ہمسایہ ممالک سے لڑائی! خوشحالی کی دشمن/ارشد بٹ

میاں نواز شریف نے پاکستان آتے ہی اپنے پہلے بیان میں درست کہا کہ ہمسایہ ممالک سے لڑائی کرکے معاشی ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں ہوسکتی۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے بیانات میں بار بار دہرا رہے ہیں کہ انکی کسی سیاسی جماعت یا شخصیت سے مخالفت نہیں۔ بقول بلاول بھٹو انکی مخالفت غربت، بے روزگاری اور مہنگائی سے ہے۔ چند روز قبل علماء و مشائخ سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے نشاندہی کی کہ مذہبی، لسانی، صوبائی اور فرقہ وارانہ امتیاز کے بغیر پاکستان تمام پاکستانیوں کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی، عدم برداشت اور انتہا پسندانہ رویے کی کوئی گنجائش نہیں۔

شائد ہی کوئی پاکستانی ہو گا جو میاں نواز شریف، بلاول بھٹو اور آرمی چیف کے ان بیانات کی اہمیت سے انکار کر سکتا ہے۔ اگر ان تینوں بیانات کی روشنی میں مستقبل کی پالیسیوں کی ترجیحات کا تعین کیا جائے تو دہائیوں سے پاکستان کو درپیش اقتصادی اور سیاسی بحرانوں سے نکلنے کے راستے کھلنا شروع ہو جائیں گے۔ مگر تاریخی تناظر میں ملک کی سابقہ حکمران جماعتوں کے راہنماؤں اور عسکری سربراہ کے ان بیانات کی سنجیدگی پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔عوام کے ذہنوں میں سوال ابھرتا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے ملک سے غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمے کے لئے آج تک کون سی ٹھوس پالیسیاں اپنائیں۔ ہمسایہ ممالک خصوصاً  انڈیا سے تعلقات معمول پر لانے اور ملک سے مذہبی شدت پسندی و عدم برداشت کو ختم کرنے کے لئے حکومتوں اور ریاست نے کون سے عملی اقدامات اٹھائے۔

اس میں دوسری رائے نہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں نے معاشی پسماندگی اور غربت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے مربوط معاشی پالیسیاں اپنانے سے گریز کا راستہ اختیار کئے رکھا۔ غریب طبقات کو روزگار و طبی سہولیات اور انکے بچوں کو معیاری و سستی تعلیم کی فراہمی کے لئے سنجیدہ کاوشیں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ملکی ترقی اور خوشحالی حکمران طبقوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی۔ ہر باشعورپاکستانی سمجھتا ہے کہ انڈیا کے ساتھ تنازع کشمیر کوہماری حکمران اشرافیہ نے اقتدار کے حصول یا اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ نعرہ بازی اور جنگی جنون کو ہوا دینے کے علاوہ پاکستان اور انڈیا کی حکمران اشرافیہ نے تنازع  کشمیر کو کشمیری عوام کی منشاء کے مطابق حل کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کا راستہ ترک کرکے نام نہاد جہاد اور جنگی جنون کی برسوں پرورش کی جاتی رہی ہے۔ نام نہاد جہاد، پراکسی جنگوں، جنگی جنون اور ہتھیاروں کی دوڑ نے علاقائی امن کی راہیں مسدود کر دیں ہیں ۔ متعد جنگوں، مسلسل جنگی ماحول، ہتھیاروں کی بے مقصد دوڑ، انتہا پسند جہادی سوچ، دہشت گرد گروہوں کی پرورش اور ہندتوا قوم پرستی نے پاکستان اور انڈیا کے عوام کو غربت، جہالت، شدت پسندی اور نفرت کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔

یہ ایک تاریخی المیہ ہے کہ غربت، شدت پسندی اور جنگی جنون کی جڑیں ایک ساتھ گہری ہوتی رہیں۔ یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ غربت، مذہبی و سماجی شدت پسندی اور ہمسایہ ممالک سے معمول کے تعلقات جیسے مشکل مسائل کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تاریخی حقائق اور علاقائی تنازعات نے غربت، شدت پسندی اور جنگی جنون کی ایک ساتھ پرورش کی ہے، اس لئےکسی ایک مسلئے کا حل دیگر مسائل کو علیحدہ رکھتے ہوئے ڈھونڈنا انتہائی دشوار ہے۔ نام نہاد جہاد اور پراکسی جنگوں نے ایک طرف سماج میں مذہبی شدت پسندی، عدم برداشت اور نفرتوں کی آبیاری کی۔ دوسری جانب جنگی جنون کی فضا پیدا کر کے علاقائی امن کو تہہ و بالا کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ جہاد کے نام پر دہشت گردی، جنگی جنون اور علاقائی مخاصمت کی پالیسی سے غربت، بے روزگاری اور شدت پسندی میں اضافہ ہوتا رہا اور غیر جمہوری قوتوں کو پنپنے کے لئے زرخیز زمین میسر آتی رہی۔ غیر جمہوری قوتیں طاقت پکڑتی رہیں اور جمہوریت پسپا ہوتی رہی۔اب اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کی پامالی روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ریاستی طاقت نے جمہوری قوتوں کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے جبکہ آئین و قانون کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کی منزل کا راستہ طویل ہوتا نظر آ رہا ہے ۔

پاکستان اور انڈیا کی حکمران اشرافیہ اس نتیجہ پر کب پہنچے گی کہ امن اور خوشحالی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جبکہ جنگ کے میدانوں میں غربت، بیماری اور جہالت کی فصلیں اُگتی ہیں۔ یہ حقیقت کون جھٹلا سکتا ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی یک و تنہا ملک، علاقائی معاشی تعاون کے بغیر ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے نہیں کر سکتا۔ یہ سوچ کب پروان چڑھے گی کہ باہمی تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے کا عزم کرتے ہوئے پاکستان اورانڈیا میں ہتھیاروں کی دوڑ اور جنگی ماحول کے خاتمے، معاشی تعاون، تجارت کےفروغ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے تبادلے سے ترقی اور خوشحالی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ دونوں ممالک کی حکمران اشرافیہ کو جلد یا بدیر یہ طے کرنا ہو گا کہ باہمی قومی خودمختاری کا احترام اوراندرونی معاملات میں عدم مداخلت، مشترکہ مفادات کے فروغ اور باہمی تنازعات کا پُرامن حل تلاش کرنے سے پائیدار امن اور ترقی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔

یہ حقیقت شک و شبے سے بالاتر ہے کہ دونوں ممالک کے حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے بے پناہ قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال جنوبی ایشیاء، صنعتی و ٹیکنالوجی کی پسماندگی، غربت، بے روزگاری، ناخواندگی اور ماحولیاتی بربادی سے دوچار ہے۔ یاد رہے دونوں ممالک کے لاکھوں عوام روزگار اور بہتر حالات زندگی کی تلاش میں دنیا کے مختلف ممالک میں معاشی ہجرت اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ معاشی ہجرت کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دونوں ملکوں کے عوام کے ذہنوں میں منفی پراپیگنڈہ سے ابہام اور نفرت کے بیج بوئے جاتے رہے ہیں۔ مگر اب جدید کمیونیکیشن ٹیکنالوجی، عالمی تبدیلیوں اور معاشی مفادات کی وجہ سےعوام کے ذہنوں میں غلط فہمیوں اور نفرتوں کے بادل چھٹتے نظر آ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غربت کے منحوس سائے، شدت پسندی کی لہر، ہتھیاروں کی دوڑ اور جنگی جنون کے نعروں کی گونج میں ملکی ترقی، عوامی خوشحالی اور جمہوری بالادستی کا خوب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ میاں نواز شریف نے کھل کر کہہ دیا کہ جنگوں سے ترقی کی راہیں نہیں کھلتیں۔ پیپلز پارٹی اور دیگر قابل ذکر سیاسی جماعتوں کو بھی اس اہم مسلئے پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ پُرامن مذاکرات سے تنازع  کشمیر اور دیگر تنازعات کا حل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ انڈیا سے پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر معاشی ،تجارتی و ثقافتی تعلقات بحال کرنے کے لئے سیاسی و قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ اگر مقتدرہ سنجیدگی سے شدت پسندی اور دہشت گردی سے نجات اور معاشی ترقی چاہتی ہے تو اسے اپنی اداراتی سوچ میں تبدیلی لانے کا سوچنا ہو گا۔ مقتدرہ کے کرتا دھرتا سنجیدگی سے غور کریں کہ غربت، معاشی پسماندگی، ہتھیاروں کی دوڑ اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مستقل جنگی کیفیت اور شدت پسندی کی موجودگی میں قومی سلامتی کا تحفظ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی سمجھتا ہے کہ میاں نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور آرمی چیف کے ان بیانات کہ روشنی میں ایک مربوط قومی پالیسی مرتب ہونی چاہئے۔ ایسی پالیسی جس میں غربت ، مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے اور ہمسایہ ممالک خصوصا انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے عملی اقدامات کا ٹھوس پروگرام دیا جانا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply