سونے کی مرغی حلال مت کریں /اعجاز اعوان

آپ نے وہ کہانی تو کئی مرتبہ پڑھی اور سُنی ہو گی جس میں ایک شخص کی مرغی سونے کا انڈا دیتی تھی اس نے زیادہ انڈوں کے لالچ میں وہ مرغی ذبح کر ڈالی تھی مگر اسے سونے کے انڈے نہ مل سکے ۔کچھ ایسی ہی صورتحال پی آئی اے کے ساتھ ہے ۔
اب حکومت بھی صرف دو اثاثے فروخت کرنے کی اجازت دے دے تو پی آئی اے کے نا صرف یہ کہ سارے قرضے اُتر جائیں گے بلکہ دیگر کھربوں روپے مالیت کے اثاثے ، پاکستان سمیت دیگر دنیا میں موجود پلازے ، جائیدادیں ، اکیڈیمیز اور جہاز بچ سکتے ہیں ، مگر حکومت یہ دو اثاثے فروخت کرنے کی بجائے پوری پی آئی اے فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہ دو اثاثے ڈیڑھ ارب ڈالر کی مالیت رکھتے ہیں، جبکہ پوری پی آئی اے چھ ارب ڈالر مالیت کی ورتھ رکھتی ہے ۔ کیا حکومت پاکستان پی آئی اے کو فروخت کر کے چھ ارب ڈالر وصول کر سکے گی ؟ شاید کبھی نہیں!

یہ باتیں برادرم اطہر حسن اعوان نے کھیوڑہ وادی سون میں گپ شپ کے دوران کہیں ۔ جو پی آئی اے کے ترجمان اور پبلک ریلیشن آفیسر ہیں ۔ ان کا کہنا تھا تھا کہ پی آئی اے ایک شاندارماضی رکھتی ہے ، یہ وہ ایئر لائن ہے جس نے صفر سے اپنا سفر شروع کیا ،1954ء میں پی آئی اے جب شروع کی گئی تو اس کے پاس کچھ نہیں تھا ۔ عملے کیلئے ایسے شاندار تربیتی ادارے بنائے کہ کئی دیگر ممالک کا عملہ تربیت کیلئے ان اداروں میں آتا رہا ۔ حتیٰ کہ پاکستان میں سب سے پہلے پولٹری فارمنگ کا نظام  پہلی مرتبہ پی آئی اے نے متعارف کروایا ۔

اس وقت پی آئی اے انٹرنیشنل روٹس کے ساتھ ساتھ پاکستا ن کے اندر بھی آپریشنل ہے ۔ پی آئی اے کے پاس دنیا کے تقریباً ہر ملک میں لینڈنگ رائٹس موجود ہیں جو پاکستان کی کسی دیگر ایئر لائن کے پاس نہیں ہیں ۔ اس وقت پی آئی اے کے پاس ساڑھے تین ہزار ملازمین کا سٹاف موجود ہے، جو معیار سے کچھ ہی زیادہ ہیں مگر بہت زیادہ نہیں ہے ۔اگر پی آئی اے کے سر سے قرضوں کا بوجھ اُتر جائے اور پی آئی اے کو پروفیشنل انداز میں چلانے کی آزادی مل جائے تو پی آئی اے اپنا کھویا ہوا مقام بہت جلد واپس حاصل کر سکتی ہے ۔

میرا کہنا تھا کہ اگر کئی ہمسایہ ممالک کی ایئر لائنز ترقی کر سکتی ہیں توپی آئی اے کیوں ایسا نہیں کر سکتی ؟۔ اگر حکومت پی آئی اے کی تھوڑی سی حوصلہ افزائی کرے تو ایسا ممکن ہے ۔ عجب ہے کہ ایک ہوٹل کی فروخت کی خبر آ جائے تو سارا پاکستان آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے جبکہ پوری پی آئی اے کی فروخت اور نجکاری پر یہی پاکستانی خاموش ہیں ۔ میری اپنی رائے بھی یہی ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کرنے کی بجائے چند ایک اثاثے فروخت کرنے کی اجازت دی جائے ۔

اطہر حسن کا کہنا تھا کہ اگر ہم پی آئی اے سے پہلے پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی تاریخ دیکھ لیں تو پتا چلتا ہے کہ نجکاری سراسر گھاٹے کا سودا ہے ۔ پی ٹی سی ایل ایک سال میں جتنا منافع کما رہی تھی اس سے کہیں کم رقم میں یہ فروخت کر دی گئی ۔ پھر جو پیسے ملے وہ بھی حکومت نے اسی کمپنی کو واپس دے دیئے ۔ اب اگر پی آئی اے کی نجکاری کرنا مقصود ہے تو چھ ارب ڈالر میں بیچ دیجئے لیکن میرا نہیں خیال کہ کوئی کمپنی پی آئی اے کو اتنے پیسوں میں خرید سکے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پی آئی اے کے مقابلے میں اس وقت پاکستان کے اندر اور پاکستان سے دبئی امارات تک کئی ایئر لائنز اپنی فلائٹس چلا رہی ہیں اگر پی آئی اے نہ ہو تو یہ فضائی کمپنیاں موجودہ کرائے سے کئی گنا زیادہ کرایا وصول کریں گی ۔ گلگت ، سکردو کی فلائٹس تو بھول ہی جائیں ، نجی کمپنیاں تو ملتان سے لاہور یا بہاولپور سے ملتان تک فلائٹ بھی نہیں چلائیں گی ،کہ ان کے خیال میں یہ کوئی منافع بخش روٹ نہیں ہیں ۔ جیسے آج پاکستان ریلوے کئی ایسے روٹس پر بھی ٹرین چلا رہی ہے جس سے اس کو کوئی خاص منافع نہیں ملتا مگر عوام کی سہولت کیلئے یہ سروس جاری ہے ۔ اسی طرح پی آئی اے بھی محض عوام کی سہولت کیلئے کئی غیر منافع بخش روٹس پر جہاز چلا رہی ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ پی آئی اے جو کچھ بھی کما رہی ہے وہ قرضوں کے سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے ، فلائٹ آپریشن کیلئے مزید قرضہ لینا ایک مجبوری بن جاتا ہے ۔اب بہترین آپشن تو یہی ہے کہ پورے ادارے کو فروخت کرنے کی بجائے دو ہوٹل فروخت کر دیں ، اور پی آئی اے بچا لیں ۔ پی آئی اے کی فروخت ایک المیہ سے کم نہ ہو گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply