• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت کوئی ادارہ یا ایجنسی آڈیو ٹیپ کرنے کا مجاز نہیں

آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت کوئی ادارہ یا ایجنسی آڈیو ٹیپ کرنے کا مجاز نہیں

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت نے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی یا ایف آئی اے اور آئی بی سمیت کسی دوسری سرکاری ادارے یا ایجنسی کو آڈیو ٹیپ کرنے کی اجازت نہیں دی اور اگر کوئی حکومتی ایجنسی بلااجازت اس نوعیت کی ریکارڈنگز کر رہی ہے تو وہ غیر قانونی ہے۔

اٹارنی جنرل نے یہ مؤقف سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور ان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کے درمیان ہونے والی مبینہ ٹیلفونک گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کردہ ایک درخواست پر سماعت کے دوران اپنایا۔

اس کیس کی سماعت کرنے والے جج جسٹس بابر ستار نے اٹارنی جنرل کے اس بیان پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو بھی حکومتی نمائندہ آتا ہے وہ کہتا ہے کہ آڈیو ٹیپ کی اجازت نہیں، تو سوال یہ ہے کہ پھر ایسا کون اور کیوں کر رہا ہے؟ جسٹس ستار کا مزید کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت نے عدالت کو نہیں بتایا تو پھر عدالت نیشنل اور انٹرنیشنل عدالتی معاون مقرر کرے گی تاکہ یہ پتہ لگایا جائے کہ ریکارڈنگ کون اور کیوں کر رہا ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور اعوان نے وزیر اعظم آفس کی رپورٹ پیش کی اور کہا وزیراعظم آفس کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت نے آئی ایس آئی، ایف آئی اے اور آئی بی سمیت کسی ادارے یا ایجنسی کو آڈیو ٹیپ کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے کو پہلے دیکھنا ہے کہ کس نے کال ریکارڈ کی، عدالتی احکامات کے بعد ایف آئی اے ٹیلی کام کمپنیوں کو اس ضمن میں مراسلے لکھ رہا ہے۔ انھوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایف آئی اے کو اُن آئی پی ایڈریسز تک رسائی چاہیے ہو گی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے رپورٹ لینی پڑے گی تب ہی اس ضمن میں تحقیقات آگے بڑھ سکتی ہیں۔

اس موقع پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس آئی کہہ رہی ہے کہ آڈیو کہاں سے لیک ہوئی اس کے سورس کا پتہ نہیں چل سکتا۔ عدالت نے پیمرا کے نمائندے سے استفسار کیا کہ انھوں نے آڈیو لیکس نشر کرنے والے ٹی وی چینلز کے خلاف کیا کارروائی کی؟ کیا آپ مؤثر طریقے سے بطور ریگولیٹر کام کر رہے ہیں؟

اس پر پیمرا کے حکام نے بتایا کہ پرائیویٹ آڈیو لیک کو ٹی وی چینلز نشر نہیں کر سکتے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے یہ معاملہ کونسل آف کمپلینٹ کو بھیجا ہے وہ فیصلہ کریں گے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس بابر ستار نے کہا کیا آپ نے ٹی وی چینلز کو کسی اور کیس میں فوری ہدایات جاری کی ہیں؟

نہوں نے پیمرا کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ فوری طور پر ایکشن نہیں لے سکتے اور یہ کہ معاملہ پیمرا کونسل آف کمپلینٹ کے پاس جائے گا۔ عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا ایک دفعہ نہیں پورا دن ٹی وی چینلز پر وہ آڈیو لیکس چلتی رہی ہیں۔

سماعت کے دوران عدالت نے ٹی وی چینلز ضابطہ اخلاق سے متعلق سیینئر صحافیوں کو بھی عدالتی معاون مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔

جسٹس بابر ستار نے دوران سماعت عدالتی معاون اعتزاز احسن کو مخاطب کر کے کہا ایک طرف فریڈم آف انفارمیشن اور دوسری طرف پرائیویسی کا معاملہ ہے، کیسے بیلنس ہونا چاہیے، آپ بتائیں کیسے اس کیس کو اب آگے بڑھایا جائے۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سیلف ریگولیشنز ہونی چاہییں، یہاں تو آئین پر عمل نہیں کیا جاتا، آئین نے 90 دن میں الیکشن کا کہا عمل نہیں ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

عدالت نے پی ٹی اے، ایف آئی اے سمیت دیگر فریقین کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply