التجا برائے تحفظ فقط انسانی جان۔۔محمد سعید

ایک فیملی سرگودھا سے کراچی کے لئے بذریعہ ملت ایکسپریس براستہ فیصل آباد جا رہی تھی۔فیصل آباد ریلوے  سٹیشن پہ لالہ موسیٰ جنکشن سے آنے والی ٹرین کو پہلے سے موجود ٹرین کے ساتھ اٹیچ کر دیا جاتا ہے۔اس فیملی کی ایک خاتون اشیاء ضروریہ کے لئے پلیٹ فارم پر ٹرین سے اتری۔۔ابھی وہ خریداری کر ہی رہی تھی کہ شنٹنگ سٹاف نے دوسرے پلیٹ فارم پر کھڑی ہوئی ٹرین کے ساتھ اٹیچ کرنے کے لئے ٹرین چلا دی۔۔۔خاتون مسافر یہ سمجھی کہ ٹرین روانہ ہو گئی اور میں پیچھے رہ گئی۔اسی بدحواسی کے عالم میں اس نے چلتی ہوئی ٹرین پہ سوار ہونے کی کوشش کی۔گھبرائی ہوئی تو پہلے ہی تھی ،حواس باختہ خاتون اپنے توازن کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی اور ٹریک کے اندر جا گری۔۔عام طور پر خواتین کو ٹرین میں چڑھنے،اترنے کا تجربہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ناتجربہ کاری کے باعث تواتر کے ساتھ جان لیوا حادثات ہو رہے ہیں۔

لمحہ بھر کی غفلت،عجلت پسندی کے باعث ایک جواں سال خوبرو جیتا جاتا انسانی وجود خون میں لت پت لوتھڑوں کی شکل میں تقسیم ہو چکا تھا۔۔آپ خود چشمِ تصور میں اندازہ کر لیجیے کہ اس خاندان کے ذہنی انتشارکا کیا عالم ہوگا، جس نے کبھی خواب میں بھی ایسے خوفناک منظر  کا تصور نہیں کیا ہوگا۔یہ دلخراش منظر جس نے دیکھا ہو ،اس کے حلق سے فقط ایک نوالہ کئی کئی دن نیچے نہیں اترتا سکون سے سونا تو بہت دور کی بات ہے۔

بے حسی کے عالم میں ہم روایتی گھسا پٹا جملہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ جناب اس کی ایسی ہی موت لکھی تھی، سو اللہ کی مرضی۔تو مجھے عزیزان من آج کے جدید ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے دور میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی سے پہلو تہی یا دامن چھڑانے کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہے۔

ہماری ایک پسنجر کوچ بننے پہ کروڑوں روپے کا زرکثیر خرچ ہوتا ہے تو کیا ہم انسانی جان کے تحفظ کے لیے سکیورٹی کا بند و بست کرنے کے لئے محض چند لاکھ کا اضافہ برداشت نہیں کر سکتے؟
جس طرح دیگر ممالک میں یا ان کا تذکرہ بھی چھوڑیں آپ صرف میٹرو بس سروس کو ہی مدِ نظر رکھ کر ایک بہترین،محفوظ مسافر کوچ ڈیزائن نہیں کرسکتے۔میٹرو بس کا ڈرائیور اس وقت تک روانہ نہیں ہوتا جب تک کہ دروازے ہائیڈرالک پریشر کے تحت بند نہ ہو جائیں۔
دیگر ممالک میں بھی ٹرینز میں ایسا ہی نظام وضع کیا گیا ہے کہ مسافروں کے چڑھنے اور اُترنے کے لئے علیحدہ راستوں کے ساتھ ساتھ جب تک تمام مسافر سوار ہو جائیں ،اور  دروازے مکمل طور پر بند نہ  ہو جائیں، ٹرین روانہ نہیں ہوتی۔

ہر ہونے والے حادثے کا ذمہ دار براہ راست منسٹر ہی نہیں ہوتا بلکہ متعلقہ شعبے  کا مجاز افسر بھی شمار ہوتا ہے جس نے دیگر شعبہ جات کے ماہر انجینئر سے مل کر محفوظ ترین سفر کو ممکن بنانا ہوتا ہے۔یہ خیال میرے جیسے عام آدمی کے ذہن میں تو آرہا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اربوں روپے مالیت کی کوچز خریدتے یا بناتے وقت ماہرین اس اہم ترین سکیورٹی فیچر سے دامن بچا لیں۔اصل میں یہی بددیانتی اور خیانت ہے۔

یہ تو پھر ایک حادثے کی منظر کشی کی ہے،ہم تو آئے روز بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو،فقیروں کو اور کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والوں کو چلتی ہوئی گاڑی میں اترتے،چڑھتے ہوئے سرعام دیکھتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ وہی پرانا گھسا پٹا نظام ڈرائیور وسل دے گا،گارڈ صاحب سیٹی مار کر سبز جھنڈی لہرائیں  گے اور جدید دور میں قدیم زمانے کی چھکڑا ایکسپریس عازم ِ سفر ہوگی۔

ہمیں روایتی ناکارہ و فرسودہ نظام سے ہر صورت چھٹکارا پانا ہوگا، ضرورت صرف اور صرف احساس ذمہ داری کی ہے۔
ہم آج بھی گورا صاحب کے بھیک میں دیئے ہوئے پرانے نظام کو سینے سے لگا کر بلٹ ٹرین چلانے کے سہانے سپنے دیکھنے میں مصروف ہیں۔

آپ اندازہ کیجیے ہم آج کوٹری جنکشن،خانیوال ،وزیرآباد،اور شاہدرہ باغ جنکشن جیسے ریلوے اسٹیشنز پر اس قابل نہیں ہو سکے کہ یہاں سے ٹرین برق رفتاری سے گزر سکے۔
اس کا بے انتہا سادہ اور قابلِ عمل حل ہے اور کرونا کی وجہ سے قدرت نے موقع بھی فراہم کر دیا ہے کہ ہم اس کو ممکن بنا سکیں۔

ریلوے منسٹر شیخ رشید صاحب اور ان کی ٹیم سے گزارش کیجیے کہ جس طرح کم از کم وقت میں آپ قرنطینہ ایکسپریس کو عملی شکل دے سکتے ہیں اسی طرح تمام مسافر بردار کوچز کے دروازوں کو آٹومیٹک ہائیڈرالک ڈور کلوز سسٹم سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔پرانے فرسودہ ڈیزائن کے گارڈ کے ڈبے ختم کرکے ہر کوچ میں گارڈ کے لئے ایک سیٹ یا برتھ مخصوص کردی جائےتاکہ شنٹنگ کے نام پر ریلوے کا ماہانہ کروڑوں روپے کا فیول ضائع ہونے سے بچا یا جا سکے۔آپ اندازہ کیجیے ہماری اکثر ٹرینیں  اس لئے بھی تاخیر کا شکار ہوتی ہیں کہ گارڈ کا ڈبہ آگے سے پیچھے کی طرف لگانے کے لئے شنٹنگ پاور یا پلیٹ فارم پر جگہ دستیاب نہیں ہوتی اور پھر اس عمل کو سرانجام دینے کے لئے ڈھیر سارا وقت اور سٹاف چاہیے ہوتا ہے۔

تمام کوچز ایک خود کار کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے تحت ڈرائیور کے سامنے ڈسپلے ہو رہی ہوں ،بالکل اسی طرح جیسے پہلے ڈبے سے لیکر آخری ڈبے تک ایئر بریک سسٹم کا پریشر کے متعلق ڈرائیور باقاعدہ آگاہ ہوتا ہے۔
متعلقہ کیرج اینڈ ویگنز سٹاف تو آپ کے سسٹم میں پہلے ہی موجود ہے،انہیں کسی بھی ممکنہ تکنیکی خرابی کو دور کرنے کی تربیت دے دی جائے۔

تمام کوچز میں سکیورٹی کیمرے نصب ہوں تاکہ دوران سفر خدانخواستہ آگ بھڑک اٹھے تو ڈرائیور بروقت ایمرجنسی بریک لگا سکے،تیزگام والے حادثے کی طرح دوبارہ ایسا نہ  ہو کہ درمیان والی کوچز میں لگنے والی خوفناک آگ کا پتہ نہ بروقت گارڈ کو چل سکا اور نہ ہی ڈرائیور کو۔جبکہ مسافر اتنے حواس باختہ ہوئے کہ مسافر کوچ میں لگی ہوئی ایمرجنسی زنجیر کھینچنے میں ناکام رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے پڑھنے والے قارئین سے خصوصی گزارش کروں گا کہ میری تحریر کو تحریک کی صورت میں بدلنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مستعدی سے اپنی سرگرمی دکھائیےصرف یہ سوچ کر کہ ہم مستقبل قریب میں اپنے کسی پیارے کو اس طرح کے جان لیوا حادثات سے بچانے کی ادنیٰ  سی کوشش کر رہے ہیں۔یہ ہمارا جائز اور بنیادی حق ہے جس کے لئے ہمیں چاہیے کہ صحافتی،حکومتی، سوشل میڈیا الغرض تمام ممکنہ پلیٹ فارمز پر آواز اٹھائیں کیونکہ آپ فقط ایک انسانی جان کے تحفظ کے لئے یہ کار خیر انجام دے رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply