٹرون کہتے ہیں۔ لیکن اب اس آلے کا نام بدلا نہیں جا سکتا تھا۔ اور اگرچہ یہ کیتھوڈ سے نکلنے والی شعاعیں نہیں تھی لیکن نام ہمیشہ CRT رہا۔
آج ہمیں معلوم ہے کہ اس کے آر پار اگر وولٹیج دی جائے تو اس سے برقی فیلڈ پیدا ہوتا ہے۔ الیکٹرون منفی سے مثبت سائیڈ کی طرف بھاگتے ہیں۔ اور چونکہ انہیں مسلسل دھکا دیا جا رہا ہوتا ہے تو اس دوران یہ ایکسلریٹ ہوتے ہیں۔ مثبت کی طرف ان کے لئے کشش ہوتی ہے اور ان کی رفتار تیز ہوتی رہتی ہے۔ جتنی وولٹیج زیادہ ہو گی، اتنی تیزی سے یہ دوسری طرف پہنچیں گے۔ CRT ٹیلی ویژن میں جب تک یہ سکرین سے ٹکراتے ہیں تو ان کی رفتار دو کلومیٹر فی سیکنڈ کے قریب ہو چکی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو وہ بنیادی پراسس جس کے ذریعے الیکٹرون دریافت ہوئے، یہی پراسس بیس سال پہلے ہر ٹی وی کے اندر چل رہا تھا۔ ہر CRT ٹی وی کے پیچھے آلہ تھا جہاں سے الیکٹرون نکلتے تھے۔ ٹی وی کے درمیان میں خالی جگہ تھی۔ یہ ویکیوم تھا جس میں کوئی ہوا نہیں تھی، یعنی الیکٹرون کے لئے اس میں رکاوٹ نہیں تھی۔ الیکٹرون گن سے نکلنے والے الیکٹرون یہاں سے گزر کر سکرین سے ٹکراتے تھے۔ یہ برقی کرنٹ کی خالص ترین شکل تھی۔ چارجڈ ذرات جو کہ سیدھی لکیر میں سفر کرتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply