• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ’’دی فرنٹیئر پوسٹ ” گروپ – کچھ تلخ و شیریں یادیں(2)-حیدر جاوید سیّد

’’دی فرنٹیئر پوسٹ ” گروپ – کچھ تلخ و شیریں یادیں(2)-حیدر جاوید سیّد

یہ سال 1999ء کے ماہ مئی کے اوائل کی بات ہے مجھے مرحوم سید حبیب الرحمن صاحب کا ٹیلیفون موصول ہوا۔ حبیب الرحمن صاحب ایک طویل عرصہ تک روزنامہ “مشرق” پشاور کے چیف نیوز ایڈیٹر کے طور پر فرائض ادا کرتے رہے اب وہ “مشرق” سے الگ ہوکر “دی فرنٹیئر پوسٹ” گروپ کے زیر اہتمام اشاعت کا آغاز کرنے والے اردو روزنامہ “میدان” کے ایگزیکٹو ایڈیٹر تھے۔

ان کا ٹیلیفون موصول ہونے سے چند دن قبل مجھے “مشرق” پشاور کی انتظامیہ نے فراغت نامہ بھجوادیا تھا۔ بیروزگاری کے ان دنوں میں ہم برادر مکرم سید ناصر نقوی اور برادرم ضیاء اللہ مرزا کی قائم کردہ نیوزایجنسی “ایم ایل آئی” کے دفتر میں براجمان رہتے تھے۔

حبیب الرحمن صاحب بولے شاہ جی آپ پشاور کب آسکتے ہیں؟ عرض کیا ہفتہ بھر میں۔ انہوں نے کہا پھر ایسا ہے کہ ہم کل (اگلے روز) کے اخبار میں آپ کے روزنامہ “میدان” پشاور سے منسلک ہونے کا اعلان لگارہے ہیں آپ فرنٹیئر پوسٹ لاہور کے دفتر ڈیوس ہائٹس پہنچ کر جوائن کرلیجئے اور ہمیں اداریہ اور کالم بھیج دیجئے۔ حبیب صاحب اور ہم نے برسوں مشرق میں اکٹھے کام کیا تھا۔ این پی ٹی (نیشنل پریس ٹرسٹ) کے دور اور پھر نجکاری کے بعد بھی۔ اپنی ذات میں وہ اعلیٰ روایات کے امین تو تھے ہی ایک تقدم انہیں یہ حاصل تھا کہ وہ ہمارے استاد مکرم سید عالی رضوی محوم و مغفور (عالی صاحب تب حیات تھے اور مشرق سے الگ ہوکر ایڈیٹوریل ایڈیٹر کے طور پر روزنامہ جنگ سے منسلک ہوچکے تھے) کے قدیم دوستوں میں سے تھے۔

میں نے حبیب الرحمن صاحب سے مشورے کے لئے ایک دن مانگا تو وہ بولے مشورہ جس سے مرضی کیجئے شاہ جی لیکن کل ہمیں اداریہ اورکالم بہرصورت بھجوا دیں۔

ان کے اس ٹیلیفون کے کچھ دیر بعد ہی استاد محترم سید عالی رضوی صاحب کا فون آگیا، کہنے لگا “میں کیا ذاکر اہل بیت صاحب، حبیب الرحمن دا فون آیا سی؟ جی آیا تھا کچھ دیر پہلے، میں نے عرض کیا۔ عالی صاحب بولے بس فیر ٹھیک اے توں کل فرنٹیئر پوسٹ دے دفتر جاکے “میدان” جوائن کرلے۔

برادر مکرم سید ناصر نقوی، ضیاء اللہ مرزا اور ریاض قریشی سمیت دوسرے دوستوں اور احباب کا مشورہ بھی یہی تھا کہ گھرآئی ملازمت قبول کرلینی چاہیے۔ ان مشوروں اور احکامات کو پلے باندھ کر گھر جانے کے لئے روانگی پکڑی۔

ان برسوں میں ہماری خاتون اول شیخوپورہ میں ایک ہائی سکول کی پرنسپل تھی قیام بھی وہیں شیخوپورہ میں تھا جبکہ خاتون دوئم اسٹیٹ بینک میں، اس لئے مشرق سے الگ ہونے کے بعد تلاش روزگار کے لئے ایک دن صبح شیخوپورہ سے لاہور جاتے اور اگلی شام میں واپسی ہوتی تھی۔

اس شام ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ حبیب الرحمن صاحب کا دوبارہ فون آگیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا فیصلہ کیا ہے، ہمیں کل اداریہ چاہیے۔ میں نے انہیں بتایا کہ استاد مکرم عالی صاحب نے بھی حکم نامہ جاری کردیا ہے انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ کہنے لگے کل جوائن کرلیجئے اور اتوار کو پشاور آجائیں باقی معاملات طے کرلیتے ہیں۔

پھر بولے شاہ جی آپ کے لاڈلوں کی فوج ظفر موج “میدان” میں جمع ہورہی ہے لاڈلوں سے ان کی مراد سہیل قلندر (اب مرحوم) سید امجد علی، سیدہ فرزانہ علی اور عقیل یوسفزئی تھے۔ “میدان” سے منسلک ہونے میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

اگلے دن فرنٹیئر پوسٹ گروپ جوائن کیا اور اداریہ و کالم پشاور بھجوا دیئے اس کے تین چار دن بعد پشاور پہنچا جہاں سیدی حبیب الرحمن صاحب اور رحمت شاہ آفریدی کے بڑے صاحبزادے محمود آفریدی منتظر تھے ان سے ملاقات میں تنخواہ اور دیگر معاملات و مراعات طے کیں۔

مزید یہ طے پایا کہ میں 15 دن پشاور اور 15 دن لاہور دفتر میں بیٹھوں گا ان برسوں کے حساب سے بہت معقول تنخواہ و مراعات تھیں قیام و طعام ادارے کے ذمے تھا اور سفری اخراجات بھی قیام کا بندوبست رحمت شاہ آفریدی کی قیام گاہ واقع آبدرہ روڈ کی انیکسی میں کیا گیا۔

پشاور دوبارہ منتقلی کے بعد حبیب الرحمن صاحب کے مشورے سے استاد مکرم اکرم شیخ صاحب کو بھی سی این ای کے طور پر پشاور بلالیا گیا۔

یاد پڑتا ہے کہ اس سے چند دن بعد میں نے شیخ صاحب اور حبیب الرحمن صاحب کے ہمراہ پشاور سے لاہور پہنچ کر ضلع کچہری میں رحمت شاہ آفریدی سے ملاقات کی جو جیل سے جوڈیشل ریمانڈ کے لئے عدالت لائے گئے تھے۔

رحمت شاہ آفریدی ان دنوں منشیات کیس میں گرفتار اور جیل میں تھے۔ “میدان” میں ابتدائی چند ماہ تو بہت اچھے گزرے پھر تنخواہوں اور دیگر معاملات کے حوالے سے لیت و لعل شروع ہوگئی جو ابتدائی چند ماہ بہت اچھے گزرے ان میں ہم نے “میدان” اور قارئین میں براہ راست رابطے کے لئے چترال سے ڈیرہ اسماعیل خان تک بھرپور رابطہ مہم چلائی۔

رحمت شاہ آفریدی کے ایک صاحبزادے جلیل آفریدی اور میں اس مہم میں قریہ قریہ گھومے، صحافیوں، سماجی و سیاسی کارکنوں اور مختلف الخیال شہریوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اس رابطہ مہم کی بدولت “میدان” کے لئے صوبہ بھر میں قارئین کا ایک وسیع حلقہ پیدا ہوگیا۔

اس کی ایک اور وجہ یہ بھی رہی کہ “میدان” میں 95 فیصد وہی لوگ تھے جو قبل ازیں برسوں تک “مشرق” سے منسلک رہے اس حوالے سے قارئین میں اپنا حلقہ بھی رکھتے تھے۔

ادارتی پالیسی میں کامل آزادی تھی اس آزادی کی وجہ سے کچھ مشکلات بھی آئیں لیکن دوستوں نے تعاون بھی بہت کیا۔

یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے “میدان” سے منسلک رہنے کے دنوں کے دو واقعات بڑے دلچسپ ہیں ایک تو یہ کہ حبیب الرحمن صاحب اور بعد میں ان کی دوسری اہلیہ بننے والی رفعت تاجک کے علاوہ باقی جتنے بالخصوص لاڈلہ گروپ کے دوستوں کے مشرق سے الگ ہوکر میدان سے منسلک ہونے کا نزلہ مجھ پر گرا۔

کہا گیا کہ اس چوکڑی (سید امجد علی، سیدہ فرزانہ علی، سہیل قلندر اور عقیل یوسفزئی) پر اخلاقی دباؤڈال کر میں انہیں مشرق سے میدان میں لے گیا ہوں۔

دوسرا واقعہ سید امجد علی اور سیدہ فرزانہ علی کے سنجوگ (شادی) کا ہے یہ بھی اپنی جگہ ایک دلچسپ داستان ہے (حبیب الرحمن صاحب کی رفعت تاجک سے شادی بھی انہی دنوں ہوئی یہ داستان پھر سہی)۔

ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ابتدائی چند ماہ بہت اچھے گزرے انتظامیہ اور کارکنوں کے درمیان طے شدہ معاملات پر عمل ہوا پھر لنگر کی کھاؤ اور لائن میں سوجاؤ والی کہانی شروع ہوگئی۔

نوبت یہ آگئی کہ قیام پشاور کے اس عرصے میں اخراجات کے لئے پیسے گھر سے منگوانا پڑتے تھے یا دوستوں سے مدد لی جاتی بسا اوقات تو دن بھر میں ایک چائے نصیب نہ ہوپاتی۔

میں نے تو اس کا حل یہ نکال لیا کہ روزانہ دوپہر کے وقت بھائی جان سید منظر نقوی کے پشاور صدر میں واقع دفتر (اٹلس انشورنس) چلا جاتا اور کھانا کھالیتا۔ شام کے کھانے کے لئے پیسے ہوتے تو کھا لیتا ورنہ اگلی دوپہر کا انتظار کرتا۔

رحمت شاہ آفریدی کی انیکسی میں قیام کے ابتدائی مہینوں میں صبح ناشتہ اور رات کا کھانا ان کے گھر سے آتا تھا چند ماہ بعد یہ سلسلہ بند کردیا گیا۔

ابتداً دفتر آنے جانے کی سہولت دی گئی پھر یہ بھی بند ہوگئی۔ کبھی کبھی کسی نہ کسی طرح لاہور پہنچ کر رحمت شاہ آفریدی سے کچہری میں ان کی پیشی پر ملاقات کرتے انہیں داستان رنج و الم سے آگاہ کرتے تو جواب ملتا بس چند دن صبر کیجئے حالات سدھرنے والے ہیں۔

ہمارے حالات کیا سدھرتے اکتوبر 1999ء میں نوازشریف حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض ہوگئے۔ حکومت تبدیل ہوتے ہی رحمت شاہ آفریدی کی رہائی کی امید بندھ گئی۔

عمومی سوچ یہ تھی کہ چونکہ منشیات والا مقدمہ سوفیصد جھوٹا ہے اسی لئے ختم ہوجائے گا۔ چند دوست سمجھتے تھے کہ یہ مقدمہ کسی فرد واحد سے جھگڑے کا نتیجہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا “ثمر” ہے اس لئے حکومت کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہوگا۔

اس کسمپرسی کے عالم میں بہت سارے دوست ادارے سے الگ ہونا شروع ہوگئے۔ میرے اور شیخ صاحب کے لئے اہم مسئلہ یہ تھا کہ چند ماہ کا حق خدمت چھوڑ کر کیسے واپس لاہور جائیں۔

ادھر مالکان کا جبرواستحصال بڑھتا جارہا تھا اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ پہلے مرحلے میں ناشتہ اور کھانا فراہم کرنے کا سلسلہ بند ہوا پھر ہماری قیام گاہ انیکسی کا ایئرکنڈیشن بند کردیا گیا۔ پشاور کی گرمی میں گرمیوں کے دن “تندور” میں کیسے بسر ہوتے ہیں اس کا تلخ تجربہ ہوا۔

اسی اثناء میں ہمارے ایک برادر عزیز سید شاہد عباس بخاری نے جو ایک اہم ادارے میں پشاور کے منتظم اعلیٰ تھے اور ڈی جی پی آر جناب سید مہدی حسین نے صحافتی دنیا کے پرانے رفیق، مرحوم جناب عبدالواحد یوسفی روزنامہ “آج” پشاور کے بانی و چیف ایڈیٹر سے ملاقات کا اہتمام کیا۔

ہمارے معروف گورکھا کمانڈر آصف قیوم پہلے ہی “آج” میں جنرل منیجر کے طور پر موجود تھے اور شبیر حسین امام بھی “آج” میں ہی جلوہ افروز۔

جون 2000ء میں میرے معاملات روزنامہ “آج” پشاور سے طے پاگئے۔ یوسفی صاحب نے وضعداری کا مظاہرہ کیا حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

سال بھر سے اوپر میدان کی رفاقت تمام ہوئی۔ رحمت شاہ آفریدی نے جیل سے ٹیلیفون پر طویل شکوہ کیا جواباً انہیں اس ساری صورتحال سے آگاہ کیا جس کی وجہ سے ایک ایک کرکے دوست “میدان” سے الگ ہوتے چلے گئے۔ وہ خود جیل میں تھے صرف سن ہی سکتے تھے، ادارے کے معاملات ان کے بچوں کے پاس تھے وہ کسی کی بات سننے پر تیار نہیں تھے نہ اس پر پریشان تھے کہ حالات میں بہتری نہ آئی تو “میدان” کی اشاعت معطل ہوجائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی دوران “دی فرنٹیئر پوسٹ” میں لیٹر ٹو ایڈیٹر کے کالموں میں شائع ہونے والے ایک خط کی وجہ سے ادارے کے خلاف توہین مقدسات کا ہنگامہ اٹھوادیا گیا۔ بلوائیوں نے دفتر اور پریس جلاکر راکھ کردیا۔ اس متنازعہ خط کی اشاعت اور پیدا ہونے والے تنازع و ہنگامے اور جلاؤ  گھیراؤ کے پیچھے ایک سے زائد کہانیاں تھیں۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply