• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پروگرام تو وڑ گیا ، اور ماسٹر آصف بشیر /سلیم زمان خان

پروگرام تو وڑ گیا ، اور ماسٹر آصف بشیر /سلیم زمان خان

یہ سن 19 سو اندھیرے کا واقعہ ہے  کہ میں ایک ایسے انگلش میڈیم  سکول سے چوتھی جماعت پاس کر چکا تھا کہ اس کے بعد وہاں سے لڑکوں کو آگے نہیں تعلیم دی جاتی ،وہ ایک لڑکیوں کا مشنری عیسائی  سکول تھا ،لہذا میرا پانچویں جماعت میں داخلہ کسی لڑکوں کے  سکول میں ہونا تھا  ۔ والد نے اس زمانے کے مشہور ترین انگریزی میڈیم  سکول کی کوشش کی لیکن کوئٹہ میں  سکولوں کی سردیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اور ہم چھٹیاں گزارنے اپنے آبائی گاؤں صوبہ سرحد جسے آج کل KPK کہتے ہیں چلے جایا کرتے۔  جب مارچ میں واپس آئے تو داخلے بند ہو چکے تھے اور اس زمانے میں اس  سکول میں داخلے کے لئے پیسہ والا ہونے کے ساتھ ساتھ تگڑی سفارش والا بھی ہونا پڑتا تھا ۔ پھر بھی نصیب سے داخلہ ملتا  ۔ بات جب نصیب کی ہو تو وہاں میرے  لئے مالک کی ہمیشہ سے چوائس مختلف رہی ہے۔۔ لہذا اسی کیتھولک بورڈ کے ایک اور عیسائی مشنری  سکول میں داخلہ ملا ،تاکہ سال ضائع نہ ہو اور وہ اردو میڈیم تھا اور گریڈ فور کے ملازمین اور خاص طور پر دیگر مذاہب کے خاکروب اور چپڑاسی طبقہ کو سہولت دینے کے لئے یہ  سکول بنایا گیا تھا۔ چونکہ وہاں اس  سکول کو ایک انگریز فادر پیٹر چلا رہے تھے، تو انہوں نے میرے والد کو ایک سال اپنے  سکول میں رکھ کر اگلے سال بچے ( یعنی میں) کی قسمت آزمانے کا مشورہ دیا ۔ جو کہ پھر میٹرک تک قسمت آزمائی رہی اور میں نے میٹرک وہیں سے کیا   اور یہ آج میں وثوق سے کہتا ہوں کہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے وہاں پڑھنے کا موقع ملا ۔

یہاں پانچویں  جماعت سے پھر سے A,B,C سے شروع کیا گیا  اور ہم دو لڑکے بہت اچھے نمبر انگریزی میں لیتے ،کیونکہ ہم چوتھی جماعت تک انگلش میڈیم میں پڑھ کر آئے تھے۔
چونکہ اس اسکول کے بچوں کا تمیز کا لیول ہم انگلش میڈیم بچوں سے بہت مختلف تھا تو جو نئے دوست بنے وہ منہ پھٹ اور بیہودہ باتوں میں کمال کا حافظہ رکھتے تھے۔ میں چونکہ گالی تو دور کی بات زیادہ اونچی  آواز میں بات کرنے سے بھی شرماتا تھا تو میرے نئے دوست مجھ سے اونچی آواز میں گالیاں دلواتے اور خوب محظوظ ہوتے۔۔ کیونکہ میرے لہجے میں اور گالیوں میں وہ تاثیر نہیں تھی جو آگ لگا سکے ۔ تب دوستوں نے سمجھایا کہ کس طرح جن اعضاء کا گالی میں استعمال کیا جائے اس پر زور دے کر اس کام یا عضو کی اہمیت کو اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔ خیر ۔۔ یہ کمال تو مجھ میں جماعت نہم میں پہنچتے پہنچتے آیا۔۔ جس کا بر ملا اظہار میرے استاد محترم جو فزکس ،کیمسٹری اور حساب پڑھاتے تھے انہوں نے کچھ یوں فرمایا ” اس الو کے پٹھے کو دیکھو ،جب آیا تھا تو منہ سے لفظ نہیں نکلتا تھا۔۔ اب اندھیرے کی اولاد کیسے گالیاں دیتا ہے” اور پھر بید کی چھڑی سے میرے کولہے سیکے جاتے۔

واقعہ دراصل مجھے آج کل ایک عوامی نعرہ ( پروگرام تو وڑ  گیا) سے یاد آیا کہ ابھی ہم چھٹی جماعت میں گئے تھے۔ تو ہمارا گروپ کافی مضبوط ہو گیا  اور خاک نشینوں کی محفل میں کم از کم یہ پتہ چل چکا تھا کہ کس جسمانی عضو کا استعمال کیا ہے۔  انہی دنوں میں ہمارے اسکول میں ایک عیسائی ماسٹر آصف بشیر اردو پڑھانے پنجاب سے آئے ۔ ورزشی جسم، جینز کی ٹائٹ پینٹ، اوپر لیدر جیکٹ۔۔ ہاتھ ان کا شاید اتنا بڑا تھا کہ اگر ہتھیلی میری ناک پر رکھتے تو انگلیوں کے پور پورے سر سے گھوم کر دوسرے کان پر جا کر رکتیں۔۔ اور یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ان سے چپیڑیں بہت پڑی ہیں لہذا وہ احتیاط کے تقاضے میں منہ کو دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر  چپیڑ لگاتے ،کیونکہ منہ ادھیڑنے یا گردن سے اُترنے کا خطرہ بھی رہتا تھا ۔ جب اردو بولتے تو اس پر گمان Pro lite پنجابی کا ہی ہوتا۔  اگر ہماری کسی اردو کی غلطی پکڑتے تو زور سے ارشاد فرماتے ” اننے۔۔۔تم گلط پڑھ رہے ہو” یعنی( اندھے تم غلط پڑھ رہے ہو)

ایک دن ان کی کلاس کے شروع ہونے سے پہلے ہمارے چند دوستوں نے اپنے نئے آئے ہوئے پٹھان کلاس فیلو ( شمس اللہ) کو تنگ کرنا شروع کیا  اور اسے بُری بُری پنجابی باتیں کہنے لگے۔۔ وہ بیچارہ سمجھتا نہیں تھا۔ تو وہ آگے سے   گالیاں دینا شروع ہو گیا ۔ انہی پشتو گالیوں کے شور میں ماسٹر آصف بشیر کلاس میں داخل ہوئے  اور یقین جانیں پورا اسکول ان کے صرف دیکھنے سے ہی ڈرتا تھا ۔
کلاس کے اندر وہ آئے۔۔ہمارے سانس رک گئے۔۔ انہوں نے اس بے چارے شمس اللہ کو کھڑا کر لیا اور کہا گالیاں کیوں  بک رہے تھے۔۔ تو وہ بولا سر یہ طارق ( ایک پنجابی لیکن مکمل طور پر آوارہ لڑکا ) مجھے ایسا بات بولتا ہے پھر سب کلاس ہنستا ہے۔۔ ماسٹر آصف بشیر نے پوچھ لیا۔۔ کہ کیا بولتا ہے؟؟ اس نے کہا سر یہ بولتا ہے۔۔ اوئے پٹھان، اوئے دینڑی اے۔۔!  (اب اس کا ترجمہ میں نہیں  کر سکتا ) ۔۔ماسٹر آصف بشیر کا کالا رنگ کالے نیلے اور سرخ رنگ میں تبدیل ہوا کہ شمس اللہ پھر بولا اور سر جب ہم اس کا بات نہیں سُنتا تو یہ ہم کو بولتا ہے ۔۔او آخروٹ وڑھ گیا ۔۔ جواب دیو۔۔ ورنہ پنگا دے واں!

ماسٹر آصف بشیر نے یہ سننا تھا کہ وہ تو ہتھے سے اکھڑ گئے۔۔ اپنی جیکٹ اتار کر کرسی سے لٹکائی طارق کو باہر بلایا آستین چڑھائی اور کلاس کی گواہی کے بعد الٹے ہاتھ سے اس کا منہ پکڑتے اور سیدھے ہاتھ سے تھپڑ مارتے۔۔ جس سے پوری کلاس میں ارتعاش پیدا ہوتا ۔۔اور دِلوں میں گداز۔۔

جب انہوں نے اپنی مشق پوری کر لی۔۔ اور طارق اپنے گم صم منہ کے ساتھ اپنی ڈسک تک پہنچ گیا تو ماسٹر آصف بشیر گویا ہوئے۔۔ کہ الو کے پٹھے!  یہ پنجابی کے بُرے ترین الفاظ ہیں۔۔ یہ دینڑی، یہ وڑھ گیا، یہ پنگا۔۔ کسی مہذب جگہ اور مہذب محفل میں اس کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ بلکہ ہمارے علاقوں میں چوڑے چمار( خاکروب یا   کام کرنے والے) ایسی زبان بولتے ہیں  ۔ تم نے کہاں سے سیکھی ہے یہ زبان  اور پھر پوری  کلاس کو بتایا کہ ان الفاظ کے معنی اور بولنے کے مواقع کیا ہیں ۔۔ ساتھ ہی پھر طارق کی طرف جانے لگے تو اس کا چہرے موت سا  پیلاہٹ زدہ ہو گیا۔۔ وہ بولے یہ وڑھ گیا گالی کا آخری سرہ ہے جسے یہ کنجر اور کم ذات اس لئے کہتے ہیں کہ جہاں سے تم پیدا ہوئے ہو وہیں واپس چلے جاؤ۔۔ لہذا اسے طول دینے کی بجائے صرف وڑ  گیا پر روک دیا گیا ہے۔۔ یعنی جس کی ساخت ہی تبدیل ہو جائے۔۔ اور پھر بولے یہ لفظ” پنگا” جانتے ہو کیا ہے؟؟ یہ درمیان والی انگلی کو کہتے ہیں جس طرح کسی زمانے میں کسی کو انگوٹھا دکھایا جاتا تھا یا لعنت دی جاتی تھی اسی طرح سے درمیان کی بڑی انگلی کو پنگا کہا جاتا ہے۔ جب انسان کسی غیر ضروری یا بے معنی معاملے میں خوامخواہ ٹانگ اڑائے تو یہ گھٹیا لوگ یا بھانڈ مراثی کہتے ہیں کہ” توں کیوں خامخواہ پنگا لے رہا ہے ” یہ شریف آدمی کی زبان سے انتہائی ذلیل گالی ہے۔۔ جو کسی بھی بندے کو کم ترین کرنے کو کہی جاتی ہے ۔

پھر ان میں شفقت لوٹ آئی۔۔ اور بولے جب تک میں اس اسکول میں ہوں اگر کسی نے یہ تین الفاظ بولے تو میں ٹھڈے مارتے ہوئے اس کو گھر تک چھوڑ کر آؤں گا۔۔ خیر اس روز کے بعد جب ہم نے یہ بکواس کرنا ہوتی تو پہلے حلف لیتے کہ کوئی ماسٹر آصف کو نہیں بتائے گا اور اگر بتائے گا تو پوری کلاس کا اس سے بائیکاٹ ہو گا۔۔ خیر پھر شمس اللہ بھی دوست بن گیا اور یہ تینوں الفاظ اس کے منہ سے بہت لطف دیتے تھے۔

ان الفاظ کو ہم میٹرک تک گالی سمجھتے اور کمی کمین لوگوں یا چوڑے چمار، بھانڈ مراثیوں کی زبان سمجھتے رہے ۔۔

پھر ہم بڑے ہو گئے۔۔ اور ہم نے دیکھا کہ یہ بھانڈ مراثیوں اور چوڑے چماروں کی گفتگو مہذب محفلوں میں آگئی۔۔ جب اچھے بھلے گھرانوں کے بچے بچیاں ” پنگا” لفظ استعمال کرتے ہیں تو میں سوچتا ہوں انہیں یہ معلوم نہیں کہ اس کی اصل کیا ہے۔ اب یہ شرارت یا چھیڑ خانی کا ایک استعارہ بن گیا ہے  اور اب خیر سے “وڑ  گیا” پورے ملک بلکہ دنیا کے پاکستانیوں کا ٹرینڈ بن گیا ہے۔۔ مجھے معلوم نہیں کہ ماسٹر آصف بشیر زندہ ہیں یا نہین ۔۔ ورنہ میں ان سے معاشرے کو چپیڑیں پڑواتا۔۔ اور یقین کریں ان کے بڑے بڑے ہاتھ جس کا بھی منہ اُلٹے ہاتھ سے تھوڑی پکڑ کر سیدھے ہاتھ سے چپیڑ کھا لیتا ۔۔ دو لفظ شاید دوبارہ کبھی نہ بولتا ایک “پنگا “اور دوسرا “وڑ “گیا۔۔ اور اب شاید تیسرے لفظ کے وائرل ہونے کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم گر رہے ہیں بطور قوم گر رہے ہیں ۔۔اور نجانے یہ گراوٹ کہاں جا کر رکے۔۔ کسی بھی مہذب قوم اور معاشرے کا شعار گالیوں اور ہلڑ بازی نہیں ہوتا۔ ترقی کرنے والی مہذب اقوام کے لہجے دھیمے اور الفاظ و خطاب شائستہ ہوتا ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply