مقبرہ نواب میاں خان/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

میں ہمیشہ سے لاہور کو عمرو عیار کی اس زنبیل سے تشبیہہ دیتا آیا ہوں، جس میں وہ سب کچھ موجود ہوتا تھا جو اسے چاہیئے ہوتا۔ یہی حال اس شہر کا ہے جس میں ایک آوارہ گرد کے لیئے وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو اسے اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ جب بھی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اب میں نے لاہور دیکھ لیا، یہ شہر ایک نئے زاویئے سے اپنے در آپ پر وا کر دیتا ہے اور آپ محوِ حیرت رہ جاتے ہیں کہ اس ملنگ کی گڈری میں کتنے بیش قیمت لعل چھپے ہیں۔
آج میں یہاں ایک ایسی ہی جگہ کا ذکر کروں گا جو برسوں بعد میرے سامنے آئی ہے۔ لاہور کی اس تاریخی جگہ کا نام ”مقبرہ نواب میاں خان” ہے جو سنگھ پورہ لاہور کے علاقے بھوگیوال میں جی ٹی روڈ پر کسی لُٹی ہوئی بیوہ کی طرح ماتم کناں نظر آتا ہے۔

چلیں اس کی تاریخ کے بخیئے اُدھیڑتے ہیں۔۔۔۔

شاہ عالمی کے ساتھ رنگ محل لاہور میں ایک خوبصورت حویلی واقع ہے جس کا نام حویلی میاں خان ہے۔ بہت سے لوگوں نے یہ حویلی دیکھ رکھی ہو گی جو والڈ سٹی کے اندر واقع ہے۔ یہ مقبرہ انہی نواب صاحب کا ہے ۔
نواب میاں خان ، نواب سعد اُللہ خان کے فرزند تھے جو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں وزیرِ اعظم رہ چکے ہیں۔ نواب سعد اللہ خان جنہیں میاں سعد اللہ بھی کہا جاتا تھا، چنیوٹ کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مذہب سے لگاؤ اور تعلیم کی جستجو انہیں لاہور کھینچ لائی جہاں انہوں نے مسجد وزیر خان کے ساتھ واقع مدرسے میں داخلہ لیا اور وہیں ایک کمرے میں رہنے لگے۔ کچھ عرصے کے بعد یہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنی ذہانت اور حاظر جوابی کی بدولت شاہجہاں کے دربار تک راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔ شاہجہاں، جو پہلے ہی قابل اور ذہین دماغوں کی تلاش میں رہتا تھا، نے انہیں ایوانِ عدل میں نوکری عنایت کردی ۔
یہاں میاں سعد اُللہ خان کی ایمانداری اور مخلص طبیعت نے شہنشاہ کو اتنا متاثر کیا کہ شہنشاہ کی طرف سے انہیں ” جُملتہُ المُلک” کا خطاب دیا گیا اور اسی کے ساتھ شاہجہاں نے خان صاحب کو لاہور میں اپنا وزیرِ اعظم بنا کہ بھیج دیا۔ اپنے دور میں سعد اللہ خان نے لاہور اور چنیوٹ میں بہت سی تعمیرات کروائیں جو ان کے اعلیٰ ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ان میں چنیوٹ کی شاہی مسجد ، رنگ محل کی حویلی میاں خان اور لاہور کی پتھراں والی حویلی شامل ہیں۔
نواب میاں خان نے شروع دن سے اپنے باپ کو ایک آئیڈیل مان کے انکی پیروی کی اور آگے چل کر انہی کی طرح اپنی ایمانداری اور شرافت کا سکہ جمایا۔ اِنہی خصوصیات کی بدولت آپ کی مشہوری میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور آپ مغل شہنشاہ اورنگزیب کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔ نواب میاں خان کو اورنگزیب کے دور میں لاہور کا گورنر تعینات کر دیا گیا۔ اپنے والد کی طرح آپ بھی مرتے دم تک مغلیہ سلطنت کے وفادار رہے۔ 1671 میں اورنگزیب کے دور میں آپ کی وفات کی بعد سنگھ پورہ کے اس مقام پر آپ کو دفن کیا گیا۔
آپ کے رُتبے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہاں ایک عظیم الشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا جس پر ہزاروں روپے پانی کی طرح بہائے گئے۔ چونکہ آپ کا تعلق چنیوٹ سے تھا، جو خوبصورت بناوٹی کام اور کالے پتھر کے لیئے مشہور ہے، اس لیئے آپ کے مقبرے کےلیئے شہرِ چناب سے کالا پتھر منگوایا گیا۔
عمارت کی بات کریں تو اس کے بنیادی چوکور چبوترے میں بھاری بھرکم کالا پتھر استعمال ہوا ہے جس سے اس کی مضبوطی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس چبوترے کے اوپر درمیان میں ایک اور چھوٹا چبوترا ہے جس پر ایک خوبصورت بارہ دری تعمیر کی گئی ہے جس کے چہار جانب تین تین محرابیں ہیں۔ اس خطے میں موجود دیگر بارہ دریوں کی نسبت یہ والی قدرے چھوٹی ہے۔ بارہ دری کے وسط میں تقریباً 6 انچ کا ایک اور چبوترہ ہے جس پر ایک زمانے میں سنگِ مرمر سے بنی میاں خان صاحب کی قبر موجود تھی جسے رنجیت سنگھ کے کمانڈر اور رام نگر کے راجہ، راجہ سُچیت سنگھ نے ملیامیٹ کر دیا۔ آج صرف بارہ دری کےاندر کا چبوترہ ہی باقی بچا ہے۔
چھت کے کناروں پر نفاست سے گُل بوٹے بنائے گئے تھے جو ان دنوں ایک مہنگا کام تصور کیا جاتا تھا۔ چھت کے اوپر بھی چاروں طرف چھوٹے چھوٹے چبوترے بنائے گئے ہیں۔ اس دور کے مقبروں کی طرح اس مقبرے کے گرد بھی ایک خوبصورت باغ تھا جس میں فوارے لگائے گئے تھے۔ باغ کا نقشہ دوسری مغلیہ عمارتوں کے طرز پر بنایا گیا تھا۔
بارہ دری اتنی مضبوط تھی کہ آج تک اس کے ابھار اور محرابوں و ستونوں کے خم دیکھے جا سکتے ہیں۔ چھت کے اندرونی حصے کا پلستر اکھڑ چکا ہے اور ولاٸی میں لگی ہوٸی گنبد کی اینٹیں واضح نظر آتی ہیں۔ دیواروں میں طاقچے بھی بنے ہیں جن کو شاید جلتے چراغ کالا کر گٸے ہیں۔
سِکھ دور میں یہاں کا سنگِ مرمر اور دیگر قیمتی پتھر اکھاڑ لیئے گئے ۔ خشت فروشانِ شہر نے بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالا اور اسکی اینٹیں نکلا کر بیچ دی گئیں یہاں تک کہ کنہیا لال (مؤرخ) کے بقول یہ خشت فروش لکھ پتی بن گئے جن میں زیادہ تعداد کشمیر سے آئے لوگوں کی تھی ۔ پھر کچھ عرصے کے لیئے یہ شیخ امام الدین کے قبضے میں آیا جنہوں نے رہی سہی کثر بھی پوری کر دی۔ جناب نے مرکزی چبوترے کے کالے پتھر پر دن دیہاڑے ڈاکہ مارا اور اسے اپنی حویلی میں استعمال کیا۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ تاریخی عمارتوں کی آبرو ریزی میں مسلمان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
سِکھ دور میں یہ عمارت ایک کھنڈر بن چکی تھی جس کا کوئی ولی وارث نہ تھا۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر راجہ سُچیت سنگھ نے اس پر قبضہ جما لیا تھا۔ اس نے اسکی دیواروں کو تعمیر کروا کہ یہاں ایک باغ لگوایا جو اسکے مرنے تک ” باغ راجہ سُچیت سنگھ” کہلاتا تھا۔ اس دور میں اس جگہ کی اہمیت اور بڑھ گئی۔
انگریز سرکار نے اپنے تئیں اس بے کار جگہ کی بولی لگوائی اور نواب علی رضا خان قزلباش نے اسے 2200 روپے سکہ رائج الوقت میں خرید لیا۔
تب سے اب تک اس مقبرے نے بہت سی تبدیلیاں دیکھی ہیں جن میں راجہ سُچیت سنگھ کی گئی کچھ نئی تعمیرات اور نواب علی رضا کی مُرمت شامل ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ جگہ کوئی بہت بڑا سیاحتی مرکز نہیں ہے نہ ہی حکومت نے اس پر کوئی توجہ کی ہے لیکن تاریخ کے متوالوں اور جہاں گردوں کے لیئے اس جگہ میں بہت کشش ہے۔ آج بھی جب آپ یہاں جائیں تو خاموشی اور ویرانی آپ کا استقبال کرتی ہے۔ اگرچہ قریبی گراؤنڈ میں بچے بالے ذوق وشوق سے کھیل رہے ہوتے ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ کسی کو بھی خود کی طرف متوجہ نہ پا کر تنہائی کی ماری یہ عمارت روتی ضرور ہو گی اور اس کے آنسو۔۔۔۔
وہ  تو ہم جیسوں کے دل پر ہی گرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply