شیزوفرینیا (schizophrenia)-زاہد آرائیں

انگریزی میں شیزوفرینیا کا مفہوم شخصیت کے منقسم ہوجانے کا ہے۔
یہ ایک نفسیاتی (psychotic) مرض ہے جو ہوش یا شعور (consciousness) کی حالت میں ہونے والے وہم (delusion) اور خطائے حس (hallucination) کی وجہ سے ہونے والے ذہنی امراض میں اہم حیثیت رکھتا ہے۔ شیزوفرینیا ایک ناکارہ کردینے والی ذہنی کیفیت ہے۔ دس یا بیس سال کی عمر میں بھی ہو جانے والا یہ مرض خاندان والوں اور دوست احباب کے ليے ایک انتہائی سراسیمہ کردینے والی صورت حال ہوتی ہے جب مریض کا رویہ تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے اس کو ناموجود سنائی یا دکھائی دینے لگتے ہیں، وہم اس کے لیے حقیقت بنتا چلاجاتا ہے اور اس کی گفتگو میں اضطرابی اور بے ترتیبی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر مریض کو معاشرے سے الگ تھلگ کردیتے ہیں اور اس کے ليے دوسروں سے رشتہ قائم رکھنا دشوار ہوتا چلا جاتا ہے، مریض کيليے حقیقی اور خیالی دنیا میں تفرق کرنا مشکل یا ناممکن ہوجاتا ہے، وہ منطقی انداز میں سوچ بچار اور تجزیہ نہیں کرپاتا۔ اس کے اندر کی دنیا اس کے باہر موجود دنیا پر حاوی رہتی ہے اور اسی وجہ سے وہ معمول کے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرپاتا اور اپنے اردگرد کی صورت حال اور معاشرے کے بارے میں اس کا رویہ معمول کے مطابق نہیں رہتا اور یوں روز بروز وہ معاشرے سے الگ تھلگ ہوتا چلا جاتا ہے، ان کیفیات کو withdrawal symptoms کہا جاتا ہے۔

شیزوفرینیا ایک دماغی مرض ہے جو دماغ کے نیورو ٹرانسمیٹرز میں توازن برقرار نہ رہنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
شیزوفرینیا کا حامل شخص، غیر موجود کو دیکھ سکتا ہے، کوئی بات نا کر رہا ہو تب بھی آوازوں کو سن سکتا ہے جو اس سے گفتگو بھی کرسکتی ہیں۔ یہ تمام علامات اصل میں دماغی فریب (hallucinations) اور ہذیان میں شمار کی جاتی ہیں۔

اگر آواز دلچسپ ہو تو وہ اس پر ہنس سکتا ہے (جسے عام لوگ بلاوجہ کی ہنسی سمجھتے ہیں)، وہ آوازوں سے بات کر سکتا ہے۔ اور آوازیں اسے خوفزدہ اور پریشان بھی کرسکتی ہیں۔
شیزوفرینیا کے حامل شخص کی حقیقت اور اس کی آگہی عام لوگوں کی حقیقی زندگی سے بالکل مختلف ہوتی ہے، یعنی عام لوگوں کيليے جو بات خیالی اور تصوراتی ہو وہ شیزوفرینیا کے مریض کيليے بالکل حقیقت ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ حقیقی دنیا اور خیالی دنیا کے مابین فرق پیدا کرنے والی حد کا ختم ہوجانا ہوتی ہے۔
اور حقیقی دنیا اور خیالی دنیا کی اس حد فاصل کے ختم ہوجانے سے اس شخص کی حقیقی دنیا وہی ہوتی ہے جو آوازوں اور نظاروں میں اس کو جکڑے ہوتی ہے، اسی بے شکل اور غیر حقیقی دنیا میں رہنے کی وجہ سے اکثر اس کا رویہ عام انسانوں کيليے انتہائی عجیب اور ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔
شیزوفرینیا میں مبتلا شخصیت کا مرض اگر شدت پر ہو تو عام لوگ اسے پاگل ہی سمجھ سکتے ہیں۔

گو یہ مرض ابتدائی طور پر تو ادراک کو ہی متاثر کرتا ہے مگر اس ادراک کے متاثر ہوجانے کی وجہ سے پھر آہستہ آہستہ رویئے اور جذبات کے قدرتی انداز بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ اس بیماری میں متبلا مریض کی کیفیات اس قدر متنوع اور بعض اوقات قطعی طور پر ایک دوسرے سے جداگانہ انداز میں سامنے آتی ہیں کہ اس کو ایک مرض نہیں بلکہ امراض کا ایک مجموعہ کہنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ اور اسی وجہ سے Eugen Bleuler نے جب شیزوفرینیا کی اصطلاح استعمال کی تھی تو اس نے اس کو جان بوجھ کر schizophrenias یعنی جمع کے صیغے میں استعمال کیا تھا۔

اس مرض نام کے بارے میں ایک وضاحت یہاں لازم ہے کہ گو اس کو شیزوفرینیا کہا جاتا ہے جس کا مطلب دونوں زبانوں میں بٹ جانے کا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود یہ مرض، تفریق شناختی اضطرابات (dissociative identity disorders) میں شامل مرض نہیں ہے، جسے عام زبان میں دہری شخصیت یا بٹی ہوئی شخصیت (split personality) بھی کہا جاتا ہے۔
تحقیقات کے مطابق شیزوفرینیا کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوا کرتی، اس میں وراثی کیفیات، بچپن میں گھر اور ماحول کی کیفیات (اضطرابی یا پرسکون) اور عزیزوں کا آپس میں رویہ سب شامل ہیں۔

ترقی پذیر ممالک میں تعلیم کی کمی اور غربت کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا افراد کا حال بہت برا اور اکثر قابل افسوس حد تک خراب ہوتا دیکھا گیا ہے۔ جب یہ مرض اپنی شروعات کرتا ہے تو عمومی طور پر نہ تو مریض کو خود اور نہ ہی اس کے خاندان کے افراد کو احساس ہوتا ہے کہ مریض کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، وہ اکثر اسے کوئی ذہنی پریشانی سمجھتے ہیں اور یا پھر اس مریض پر بیجا تنبیہہ وغیرہ شروع ہوجاتی ہے مگر مسئلہ ہوتا ہے کہ ہاتھ سے نکلتا ہی چلا جاتا ہے نا تو وہ مریض سمجھائے سمجھتا ہے نہ ہی عزیز اس کی حالت کو عرصہ تک سمجھ پاتے ہیں۔ بالاخر جب مریض بہت ہی زیادہ قابو سے باہر ہوتا محسوس ہوتا ہے تو پھر کسی کلینک وغیرہ سے رجوع کیا جاتا ہے اور خاصہ وقت یہاں سے اصل سائیکاٹرسٹ تک پہنچتے پہنچتے لگ جاتا ہے۔

جن افراد میں یہ مرض تشخیص ہو جاتا ہے ان میں اس کے ساتھ ساتھ موجود دیگر نفسیاتی مسائل بھی پائے جاتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ مریض کسی ایک قسم کے نشے میں مبتلاء بھی ہو، بعض اوقات تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مریض اگر کوئی نشہ آور دوا نہیں بھی لیتا تو کسی عام طور پر دستیاب دوا کا ہی متواتر استعمال کر رہا ہوتا ہے جیسے کہ یہی اس کے ليے نشہ ہو۔ یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ تمام ترقی پزیر ممالک میں وہ تمام ادویات باآسانی خریدی جاسکتی ہیں جو ایک طبیب کے نسخے کے بغیر بیچنا اور خریدنا قانونی طور پر منع ہوتا ہے۔ اگر گھر کا ماحول پرسکون اور مثبت ہو تو بہت حد تک مرض کی شدت میں کمی آتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں بھی یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ترقی پزیر ممالک کے اکثر گھرانوں میں ایسا پرسکون ماحول لانا ناممکن ہی ہوتا ہے اور مریض کی کیفیات کی وجہ سے گھر کے ماحول میں مزید تلخی ہی پیدا ہوتی ہے جو تعلیم کی کمی سے براہ راست تعلق رکھتی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو شائد وہ مریض اس مرض کے حملے میں آتا ہی نہیں کیونکہ اس کی وراثی وجوہات کے ساتھ ساتھ اسی دیگر اہم وجوہات میں ماحول اور گھر کے حالات کا مثبت نا ہونا اور خود گھر کے افراد کا پریشان کن اور کسی حد تک نفسیاتی مشکلات میں شکار رہنا بھی شامل ہیں۔

شیزوفرینیا اکثر ہی ایک ناتواں (debilitating) اور طویل مدتی (chronic) مرض ثابت ہوتا ہے جو تقریباً 1 فیصد افراد کو متاثر کرتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اپنی زندگی میں 100 میں سے ایک شخص پر اس کا حملہ متوقع ہوتا ہے۔

شیزوفرینیا کے مرض میں پیدا ہونے والی علامات (symptoms) کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، مثبت علامات اور منفی علامات۔
مثبت علامات (positive symptoms) ؛

انکو psychosis میں شامل کیا جاتا ہے اور یہ مندرجہ ذیل ہوسکتی ہیں
* اوہام (delusion) ؛ یعنی ایک ایسا اعتقاد یا وھم کہ جو اس کے غلط ہونے کی صاف اور کھلی نشانیوں اور وضاحتوں کے باوجود برقرار رہتا ہے۔
* سمعی خطائے حس (auditory hallucinations) ؛ سمعی خطائے حس یعنی آوازیں آنا، اصل میں یہ خطائے حس کی سب سے عام شکل ہوتی ہے۔
* اضطراب خیال (thought disorder) ؛ افکار و خیالات میں ایک ہنگامہ برپا رہنا، اسی ليے بعض اوقات اسے racing thoughts بھی کہا جاتا ہے۔

*منفی علامات (negative symptoms) ؛
*انکو مندرجہ ذیل علامات کی شکل میں دیکھا گیا ہے
* خاموش یا سپاٹ تاثر (affect) ؛ تاثرات یعنی کسی خیال سے متعلق جذبات کا اظہار بے حس ہوجاتا ہے اور عمومی طور پر خوشی یا غم کے تاثرات کا اظہار معمول کے مطابق نہیں رہتا۔
* فقدان گفتار (poverty of speach) ؛ الفاظ کی ادائیگی، انکا تسلسل، ان میں پیش کردہ خیال اور ان کے ليے آواز، ان میں سے ایک چند یا تمام متاثر ہوسکتے ہیں۔
* عدمِ تحریک (loss of motivation) ؛ متاثرہ فرد میں کسی کام میں دلچسپی باقی نہیں رہتی، اپنی صحت کو برقرار رکھنے یا اس پر توجہ دینے جیسے معاملات نظر انداز کرتا ہے اور عموماً اپنی حالت میں

کسی تبدیلی کے امکانات کے بارے میں اپنا ادراک کھو دیتا ہے۔

مثبت علامات کو مثبت اس ليے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ علامات ہوتی ہیں جو مرض کی وجہ سے اضافی پیدا ہوتی ہیں ایک طرح سے اضافہ ہوتی ہیں اور psychosis کا حصہ ہوتی ہیں۔ منفی علامات کو منفی اس ليے کہا جاتا ہے کہ یہ مرض کی وجہ سے غائب ہوجاتی ہیں یا ان کی کمی (منفی) ہو جاتی ہے۔
مندرجہ بالا علامات کے ساتھ ہی شیزوفرینیا میں درج ذیل کیفیات بھی پائی جاتی ہیں۔
لامنظم متلازمہ (disorganization syndrome) ؛

یہ ایک خاصہ پیچیدہ موضوع ہے یہاں اتنا کہیں گے کہ یہ اصل میں شیزوفرینیا کے مرض میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں mental dissociation اور فکری اضطرابات شامل ہیں۔

عصبی ادراکی کمی (neurocognitive deficits) ؛

اس میں ہونے والی ادراک کی کمی دماغ میں موجود عصبی شراکوں سے بہت قریبی تعلق رکھتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

شیزوفرینیا ابھی تک ایک معماتی مرض ہے اور اس کی وجوہات گو خاصی حد تک معلوم کرلی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود ایک ماہر سپیشلسٹ بھی اس کے اسباب کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق شیزوفرینیا کو ایک ایسی بیماری کہا جاتا ہے جو وراثی (genetic) اور مختلف ماحولیاتی عوامل کے سبب پیدا ہونے والے neural disconnection کی وجہ سے نمودار ہوتی ہے۔ دماغی scan اور histology کے مطالعے پر اکثر دماغی ventricule اور دیگر مقامات پر نقص بھی شناخت کیے جاسکتے ہیں۔ شیزوفرینیا کو کوئی ایک بیماری نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ جس طرح سرطان میں مختلف قسم کی بیماریاں شامل ہوتی ہیں اسی طرح شیزوفرینیا بھی کئی اقسام کی دماغی کیفیات کا ایک مجموعہ ہے۔ اکثر متاثرہ افراد میں اس کی کیفیت دائمی (chronic) اور نوبتی (episodic) ہوتی ہے۔ آج کل زیادہ تر ڈاکٹر اور ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دماغی مرض اصل میں مختلف عوامل کی وجہ سے نمودار ہوتا ہے اس میں دماغ کی مختلف کمزوریاں (جو وراثتی بھی ہوسکتی ہیں اور محصولی بھی) اور غیر پرسکون معمول حیات، دونوں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply