شیریں کا فرہاد’شاہد اختر/خالدہ نسیم

پچھلے دنوں شیرین کا پیغام آیا کہ وہ شاہد اختر صاحب کی سرپرائز سالگرہ منانا,اور دوستوں کو دعوت دینا چاہتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ شاہد صاحب کی   80 ویں  سالگرہ ہے۔ میں کافی حیران ہوئی۔ کیونکہ شاہد اور شیرین کو خدا نظر بد سے بچائے، یہ ایک صدا بہار جوڑا ہے۔ اور شاہد صاحب کی عمر میرے اندازے کے مطابق 70 سے زیادہ نہیں تھی۔ لہذا میں نے اپنے ذہن میں انہیں ریورس ایجنگ (reverse aging) کی category میں شامل کر لیا۔ ویسے ریورس ایجنگ اب ایک باقاعدہ سائنسی ریسرچ سے ثابت شدہ حقیقت ہے۔ جس پر کسی اور وقت تفصیل سے بات ہو سکتی ہے۔

خیر شیریں کی دعوت کے بعد شیریں کا دوسراپیغام آیا کہ کوئی برتھ ڈے گفٹ نہیں لے کر آنا ہے۔ بلکہ گفٹ کے حساب سے کسی ڈونیشن فنڈ میں چاہیں تو کچھ ڈال لیں۔ یہ بہترین گفٹ ہوگا۔ میں نے سوچا گفٹ غیر مادی بھی تو ہو سکتا ہے۔ لہذا میں نے لفظوں کی چھوٹی سی مالا میں محبت کے کچھ موتی پرو کر دوستی کی محبت کا ایک تحفہ پیش کرنے کا سوچا۔

میں نے اپنی سوچ اور احساس سے کچھ موتی مانگ لیے  اور انہیں پروتی گئی۔ کتنے ہی خوبصورت موتی ہاتھ لگے۔ بس مجھے ایک چھوٹا سا مسئلہ درپیش تھا اور وہ یہ تھا کہ شاہد اور شیرین میرے دل و دماغ میں ایک ہی وجود کی طرح نقش ہیں۔ ایک کی خوبصورتی میں دوسرے کا رنگ نظر آتا ہے۔ اور میری تیار کی  گئی مالہ کا سب سے قیمتی، کوہ نور جیسا موتی ان دونوں کا دوستی نما، یک جان دو قالب کے مصداق تعلق تھا۔ آپ کو یقیناً ان کی الگ الگ خوبصورتیاں نظر آتی ہیں، لیکن ان کے ایک دوسرے کی کمپینین شپ (companionship) کی چمک سب سے پہلے آنکھوں میں پڑتی ہے۔

میں نے اکثر شاہد اور شیرین کا ذکر خالد سہیل اور چند اور لوگوں سے سنا تھا۔ لیکن میری ان سے پہلی ملاقات روبینہ فیصل کے گھر پر قریبا دو سال پہلے ایک ادبی محفل میں ہوئی۔ ہم ہر روز بیشمار لوگوں سے ملتے ہیں لیکن ان میں سے چند ایک ایسے ہوتے ہیں، جن سے مل کر پہلی ملاقات میں لگتا ہے کہ جیسے آپ ان کو بہت عرصے سے جانتے ہیں۔ مجھے ان سے مل کر ایسا ہی محسوس ہوا۔ ان سے بات کر کے، ان کے خیالات سن کر، اور ان کا خلوص محسوس کر کے ان سے ملتے رہنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اور پھر ایسے مواقع آتے گئے جن میں ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان کے دل اور ان کے گھر کا دروازہ ہمیشہ کھلا ملا۔ ان کے پاس بیٹھنے میں جو ایک  گداز     ہے وہ آپ کو اندر سے پگھلا دیتا  ہے۔ اور ان کے اس گداز  میں شیریں  کی محبت کے علاوہ ان کے ہاتھ کے بنے کھانوں کا ذائقہ بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

آج چونکہ شاہد صاحب کا دن ہے، اور ان کے حوالے سے اگر میں بات کروں تو یوں کہ شاہد صاحب ہمیشہ ایک سمجھدار، معزز، خوش لباس، خوش بیان دوست کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے پر مجھے ہمیشہ ایک مسکراہٹ نظر آئی ہے۔ ان کے پاس بیٹھ کر انسان کو اپنی respect کا احساس ہوتا ہے۔ وہ خوش بیان انسان ہیں اور مذاق اور سنجیدہ، ہر بات پر انتہائی شگفتگی سے بات کرنے والے ، لیکن ان کی زبان سے آپ کبھی کسی کیلئے چھوٹا لفظ نہیں سنیں گے۔ دوستی کا لحاظ رکھنے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

ایک موقع تھا جب یہ دونوں یورپ کی سیر کر کے واپس آئے تھے۔ میرے گھر پر دعوت تھی۔ میں نے اصرار کیا کہ دعوت میں شرکت ضرور کریں۔ یہ دونوں جیٹ لیگ (jet lag ) کے مارے، مجھے انکار نہ کر سکے۔ تھکے ہارے رات کے وقت میرے گھر پر دو گھنٹے کا سفر طے کرکے ٹورانٹو سے لندن آنٹیریو تک آئے اور شمولیت کی۔ جس کیلئے میں ان کا شکریہ ادا نہیں کر پا رہی تھی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا تھا کہ ان کو اس رات سفر کرنا کتنا مشکل پڑا تھا۔ اورمجھے اپنے اصرار کرنے پر شرمندگی ہو رہی تھی۔

بہر حال تو بات ہو رہی تھی میری محبت کی مالہ بُننے کی۔ میرے پاس جتنے موتی تھے وہ میں نے پچھلے دو سال میں اکھٹے کیے تھے۔ میرے دل میں مزید تلاش کی خواہش پیدا ہوئی اور پھر مجھے اپنے شہر میں ایک اور ایک گیارہ بنانے والے، نامی گرامی درویش کا خیال آیا۔ کہ کیوں نا کچھ موتی ان سے طلب کروں۔ کیونکہ وہ چند دہائیوں سے شاہد اختر کو جانتے ہیں۔ یوں میں نے ڈاکٹر خالد سہیل کو فون کیا۔ انہیں شاہد اختر کیلئے محبت کا تحفہ تیار کرنے کے ارادے سے آگاہ کیا۔ پھر ہم نے ملکر شاہد اختر کے پیٹھ پیچھے خوب باتیں کیں۔

یقیناً اچھی باتیں۔

ہر بات میں مجھے نئے قیمتی موتی ملے۔ اور میں نے ان کیلئے ایک نظم لکھی۔

شاہد اختر صاحب پیشے کے لحاظ سے قانون دان یعنی وکیل رہے ہیں۔ اور پھر کینیڈا میں conflict resolution اور mediation services کے ساتھ ایک عرصہ تک وابستہ رہے ہیں ۔ اسی موضوع پر ایک کتاب،

“ The 7 Cs, compass for conflict resolution”

لکھی ہے۔ جس کا ذکر نظم میں آئے گا۔

شاہد اختر! آپ کو سالگرہ کی بہت مبارکباد اور ہماری دعا ہے کہ اسی طرح کے بیشمار دن ہم دوستوں کے ساتھ مناتے رہیں اور ہم آپ کو ریورس ایجنگ کی راہ پر گامزن دیکھتے رہیں ۔

“شیرین کا فرہاد” کے عنوان سے یہ نظم آپ کیلئے تحفہ:

شیرین کا فرہاد

ایک خوشگوار دن کے وقت سحر

کسی شیریں کا یوں شیریں سا اک پیام آیا

کہا کہ دوست!

سال کے سب دنوں میں بے مثال ایک وہ دن،

جب بھی آتا ہے تو پہلی سی خوشی لاتا ہے

ماہ دسمبر کا یخ بستہ سا وہ دن تھا کہ جو

ایک فرہاد کے اس دنیا میں آنے کی خبر لایا تھا

دن تو تھا سرد لیکن وہ فرہاد!

ایک گداز حرارت بھی ساتھ لایا تھا

وہ حرارت کہ جس کی نرم تمازت کے سبب

کبھی دن رات میرے سرد نہ رہے

تم بھی آ جاؤ کہ اس دن کی خوشی

میرے ہمدم بھی تو محسوس کریں

تم بھی آؤ کہ میں دکھلاؤں تمہیں

وقت کے ساتھ انسان کیسے جواں ہوتے ہیں۔

شہر میں خضر بھی ایک رہتا تھا

بڑی شہرت تھی کہ وہ

شہر کے سارے مکینوں کو خوب جانتا ہے

میں نے پوچھا کہ اے دانائے شہر!

کیا جانتے ہو تم اس شخص کو جو

کسی شیریں  کا فرہاد کہا جاتا ہے

وہ خوش لباس بھی ہے، اور خوش گفتار بھی ہے

سنا ہے یاروں کا وہ یار بھی ہے،

تبسم اس کے چہرے پر صدا ایسا  کہ جیسے

آ کر اک بار واپس لوٹ جانا بھول گیا  ہو

وہ دانائی میں افلاطوں کا کچھ لگتا ہے،

جو سمجھانے پہ وہ آئے

تو کچھ استاد سا بھی لگتا ہے

یہ بات سن کر میری ۔۔

درویش کے لبوں پہ تبسم کی لہر دوڑ گئی،

اسکی آنکھوں میں چمک سی جاگی

اپنے شانوں پہ پڑے گیسوؤں میں ہاتھ پھیرا

اور کچھ سوچ کر پھر یوں بولا

یہ سب نشانیاں لگتی ہیں ایک ہی فرد کی

وہ ایک شخص کہ جو

میرے گزرے کئی ادوار کا بھی شاہد ہے

اور دوستی کے فلک پر چمکتے تاروں میں

وہ ایک اختر ہے،

بجا کہا ہے کہ یاروں کا یار ہے وہ شخص،

اس کا دل بھی اور گھر اسکا

دونوں ہیں دوستی کا گہوارہ

وہ اسکے گھر کی اوپری منزل

اور حسین شامیں دوستوں کے سنگ

بہت سے لاجواب سوالوں کے

وہاں جواب بھی ملے ہیں ہمیں

نہ کوئی خوف نہ خطر

نہ مصلحت کی فکر

یہ وہ جگہ تھی جہاں

ہر ایک بات کی آزادی تھی

وہ ایسا شخص کہ محفل میں جسکی

دکھ بہت کم مگر سکھ بےمثال ہوتے ہیں

کئی الجھی ہوئی گتھیوں کو بھی سلجھاتا ہے

اور ضرورت ہو تو پھر،

سات سیز (7Cs) کی سیڑھی سے بھی چڑھاتا ہے،

اک فلسفی بھی چھپا ہے اس میں

گر چہ قانون کا ماہر ہے وہ شخص،

مگر شیریں  کے آگے وہ بے بس

وہی شیریں !

جو اس کے دل پہ راج کرتی ہے

اسکا گلزار محبت سجا کے رکھتی ہے

بہت دعا ہے جنم دن ہوں بیشمار ایسے

یوں ہی فرہاد ہو شیریں ہو اور بہار جیسے

Advertisements
julia rana solicitors

Happy happy birthday to our beloved Shahid Akhtar.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply