• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرونا سے احتیاط نہ کی تو اگست تک کئی کروڑ پاکستانی مارے جائیں گے ! آخر کیسے ؟۔۔مرزایوسف بیگ

کرونا سے احتیاط نہ کی تو اگست تک کئی کروڑ پاکستانی مارے جائیں گے ! آخر کیسے ؟۔۔مرزایوسف بیگ

پاکستان میں ابھی تک لوگ کرونا کو سیریس نہیں  لے رہے ۔ اکثر لوگ احتیاطی تدابیر استعمال کرنے کی بجائے اسی بحث میں پڑے ہوئے ہیں کہ مساجد کھلیں یا نہیں  اور کاروبار کب کھلیں گے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر لوگوں نے گھر سے نکلنا بند نہ کیا تو اگست تک کئی کروڑ پاکستانی مر سکتے ہیں ۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر  بچے، جس میں کوئی فوتیدگی نہ ہوئی ہو اور اکثر خاندانوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ لیکن عوام کی ایک بڑی  تعد اد اس  بات کو سمجھ نہیں  رہی ۔ زیادہ تر لوگوں کی رائے یہی ہے کہ فروری سے ہم پاکستان میں کرونا کی  موجودگی کا سن رہے ہیں اور اب اپریل کا پہلا ہفتہ بھی گزر چکا ہے لیکن  ابھی تک پورے ملک میں کرونا کے صرف تین ہزار مریض ہیں لہٰذا یہ کوئی خاص خطرناک چیز نہیں ہے ۔ حکومت ویسے ہی لوگوں کو ڈرا رہی ہے ۔ عوام کی اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ بشمول کئی ڈاکٹرز کے ابھی تک کرونا کے پھیلنے کے ماڈل کو نہیں  سمجھے ۔ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں ریاضی کے لاگ کے قانون کی مدد لینی پڑے گی ۔ کیسے, آئیے دیکھتے ہیں ۔

آپ نے شطرنج بورڈ کی وہ کہانی تو سنی ہو گی جس میں شطرنج کے کھلاڑی نے بادشاہ سے کہا تھا کہ مجھے انعام دینا ہے تو میرے شطرنج بورڈ کے خانوں میں چاول کے دانے اس طرح رکھیں کہ ہر خانے میں چاول کے دانوں کی تعداد ڈبل ہوتی جائے ۔ یعنی پہلے خانے میں ایک دانہ , دوسرے میں دو , تیسرے خانے میں چار دانے , چوتھے خانے میں آٹھ اور اسی طرح ہر خانے میں ڈبل کرتے جائیں ۔ بادشاہ نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں  ہے ۔ لیکن جب حساب لگانے بیٹھے تو معلوم ہوا کہ اگر ساری دنیا کے چاول بھی اکٹھے کر لیے جائیں تو سارے خانے پُر نہیں  ہوں گے ۔ کرونا کے پھیلنے کا ماڈل بھی اسی طرح ہے ۔ کیسے؟

اب تک کے ڈیٹا  کے مطابق یہ وائرس ہر مریض سے آگے دو لوگوں کو لگتا ہے ۔ دوسرے کرونا کا اوسط انکوبیشن پیریڈ سات دن یعنی ایک ہفتہ ہے ۔ مطلب اگر کسی کو یہ وائرس لگ جائے تو یہ خاموشی سے جسم کے اندر اپنی افزائش کرتا رہتا ہے اور بیماری کی علامات ایک ہفتے بعد ظاہر ہوتی ہیں ۔ ایک ہفتہ انکوبیشن پیریڈ کا مطلب یہ ہوا کہ اگر لوگوں نے گھر سے باہر جانا جاری رکھا تو ہر ہفتے کرونا کے مریضوں کی تعداد ڈبل ہوتی جائے گی ۔

پاکستان میں فروری کے دوسرے ہفتے میں کرونا کے پہلے مریضوں کا پتہ لگا تھا ۔ فرض کریں اس وقت صرف ایک مریض تھا ۔ اس حساب سے فروری کے تیسرے ہفتے میں دو مریض ہوں گے اور چوتھے ہفتے میں چار ۔ آگے چلیں تو مارچ کے پہلے ہفتے میں آٹھ مریض , دوسرے میں سولہ , تیسرے میں بتیس , چوتھے میں چونسٹھ اور اپریل کے پہلے ہفتے میں صرف ایک سو اٹھائیس مریض بنتے ہیں۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے بھول جائیں کہ حقیقت میں پاکستان میں اس وقت تین ہزار مریض ہیں اور فرض کریں کہ اس وقت صرف ایک سو اٹھائیس مریض ہیں اور اپنی گنتی جاری رکھیں تو اپریل کے دوسرے ہفتے میں 256 مریض , تیسرے میں 512 اور چوتھے میں 1024 مریض ہوں گے ۔ بظاہر لگ رہا ہے کہ فروری سے لے کر اپریل کے آخر تک ڈھائی مہینے یا دس ہفتوں میں صرف ہزار مریض ہونا کوئی خاص خطرے والی بات نہیں  ہے ۔ ریاضی کے لاگ ٹو کے قانون کے مطابق دو کی طاقت دس یعنی 10^2 سے بھی جواب 1024 ہی آتا ہے ۔ مطلب اگر صرف ایک مریض سے شروع کریں اور ہر مریض سے آگے دو لوگوں کو وائرس لگے تو ڈھائی مہینے بعد بھی صرف 1024 مریض ہوں گے ۔

اب ریاضی کے اسی لاگ ٹو کے قانون سے حساب آگے بڑھائیں تو دس ہفتے میں ایک ہزار مریض , پندرہ ہفتوں میں  32 ہزار مریض , بیس ہفتوں میں ایک ملین , پچیس ہفتوں میں 34 ملین اور اٹھائیس ہفتوں میں دو سو ساٹھ ملین یا چھبیس کروڑ مریض بنتے ہیں  ۔ پاکستان کی ٹوٹل آبادی بائیس کروڑ ہے ۔ اگر فروری میں صرف ایک مریض ہو تو اٹھائیس ہفتے یا سات ماہ بعد پاکستان کا ہر فرد کرونا کا مریض ہو گا ۔ یاد رکھیں ان سات ماہ میں ویکسین کے آنے کا کوئی چانس نہیں  ہے اور اگر آ بھی گئی تو پہلے امریکہ اور یورپ کو پوری کی جائے گی , پاکستان کی باری اگلے سال تک بھی شاید ہی آئے ۔

لاگ ٹو کا حساب مشکل نہیں  ہے لیکن شطرنج والی مثال میں بادشاہ کو بھی فوراً سمجھ نہیں  آئی تھی لہٰذا اوپر والے پیراگراف کو دوبارہ پڑھیں اور کیلکولیٹر لے کر چیک کریں کہ نمبر ٹھیک ہیں یا نہیں  ۔ جو لوگ حیران ہو رہے تھے کہ یہ یکدم اٹلی , جرمنی , فرانس , انگلینڈ اور امریکہ میں کیا ہو گیا کہ کرونا سے اتنی اموات شروع ہو گئیں , انہیں اب ریاضی کی مدد سے اس کا جواب سمجھ آ جانا چاہیے ۔ ان ملکوں نے لاک ڈاؤن کرنے میں دیر کر دی تھی ۔ اگر پاکستانیوں نے بھی گھر سے نکلنا بند نہ کیا تو کوئی وجہ نہیں  ہے کہ دو مہینے بعد پاکستان میں بھی ہر جگہ لاشیں نظر نہ  آ رہی ہوں ۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گرمی آنے سے وائرس مر جائے گا ۔ لیکن اس کی کوئی سائنسی دلیل نہیں  ہے ۔ کرونا وائرس 57 ڈگری پر جا کر مرتا ہے ۔ پاکستان میں اتنا ٹمپریچر نہیں  ہوتا ۔ اگر بالفرض کرونا کم درجہ حرارت پر بھی مرتا ہو تو چلو باہر گلی میں دھوپ پڑے گی تو وائرس مر جائے گا لیکن انسان تو عمارتوں کے اندر ہی رہیں گے , ان کے جسم کا درجہ حرارت تو 37 ڈگری ہی رہے گا ۔ اس پر تو وائرس نہیں  مرتا ۔ ہاں اگر انسان کے جسم کا درجہ حرارت 42 ڈگری ہو جائے تو انسان خود مر جاتا ہے ۔ مطلب گرمیوں میں باہر جو مرضی درجہ حرارت ہو ،انسان تو عمارتوں کے اندر ہی رہیں گے اور وائرس ان کے جسم کے اندر پلتا ہے ۔ عمارتوں میں موجود انسان گرمیوں میں بھی ایک دوسرے کو وائرس  سے متاثر کرتے  رہیں گے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب اگلا سوال یہ ہو گا کہ اگر سارے پاکستان کو بھی وائرس لگ جائے تو بھی صرف پانچ فیصد لوگ مریں گے ۔ اس کے جواب کے لیے آپ کو 1920 میں پھیلنے والے سپینش فلو کو دیکھنا پڑے گا جس میں پانچ کروڑ سے زیادہ لوگ مرے تھے ۔ تحقیقات کے مطابق صرف فلو سے زیادہ لوگ نہیں مرے تھے بلکہ بہت زیادہ لوگوں کے بیمار ہونے اور ادویات کی کمی کی وجہ سے بہت ساری دوسری بیماریاں پیدا ہو گئی تھیں جسے میڈیکل کی زبان میں سیکنڈری انفیکشن کہا جاتا ہے ۔ سپینش فلو میں زیادہ تر اموات بہت زیادہ مریضوں کے ہونے , صفائی کی کمی اور سیکنڈری انفیکشن سے ہوئیں ۔ اگر خدانخواستہ پاکستان میں بھی کئی کروڑ لوگ بیمار ہو جاتے ہیں تو نہ تو ملک کے ہسپتالوں میں اتنی جگہ ہے اور نہ ہی ملک میں اتنی دوائیاں ہیں ۔ زیادہ تر ادوویات باہر سے آتی ہیں اور جو ملک میں بنتی ہیں ان کے کیمیکل بھی زیادہ تر باہر سے ہی آتے ہیں ۔ ایسے حالات میں کوئی ملک کسی کو ادویات یا ان کے کیمیکل نہیں  دیتا ۔ ابھی کل ہی جرمنی نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ نے ان کے دو لاکھ فیس ماسک چوری کر لیے ہیں ۔ یہ ماسک جرمنی نے اپنی پولیس کے لیے خریدے تھے لیکن امریکی حکومت نے جہاز کو آدھے راستے سے واپس بلا لیا کہ ان ماسک کی امریکہ کے اندر زیادہ ضرورت ہے ۔ جب دو قریبی ملکوں کا یہ حال ہے تو سوچیں پاکستان کو کون پوچھے گا ۔ ایسے حالات میں اگر چند کروڑ لوگ بھی کرونا میں مبتلا ہو گئے تو نہ تو انہیں کوئی ہسپتال ملے گا نہ دوائی ۔ لوگ سڑکوں پر تڑپ کر جان دیں گے ۔ اس سے مزید بیماریاں اور انارکی پھیلے گی اور امن و امان کی صورتحال بھی مخدوش ہو جائے گی جس سے مزید ہلاکتیں ہوں گی ۔ کرونا کو ڈینگی کی طرح نہ سمجھیں جو مچھروں سے پھیلتا تھا ۔ مچھروں کو مار دیا گیا اور ڈینگی کنٹرول ہو گیا ۔ کرونا انسانوں سے پھیلتا ہے اور انسانوں کو مارا نہیں  جا سکتا ۔ لہٰذا وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھیں ۔ ہر طرف سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے پاس کرونا کو روکنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے کہ گھروں سے باہر نہ نکلیں ۔ اسے نہ تو اپنی جہالت کی بھینٹ چڑھائیں اور نہ ہی انا اور سیاست کا مسئلہ بنائیں ۔ بلکہ خاموشی سے گھروں میں رہیں ۔ الله ہم سب کو اور ہمارے پیاروں کو اپنے حفظ امان میں رکھے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply