• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملے, عالمی طاقتوں نے سر جوڑ لیے

بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملے, عالمی طاقتوں نے سر جوڑ لیے

یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے بحیرہ احمر سے گزرنے والے مال بردار تجارتی بحری جہازوں پر حملوں نے دنیا بھر کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ حوثی باغی یمن کے زیادہ تر حصے پر قابض ہیں اور اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کے بعد حوثی باغیوں نے اسرائیل سے آنے اور وہاں جانے والے تجارتی جہازوں پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر بہت سے بڑی کارگو تجارتی کمپنیاں اپنے جہازوں کا رُخ موڑنے یا انھیں روکنے پر مجبور ہیں۔

ماہرین نے بتایا ہے کہ اگر بحری جہازوں کو بحیرہ احمر میں ہونے والے حملوں سے بچانے کے لیے متبادل راستوں سے گزرنے پر مجبور کیا گیا تو پیٹرولیم مصنوعات سمیت، الیکٹرانک آلات اور ٹرینرز (جوتے) جیسی روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔

بحیرہ احمر کے جنوبی سرے پر واقع آبنائے ’باب المندب‘ میں تجارتی بحری جہازوں پر حوثیوں کی جانب سے حملوں میں اضافے کے بعد جہاز رانی کی بڑی بڑی کمپنیوں نے اپنے بہت سے جہازوں کو اس راستے سے لے جانے سے گریز کرنا شروع کر دیا ہے۔

بحیرہ احمر کا یہ راستہ عالمی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق فی الحال دنیا کی تجارت کا 12 فیصد حصہ بحیرہ احمر کے شمالی سرے پر موجود نہر سویز سے گزرتا ہے۔ اس کے ساتھ وہاں سے گزرنے والے سامان تجارت میں دنیا کے 30 فیصد کنٹینرز بھی شامل ہیں۔

حوثی باغیوں کی جانب سے حملوں میں اضافے کے بعد بحیرہ احمر کے راستے شپنگ معطل کرنے کا اعلان کرنے والی کمپنیوں میں اب تیل کی بڑی کمپنی ’برٹش پٹرولیم‘ بھی شامل ہو گئی ہے۔

اس سے قبل ’میئرسک‘ جیسی دنیا کی بڑی شپنگ کمپنیوں نے اس اہم تجارتی راستے سے اپنے بحری جہازوں کے سفر کو معطل کر دیا ہے۔

حوثی باغیوں کے جانب سے یہ حملے اکتوبر کے اوائل میں فلسطینی عسکریت پسندوں کی کارروائی کے جواب میں غزہ میں اسرائیلی فوجی حملوں کا نتیجہ ہیں کیونکہ حوثیوں نے حماس کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

یاد رہے کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اب تک 19 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں کی کثیر تعداد ہے۔

حوثی باغیوں نے کہا کہ وہ ڈرون اور راکٹوں کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل جانے والے تجارتی بحری جہازوں پر حملے کر رہے ہیں، حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ ہدف بننے والے تمام جہاز درحقیقت اسرائیلی علاقوں کی طرف جا رہے تھے۔

برٹش پیٹرولیم، ہانگ کانگ کی ’او او سی ایل‘، ’میئرسک‘، ’ہاپک لائیڈ‘، ’ایم ایس سی‘ اور ’سی ایم اے سی جی ایم‘ جیسی بہت سی بڑی کمپنیوں نے اب بحیرہ احمر کے ذریعے سویز نہر کے راستے اپنی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں اور اب وہ اپنے بحری جہازوں کو جنوبی افریقہ کے ’کیپ آف گڈ ہوپ‘ کا متبادل راستہ استعمال کر رہے ہیں۔

حملوں کے نتیجے میں پہلے ہی شپنگ (تجارتی مال کی ترسیل) کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ اب راستے کی تبدیلی سے اخراجات میں مزید اصافہ ہو گا کیونکہ اس میں کمپنیوں کی اضافی لاگت آئے گی۔

ایک میری ٹائم سکیورٹی کمپنی نے بتایا ہے کہ اس علاقے میں اب بحری جہازوں پر تعینات مسلح سکیورٹی اہلکاروں کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

گلوبل میری ٹائم رسک مینجمنٹ ایمبری نے کہا کہ سفر کے لیے بیمہ (انشورنس) کی لاگت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب یہ 0.015 فیصد سے بڑھ کر 0.5 فیصد ہو گئی ہے۔

بظاہر یہ تھورا سا فرق ہے مگر اتنا سا فرق بھی ایک تجارتی جہاز کے بحری سفر پر دسیوں ہزار ڈالر کے اضافی اخراجات کا سبب بن سکتا ہے۔

ماہرین نے کہا کہ بحیرہ احمر کے راستے کو ترک کرنے سے جہاز رانی، انشورنس اور دیگر بحری لاجسٹک خدمات کی لاگت میں 30 فیصد تک اضافہ ہو جائے گا اور اس اضافی اخراجات کا بار بھی صارفین پر ہی آئے گا۔

بحیرہ احمر: اہم راستہ کیوں؟
بحیرہ احمر تیل اور مائع قدرتی گیس کے ساتھ ساتھ اشیائے ضروریہ کی نقل و حمل کے لیے دنیا کی اہم ترین گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔

کنسلٹنگ کمپنی ’ایس اینڈ پی گلوبل مارکیٹ انٹیلیجنس‘ کے ایک حالیہ تجزیے سے پتا چلا ہے کہ ایشیا اور خلیج سے یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں درآمد کی جانے والی تقریباً 15 فیصد اشیا بحیرہ احمر کے راستے بھیجی جاتی ہیں۔ ان میں 21.5 فیصد ریفائنڈ تیل اور 13 فیصد سے زیادہ خام تیل مصنوعات شامل ہیں۔

حوثی باغی آبنائے ماندب سے گزرنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے لگے ہیں جسے ’گیٹ آف ٹیئرز‘ (یعنی اشکوں کا دروازہ) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ 32 کلومیٹر چوڑا چینل ہے اور یہ جہاز رانی کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

یہ جزیرہ نما عرب میں یمن اور افریقی ساحل پر جبوتی اور اریٹیریا کے درمیان واقع ہے۔

یہ وہ راستہ ہے جس سے بحری جہاز جنوب سے نہر سویز تک پہنچ سکتے ہیں، جو ایک اہم سمندری راستہ ہے۔

تازہ ترین حملے میں ایم ٹی سوان اٹلانٹک کے مالک نے کہا کہ بحری جہاز کو پیر کے روز ایک ‘نامعلوم چیز’ نے نشانہ بنایا جب کہ یمن سے دور بحیرہ احمر میں اس کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

میئرسک دنیا کی دوسری سب سے بڑی شپنگ کمپنی ہے۔ اس نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ اس راستے پر اپنی شپنگ کو معطل کر رہی ہے کیونکہ اس کا ایک بحری جہاز حملے میں تباہ ہونے سے بال بال بچا ہے اور اس نے دوسرے جہاز پر حملے کو ’خطرناک صورتحال‘ بتایا ہے۔

اس کے بعد دنیا کے سب سے بڑے شپنگ گروپ ایم ایس سی نے کہا کہ ان کے جہاز اس علاقے سے گزرنے سے گریز کریں گے۔

سوموار کے روز دنیا کی سب سے بڑی شپنگ کمپنیوں میں سے ایک نے کہا کہ وہ اب بحیرہ احمر کے راستے اسرائیلی سامان کی نقل و حمل نہیں کرے گی۔

ایک اپ ڈیٹ میں ایورگرین لائن نے کہا: ’بحری جہازوں اور عملے کی حفاظت کے لیے ایورگرین لائن نے عارضی طور پر اسرائیلی کارگو کو فوری طور پر نہ قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور اپنے کنٹینر بحری جہازوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بحیرہ احمر میں اگلی نوٹس تک سفر کرنے سے گریز کریں۔

عالمی طاقتوں کا ردعمل
حوثیوں کے ان حملوں کی وجہ سے امریکہ نے بحیرہ احمر کے راستے پر بحری جہازوں کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی بحری مہم ’آپریشن پروسپیریٹی گارڈین‘ شروع کیا ہے۔

اس سکیورٹی ایکشن میں شامل ہونے والے ممالک میں امریکہ کے ساتھ برطانیہ، کینیڈا، فرانس، بحرین، ناروے اور سپین شامل ہیں۔

امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مزید حملوں کو روکنے کی کوشش میں تعمیری کردار ادا کرنے والے ملک چین کا خیرمقدم کرے گا۔

سینیئر حوثی اہلکار محمد البخیتی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا: ’اگر امریکہ پوری دنیا کو متحرک کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو بھی ہماری فوجی کارروائیاں نہیں رُکیں گی۔۔۔ چاہے اس کے لیے ہمیں کتنی ہی قربانیاں دینا پڑیں۔‘

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے منگل کے روز 40 سے زیادہ ممالک کے وزرا کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ کی اور مزید ممالک سے بحیرہ احمر میں جہازوں سلامتی کی کوششوں میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کا مطالبہ کیا۔

نتائج
حوثیوں کے حملے سے بچنے کے لیے آبنائے باب المندب کو استعمال کرنے کے بجائے اب بحری جہازوں کو جنوبی افریقہ سے گزرنے والے طویل راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور اس طرح ممکنہ طور پر اس سفر میں تقریباً 10 دن کا اضافہ ہو گا اور اس پر لاکھوں ڈالر لاگت آئے گی۔

ایس اینڈ پی گلوبل مارکیٹ انٹیلیجنس کے کرس راجرز نے کہا کہ اس سے ’صارفین کی اشیا پر سب سے زیادہ اثر پڑے گا، حالانکہ موجودہ خلل آف پیک شپنگ سیزن کے دوران ہو رہی ہیں۔‘

ایورگرین لائن نے کہا کہ ایشیا اور بحیرہ روم، یورپ یا امریکہ کے مشرقی ساحل کے درمیان طویل سفر پر چلنے والے کسی بھی کنٹینر جہاز کو بھی کیپ آف گڈ ہوپ سے گزارا جائے گا۔

کرائے کی قیمتوں کا ڈیٹا رکھنے والی کمپنی زینیٹا کے چیف تجزیہ کار پیٹر سینڈ نے کہا کہ شپنگ کمپنیاں اب صارفین کو مطلع کرنے کی کوشش کریں گی کہ کارگو میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’اس طرح کی صورتحال کے نتیجے میں صارفین کو یقینی طور پر کوئی قیمت ادا کرنی ہو گی۔‘

انھوں نے کہا کہ کاروباری صنعت کو زیادہ انشورنس پریمیم جیسے اثرات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ شپنگ کمپنیاں بحران سے نمٹنے کے لیے 2021 کے مقابلے کہیں بہتر پوزیشن میں ہیں جب ایک بڑے جہاز ایور دگیون نے سویز کینال کو بند کر دیا تھا جس کے باعث بحری ٹریفک کئی روز تک معطل رہی تھی۔

چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف لاجسٹکس اینڈ ٹرانسپورٹ کے سو ٹرپیلووسکی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اضافی ایندھن اور وقت کے اخراجات کے علاوہ جنگی خطرے کی بیمہ کی لاگتیں ‘تیزی سے’ بڑھ رہی ہیں اور نتیجتا صارفین کو بھی زیادہ قیمتوں کا سامنا ہوگا۔

تجزیہ کاروں نے مشورہ دیا کہ اگر دیگر بڑی تیل کمپنیاں بھی برٹش پیٹرولیم کی طرح کا فیصلہ کرتی ہیں تو تیل کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔

یوریشیا گروپ کے تجزیہ کار گریگوری بریو نے کہا کہ اس وقت یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے اثرات کتنے اہم ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انھوں نے کہا کہ ‘اگر زیادہ شپنگ کمپنیاں اپنے بحری جہازوں کا رُخ موڑ دیتی ہیں اور یہ خلل ایک یا دو ہفتے سے زیادہ دنوں تک جاری رہتا ہے تو قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔‘

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply