• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان میں خفیہ جنسی فلموں کا بطور ہتھیار استعمال/امتیاز احمد

پاکستان میں خفیہ جنسی فلموں کا بطور ہتھیار استعمال/امتیاز احمد

یہ تقریبا تین برس پہلے کا واقعہ ہے۔ رات تقریبا ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ دو نوجوان سے لڑکے سائیکل پر آئے، ایک دم کان سے لگا موبائل چھینا اور بھاگ گئے۔

 

 

 

 

میں جب سے جرمنی آیا ہوں، میں نے پہلی مرتبہ اس طرح موبائل چھیننے کا واقعہ سنا تھا، جو میرے ایک دوست کے ساتھ پیش آیا تھا۔ دوست پولیس کے پاس گیا اور پولیس نے کہا کہ رپورٹ درج ہے، باقی ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ دوست نے کہا آپ میرے موبائل کی لوکیشن دیکھیں، موبائل مل جائے گا۔

آگے سے جرمن پولیس کا جواب اس سے بھی دلچسپ تھا۔ پولیس افسر کا کہنا تھا کہ کسی کی نجی لوکیشن جاننا یا یہ پتہ کرنا کہ وہ اس وقت کہاں ہے؟ قانوناً  جرم ہے!

ہم صرف دو صورتوں میں ایسا کر سکتے ہیں، ایک اگر مطلوبہ شخص کی اپنی جان کو خطرہ ہو یا پھر وہ کسی دوسرے کی زندگی کے لیے خطرہ ہو اور ان دو صورتوں میں بھی عدالت سے پہلے اجازت لینا ہوتی ہے، لہذا آپ کے موبائل کے لیے ہم نجی زندگی کے لیے بنائے گئے ان قوانین کو نہیں توڑ سکتے۔

میں حیران تھا کہ ایک شخص کی نجی زندگی، چاہے وہ چور ہی کیوں نہیں، کس قدر محفوظ ہے۔ کسی کا خوف اور ڈر نہیں کہ کل کلاں کو اسے کوئی بلیک میل کرے گا۔ میرے لیے یہ بات بالکل نئی تھی، پاکستان میں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لوگوں کے بیڈرومز کے اندر تک خفیہ کیمرے لگا رکھے ہیں اور اس کی مثال حالیہ چند برسوں میں پے در پے سامنے آنے والے جنسی اسکینڈلز ہیں۔

مجھ سے کوئی ثبوت مانگے گا تو میرے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ ایسی ریکارڈنگز کس کے کہنے پر ہوتی ہیں اور کون کرتا ہے لیکن ہائی پروفائل جنسی خفیہ ریکارڈنگز سکیورٹی اداروں کی استعداد اور مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتیں۔

پاکستان میں اب واضح طور پر پر نجی جنسی معاملات کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں، ججوں اور دیگر اہم شخصیات کو بلیک میل کرنے، انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانے، سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے، اپنی مرضی کے عدالتی فیصلے کروانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ سلسلہ پنجاب میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی نیم برہنہ تصاویر ہیلی کاپٹروں سے پھینکنے سے شروع ہوا تھا اور آج تک جاری ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے شہباز شریف صاحب کو لاہور سے پکڑا تھا، تو خبر جمہوریت کا خاتمہ نہیں تھی بلکہ خبر یہ چلوائی گئی کہ ان کے کمرے سے بہت سے “سیکس ٹوائز” بھی برآمد ہوئے ہیں۔

اس کے بعد وقفے وقفے سے محترمہ کشمالہ طارق سمیت متعدد سیاستدانوں کی نجی گفتگو لیک ہونے کے واقعات پیش آئے۔

کسی بھی شخص کی نجی گفتگو ریکارڈ کرنا یا نجی لمحات کی ویڈیو بنانا نا  صرف مذہبی، اخلاقی بلکہ قانونی طور پر بھی جرم ہے لیکن پاکستان میں یہ جرم اب کھلے عام ہونے لگا ہے اور کسی قسم کی کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے۔

اس کا دوسرا اندوہناک پہلو یہ ہے کہ عوام، سماج اور دیگر سیاسی حلقوں میں اس کی مذمت کی بجائے، اسے قبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ ملک کے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو براہ راست دھمکی دیتے ہیں کہ آپ کی کچھ ویڈیوز ہمارے پاس موجود ہیں۔

مریم نواز جیسی سیاست دان کہتی ہیں کہ ان کے پاس کسی کی خفیہ ویڈیوز ہیں۔ جج یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ انہیں مجبور کیا جاتا ہے۔ صحافی اس بات پر سوال اٹھانے کی بجائے کہ ویڈیوز یا آڈیوز ریکارڈ کیسے ہوئیں؟ یہ آئینی خلاف ورزیاں کرنے والا کون ہے؟ ان ویڈیوز یا آڈیوز پر پروگرام کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ کوئی سوال ہی نہیں اٹھا رہا کہ ایسا کر کون رہا ہے، اس کے معاشرتی و سماجی اقدار پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہ روش آگے چل کر نئی نسل کے کردار کو کس طرح مسخ کرے گی اور معاشرے میں کتنی پیچیدگی جنم لیں گی؟

جوابدہی اُن کی ہونی چاہیے، جو ریکارڈنگز میں ملوث ہیں لیکن کٹہرے میں ان کو کھڑا کیا جا رہا ہے، جن کی ریکارڈنگز ہو رہی ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس ٹرینڈ کی انتہا کیا ہوگی؟

اس ٹرینڈ کی انتہا یہ ہوگی کہ لوگوں کے بستروں کی ویڈیوز عام ہو جائیں گی، کچھ لوگ شرمندگی سے خودکشیاں کریں اور زیادہ تر بلیک میل ہوں گے۔ اگر معاشرتی تعمیر کی بات کی جائے تو ریاست ہمیشہ سے مثالی کردار ادا کرتی ہے لیکن پاکستان میں الٹی اینٹیں لگائی جا رہی ہیں۔

افسران خود آئین شکنی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عوام آئین کی پاسداری کریں، عدالتیں خود من مانی تشریحات کرتے ہوئے متضاد فیصلے سناتی ہیں اور عوام سے انصاف پسند ہونے کا مطالبہ کرتی ہیں، سیاستدان خود مفاد پرست اور جھوٹے ہیں اور عوام سے کہتے ہیں کہ سچ کا ساتھ دینا ہے، پولیس خود قانون توڑتی ہے اور عوام سے کہتی ہے کہ ریڈ لائٹ پر کھڑے رہنا ہے۔

جہاں جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کا قانون ہو، جہاں عزت اور انصاف صرف طاقتور اور سرمایہ دار کو ملے، وہاں امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ جو ادارے خود مثال نہیں ہیں، وہ عوام کے لیے کیسے مشعل راہ ہوں گے؟

خفیہ ریکارڈنگز، جنسی فلمیں یہ سب فاشسٹ حکومت کا طرز عمل ہے۔

پاکستان میں حریم شاہ صاحبہ اعلان کرتی ہیں کہ وہ شہباز شریف کی ویڈیو ریلز کریں گی تو انہیں سراہا جاتا ہے، مریم نواز قریبی صحافیوں کو ویڈیوز کا بتاتی ہیں، تو یہ بریکنگ نیوز بن جاتی ہے، پرویز رشید صاحب اختلاف کریں تو ان کی نجی ویڈیو جاری ہو جاتی ہے، اعظم سواتی بولیں تو ان کے کمرے کے پردے اٹھا دیے جاتے ہیں، محمد زبیر صاحب کے ہوٹل کی ویڈیو وائرل کروا دی جاتی ہے۔

آپ ڈیٹا اٹھا کر دیکھ لیں، گزشتہ چار برسوں میں سب سے زیادہ سیاستدانوں کو بلیک میل کرنے کی کھلے عام ایسی حرکتیں پاکستان میں کی گئی ہیں۔ کیا ایک معاشرے میں ایسا ہونا نارمل ہے؟

اب صحافی منیب فاروق صاحب نے بتایا ہے کہ عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کا موبائل اور کمرے کی ڈیوائسز ہیک ہوئی تھیں اور ایسی ریکارڈنگز کے سامنے آنے سے عمران خان کو مزید بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔

آج کل عمران خان کا شخصی بت توڑنے کے لیے پھر انہی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جا رہا ہے، جو کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف استعمال کیے گئے تھے۔ پہلے ریحام خان کو اتارا گیا، پھر بارہ تیرہ برس پہلے کی آڈیوز ریلیز کی گئیں اور اب ان خواتین کو ٹی وی پر لایا جا رہا ہے، جن کا مبینہ طور پر کبھی عمران خان صاحب سے کوئی تعلق رہا ہے۔

سیاست میں یہ تو صرف درجن بھر واقعات ہیں، جو سامنے آئے ہیں، آپ اندازہ لگائیں کہ جو سیاستدان، ناقدین، جج، وکیل اور صحافی اچانک سے خاموش ہو جاتے ہیں، ان کو کیسے بلیک میل کیا جاتا ہوگا؟

آپ ان واقعات سے پاکستانی سکیورٹی اداروں کی ذہنی پسماندگی کا اندازہ لگائیے کہ انہوں نے جنگل کا قانون نافذ کیا ہوا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جنگل کے بھی کچھ قانون ہوتے ہیں، کچھ ضوابط ہوتے ہیں، یہاں تو لاقانونیت کی انتہا ہے۔

پاکستان کے عوام بھی اسی ڈگر پر ہیں، ہر دوسرے روز کسی کی خفیہ جنسی ویڈیوز سرعام آنے کی پیغامات موصول ہو رہے ہوتے ہیں۔ نجی جنسی فلموں کا ایک نیا ٹرینڈ ہے، جو دن بدن پروان چڑھ رہا ہے۔

مجموعی طور پر یہ ہمارےاخلاقی زوال کی انتہا ہے۔ یہ خفیہ جنسی ویڈیوز اور آڈیوز پاکستانی عوام کے اخلاقی انحطاط اور تاریک مستقبل کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ ہم وہی کاٹیں گے، جو آج بو رہے ہیں، عوام اسی ڈگر پر چلیں گے، جو آج ریاستی اداروں نے اختیار کر رکھی ہے۔

جو سلسلہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کُشی کے لیے شروع کیا گیا تھا، آج اپنے عروج پر ہے۔ آنے والے دنوں اور برسوں میں آپ دیکھیے گا، ہر طرف برہنہ اجسام اور لیکس ہی لیکس ہوں گی۔

جس طریقے کو ریاست ہتھیار بنا لے، وہ طریقہ عوام میں بھی بڑی جلدی پروان چڑھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بس اپنی اپنی باری کا نتظار کیجیے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply