کے آئی یو کے طلبہ کے جائز مطالبات اور ہٹ دھرمی/امیر جان حقانی

قراقرم یونیورسٹی گلگت بلتستان کی اکلوتی انٹرنیشنل یونیورسٹی ہے. بدقسمتی سے فیڈرل گورنمنٹ، ایچ ای سی، یونیورسٹی انتظامیہ اور جی بی حکومت سے یہ اکلوتی یونیورسٹی نہیں سنبھالی جاسکتی ہے.

کبھی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات انتظامیہ کا غیرذمہ دار رویہ اور ظالمانہ فیسوں کے خلاف احتجاج کررہے ہوتے ہیں تو کبھی یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین حرف شکایت لیے پھر رہے ہوتے ہیں اور اپنے جائز حقوق کے لیے احتجاجی واک اور قلم چھوڑ ہڑتال پر اتر آتے ہیں. آخر یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے.یہ صورتحال بہت افسوسناک ہے.

ملک معراج خالد مرحوم جب اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ریکٹر بنے تو انہوں نے فیسوں میں معمولی اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا. کسی منچلے طالب علم نے انہیں طعنہ دیا کہ دودھ فروش کا بیٹا جب ریکٹر بنا تو اپنی اوقات بھول گیا اور غریب طلبہ کے فیسوں میں اضافہ کردیا. ملک معراج نے ان کو اپنے پاس بلایا اور اپنی غربت کے بارے اور بھی معلومات فراہم کی، طالب علم کا شکریہ ادا کیا اور اسی دن آفس سے نکلنے پہلے پہلے، زیادتی فیس کی نوٹیفکیشن واپس لیا.

قراقرم یونیورسٹی کا موجود وی سی اپنا پہلا ٹینیور پورا کرکے دوسرا ٹینیور انجوائے کررہے ہیں. اصولی طور پر انہیں ٹینیور پورا کرتے ہی باعزت رخصت ہونا چاہیے تھا مگر گلگت بلتستان اور کے آئی یو، سدا بہار سبزہ کی حیثیت رکھتی ہے. ایسے میں ہر جائز ناجائز سورس لگا کر یہاں رہنے اور فارایور چرتے رہنے کی عادت وفاق سے آنے والے ہر آفیسر کی رہتی ہے. موصوف بھی دوسرا ٹینور انجوائے کررہے ہیں، اچھی بات ہے مگر اپنے وجود کو گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقہ کے غریب طلبہ و طالبات کے لئے مصیبت تو نہ بنائیں.

جناب والا اگر کوئی طالب علم تمہیں یہ طعنہ دے کہ آپ کے علاقے کے خوانین آپ کو غریب اور معمولی فیملی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے سکول جانے سے روکتے تھے اور آپ چھپ چھپا کر سکول جایا کرتےاور تعلیم جاری رکھنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کیا کرتے تھے اور آج وائس چانسلر بن کر اپنی اوقات بھول کر غریب کے بچوں کے لیے فیسیں بڑھا رہے ہو، تو کیا آپ اس طالب علم کو اپنی شاہانہ دفتر بلاکر، اپنی کچن کیبنٹ کی موجودگی میں، مزید معلومات فراہم کریں گے اور فیس کی زیادتی کا نوٹیفکیشن واپس لیں گے یا پھر انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے؟

آپ، آپ کی کچن کیبنٹ اور آپ کی انتظامیہ کو معلوم بھی ہے کہ جی بی کے لوگ کتنے غریب اور پسماندہ ہیں اور آپ کے طلبہ کی اکثریت کے والدین خطہ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں؟ کاش! آپ لوگوں کے سینے میں دل ہوتا!

یہاں ایک چیف سیکرٹری ہوا کرتے تھے، یار لوگ انہیں رنگیلا چیف بھی کہتے تھے، جو تعلیم کے نام پر سب کو چونا لگایا کرتے تھے. اور کچھ انتہائی مخصوص وارداتی اور مفاداتی قسم کے آفیسرز اور اساتذۂ کو ساتھ لیے تعلیمی انقلاب کی نویدیں سناتے پھرتے تھے لیکن بخدا میرے نزدیک کچھ بھی اچھا نہیں ہوا تھا. البتہ کچھ مخصوص لوگ، ادارے، این جی اوز وغیرہ تعلیم کے نام پر ان کے چورن سے کافی ہاضم ہوئے تھے اور موٹے تگڑے ہوگئے تھے. موصوف کے جانے کے بعد چیزیں عیاں ہوتی جارہی ہیں. کاش کہ ہمارے صحافی یہ خبریں بروقت دیا کریں.

بہر حال کے آئی یو کے طلبہ کوئی غیر نہیں اپنے ہی بچے ہیں.جن کےوالدین کی اکثریت انتہائی غریب اور دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں. یونیورسٹی انتظامیہ، صوبائی حکومت، چیف سیکرٹری اور فورس کمانڈر و دیگر مقتدر حلقوں کو مل بیٹھ کر ان معمولی مطالبات کا دیرپا حل نکالنا چاہیے اور وفاق سمیت تمام زرائع کو استعمال کرنا چاہیے. انتقامی کارروائیوں سے کبھی بھی معاملات سلجھتے نہیں بلکہ مزید الجھتے ہیں. سمجھدار لوگ معاملات کو الجھاتے نہیں، مسائل کا حل نکالتے ہیں.
طلبہ کے مطالبات ان کے پریس ریلیز میں موجود ہیں جو انتہائی معقول اور آسانی سے حل ہونے والے مطالبات ہیں. حیرت ہے کہ ایک انٹرنیشنل یونیورسٹی، پوری صوبائی حکومت اور دیگر ادارے چھ سات ہزار طلبہ کو قانون کے مطابق فیسلیٹیٹ نہیں کرسکتے؟ یعنی ایچ ای سی رولز کے مطابق. حد نہیں بے حد ہے.
ایک اعتراض یونیورسٹی کیمپسز پر بھی ہے. ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر ضلع میں ایک کیمپس ہو، ہر ضلع کا حق ہے کہ ان کو یہ سہولیات ملے مگر کوتاہ اندیشی کا یہ عالم ہے کہ جو ہیں ان کو بھی بند کرنے کی بات کی جارہی ہے. کوئی صاحب لاہور اور اسلام آباد کی یونیورسٹیوں کی تعداد چیک کیجیے اندازہ ہوجائے گا. اور یہاں پورے صوبہ میں درجن سے کم معمولی کیمپسز نہیں چلائے جاسکتے؟

وی سی صاحب ایک دن کی چھٹی بھی ایوان صدر سے لیتے ہیں، جی بی حکومت کی ایک نہیں سنتے ہیں بلکہ اشھی طرح عزت دینا بھی نہیں چاہتے، تو اپنے ٹریجرر کو لے کر، ایوان صدر، فائنانس منسٹری اور ایچ ای سی کے دروازہ کھٹکھٹائے نا؟ یہاں بڑے بڑے گھروں میں آرام سے کیوں بیٹھے ہو اور صوبائی حکومت سے فنڈ مانگ رہے ہو؟

Advertisements
julia rana solicitors

اور صوبائی حکومت کو بھی اپنے طلبہ اور یونیورسٹی کو یوں بے یار و مددگار نہیں چھوڑنا چاہیے. آپ بھی اپنے ریسوسز سمیت مرکز سے بات کیجئے. اللہ کوئی راستہ نکال لے گا. آپ لوگ حرکت تو کیجیے.
اگر آپ لوگوں کے بس میں نہیں ہے تو خدارا! اداروں اور عوام پر بوجھ بننے کی بجائے اپنی راہ لیں، تاکہ باصلاحیت لوگ یونیورسٹی اور حکومت سنبھال لیں گے اور ایشوز حل کریں گے.
طلبہ کے مطالبات ملاحظہ کیجئیے. ان کا پریس ریلیز حاضر ہے.
“آل طلبا الائنس ہنگامی طور پر پریس ریلیز کے زرئع تمام طلبا و طالبات کو یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکشن کے بارے میں مکمل آگاہی دیتی ہے کہ:
1: طلبا کو اپنے سمسٹر فیس ایچ ای سی کے قوانین کے مطابق جمع کرنے کی بات کے ساتھ ساتھ یہ شرط رکھنا کہ جب گرانڈ ملتا ہے تو اس بات کی دلیل ہے کہ اب تک یونیورسٹی کو گرانڈ ملا ہی نہیں ہے جوکہ ایک ٹوہی ڈرامے کے علاوہ کچھ نہیں۔
طلبا کو اس چیز سے بھی آگاہ کرتے چلے کہ اس نوٹیفیکشن میں اس بات کی بھی وضاحت نہیں کہ کونسے فیس سٹیکچر کے مطابق فیس کم کیا جائے گا جبکہ ہم نے کہا تھا کہ 5th اور 7th سمسٹر کی فیس میں اگر 15% کمی کی جاتی ہے تو بھی قبول ہے مگر 3rd اور 1st سمسٹر کے ساتھ ساتھ بریجنگ سمسٹر کے طلبا و طالبات کی فیس جوکہ 100% سے زیادہ بڑھائی گئی ہے ان کی فیس کو 2019 کے فیس سٹیکچر سے 2023 تک ہر سال ایچ ای سی کے قوانین کے مطابق 10% بڑھائی جائے اور جتنی فیس بن جاتی ہے اُس کو ایل ایم ایس میں اپلوڈ کیا جائے۔
2: جن دس طلبا و طالبات کو یونیورسٹی سے نکلا تھا، اُن کو بحال کرنے کے حوالے سے ہمارا مطالبہ تھا کہ ان کو بغیر کسی ہیرنگ اور کسی ایفیڈوٹ کے باعزت بحال کیا جائے، تاہم جاری کردہ نوٹیفکیشن میں اپیل کمیٹی کو درخواست دینے کے بعد یونیورسٹی کمیٹی کے قوانین کی بات کی ہے جو قابل قبول نہیں. یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ایکٹو طلبا کو مختلف شرائط کی زنجیروں میں بند کرکے ان ایکٹو طلبا کا منہ بند کرانے اور انصاف کے نام پر ذہنی ٹارچر کرنے کی کوشش کی ہے لہذا وہ طلبا کسی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہونگے۔
تاہم وہ طلبا اگر یونیورسٹی کہتی ہے تو الگ الگ اپیل کرے گے مگر کسی بھی کمیٹی کو ہیرنگ نہیں دے گے۔
3-جن طلبا و طالبات کے او ایچ ٹیس مس ہوئی ہے ان کو ڈیپارمنٹس میں ایک او ایچ ٹی کو دوبارہ لینے کے لیے 1500 روپیہ جرمانہ لیتے ہیں، لہذا اس چیز کو بھی واضح کریں اور ہر ڈیپارمنٹ کے ہیڈ کو نوٹیفیکشن جاری کیا جائے اور اُس نوٹیفیکشن کو سوشل کیا جائے کہ بغیر کسی جرمانے کے اُن سے او ایچ ٹیس لیا جائے گا۔
4: یونیورسٹی میں طلبا یونین کی بحالی کے لیے تشکیل کمیٹی کے ساتھ پیر کے دن سے ہی طلبا مشاورت کرے گے اور قانون کے مطابق اس پر عمل کیا جائے گا اور اس کے بعد اینٹی ہراسمنٹ سیل کے قیام پر بھی کام کیا جائے گا۔
5-پیپر کو چھٹیوں کے بعد تک معطل کی نوٹیفیکشن جاری کیا جائے اور اکیڈمک کلینڈر کو ری شیڈول کرکے اُس کو بھی سوشل کیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے چاٹر آف ڈیمانڈ میں بریجنگ سمیسٹر کے حوالے سے بات ہوئی تھی جس کو یہاں شامل ہی نہیں کیا گیا ہے جس پر ہمارا سوال ہے کہ اگر یہ ایچ ای سی کے قانون کے مطابق ہے اُن کے سمسٹر کو زیرو کیا ہے تو وہ قانوں سوشل کرکے اسٹوڈنٹس کو مطمئن کیا جائے اس کے ساتھ چند طلبا سے کمی لائی گئی تو ہمیں قابل قبول نہیں اور ہمارا دھرنا جاری رہے گا۔”
ان مطالبات میں کونسی چیز اتنی خطرناک ہے کہ ماننے سے یونیورسٹی اور صوبائی حکومت دیوالیہ ہوجائے گی.؟ خدا کے بندوں اپنے بچیوں اور بچوں کو اس سردی میں کیوں دھرنوں پر مجبور کرتے ہو. اور مختلف حیلے بہانوں سے انہیں مجبور کررہے ہو. ادارے، حکومتیں اور ریاستیں ماں کی مانند ہوتے ہیں. تم اپنے اندر یہ صلاحیت کب پیدا کروگے؟ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو.

Facebook Comments

امیر جان حقانی
امیرجان حقانیؔ نے جامعہ فاروقیہ کراچی سےدرس نظامی کے علاوہ کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور جامعہ اردو سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹر کیا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی فکر، تاریخ و ثقافت کے ایم فل اسکالر ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے2010 سے مقالے اور تحریریں لکھ رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے تمام اخبارات و میگزین اور ملک بھر کی کئی آن لائن ویب سائٹس کے باقاعدہ مقالہ نگار ہیں۔سیمینارز اور ورکشاپس میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply