حس اور بے حس/ڈاکٹر اظہر وحید

حس ہوتے ہوئے بے حس ہو جانا ایسے ہی ہے جیسے شرم و حیا کے ہوتے ہوئے بے حیا ہو جانا۔ حدیثِ پاک میں ہے “جب تو حیا کو کھو دے تو جو جی چاہے کر” اللہ اللہ! “جو جی چاہے کر” کے الفاظ دراصل جلالِ الٰہی کا تازیانہ ہے۔ مراد یہ ہے کہ پھر تیرے کسی عمل کے ہم ذمہ دار نہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ …… پھر تیرے کسی عمل کی شفاعت ہم پر واجب نہ رہی۔ یااللہ! معاف فرما دے …… ہماری حیا ہمیں واپس لوٹا دے۔ غزہ کے مظلوم بچے بوڑھے صبح و شام خاک و خون میں نہا رہے ہیں، اور ہم ہیں کہ بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہے ہیں۔ یہ بے حسی نہیں، بے حیائی ہے۔ یہ بے وفائی ہے۔ کلمے سے، اسلام سے، مسلم امہ سے، اور جس کے نام کا کلمہ ہے، اس سے بے وفائی ہے۔ یہ بے وفائی بھی نہیں بلکہ سیدھی اور صاف سپاٹ غداری ہے۔ غداری کے مفہوم کو مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے خوب سمجھایا: “ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کر ترجیح دینا۔” دراصل مسلمان سب کے سب ایک ہی ملک ہیں۔ الگ نام اور جھنڈے انتظامی تقسیم ہے۔ جس نے کلمہ پڑھ لیا، کلمہ تسلیم کر لیا، وہ ایک ہی مملکت کا حصہ ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا ہے تو یہ دیکھ لیں کہ یہود کی آنکھ سب مسلم ریاستوں کو کیسے دیکھتی ہے۔ ان کی نظر میں ہم سب اس کے دشمن ہیں۔ خواہ فلسطینی ہو، شامی ہو، عراقی ہو یا ایرانی— ہم ان کی نظر میں دشمن ریاستیں ہیں۔ انسانوں میں رنگ و نسل کی تقسیم ہے ہی نہیں ……تقسیم صرف نظریاتی ہے۔ ایک نظریے والے ایک قوم ہیں، دوسرے دوسری قوم۔ ہمارا فکری قبیلہ ہی ہماری پہچان ہوتا ہے۔ جن کی فکر کا قبلہ ایک ہے، وہ ایک ہی قوم قبیلہ ہے۔ قرآن گواہ ہے…… ارشاد ہے کہ جب تک تم ان کی پیروی نہ کرنے لگو، یہ تمہارے دوست نہیں ہوں گے۔ اب ان سے “دوستی” کی قیمت اگر اسلام اور ایمان سے مراجعت ہے تو یہ قیمت ہم تو ادا کرنے سے رہے۔ یہاں پہنچ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی مفاد میں ملی مفاد شامل ہے۔ کلمہ ہے تو ملک ہے۔ کلمے سے بے وفائی کرنے جلد یا بدیر ملک سے بھی بے وفائی کرے گا۔ تاریخ شاہد ہے۔

عجب بے حسی ہے۔ ہمارے کلمہ گو بھائی بہنوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، اور ہم گھروں میں اپنی معمول کی زندگی، معمول کے معمولات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے کھانے پینے کی روٹین میں کوئی فرق آ رہا ہے، نہ ہماری روز مرہ دلچسپیوں میں کوئی خلل واقع ہو رہا ہے۔ یہ ایک ٹیسٹ تھا، بہت بڑا ٹیسٹ …… اور بدقسمتی سے ہم اس ٹیسٹ میں بہت بری طرح فیل ہو چکے ہیں۔ طاقت کا بھیڑیا دیکھتے ہی دیکھتے ایک بھیڑ نگل چکا ہے، اور باقی بھیڑیں اپنی چراگاہوں میں خوش آشام اپنے اپنے قطعہ زمین میں گھاس پھونس چر رہی ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں آواز اٹھانے کا کوئی حق نہیں۔ ہمارے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں کہ ہم سرحد پار کسی ظالم کو ظلم سے باز رہنے کی تلقین کریں۔ ہم اپنی حدود سے باہر کسی فسطائیت پر انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ باہر والے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ تم اپنے ہاں فسطائیت رائج کیے بیٹھے ہو، ہمیں کس منہ سے جمہوری اقدار کا سبق دیتے ہو۔ وہ کہنے میں قطعی حق بجانب ہیں کہ تم اپنے ہاں انسانی حقوق بحال کر لو، پھر ہمیں درس دینا۔ سچ ہے، وہ عوام جو اپنے ہاں آمروں کو قبول کیے بیٹھی ہے، وہ باہر کے فرعونوں کو کیسے للکار سکتی ہے۔

ہمیں نئے سرے سے جائزہ لینا ہوگا، پانی کہاں مر رہا ہے۔ کیا اپنے ہاں انسانی اقدار رائج کیے بغیر ہم کسی کو اسلامی اقدار کی تعلیم کر سکتے ہیں؟ اسلام جو دینِ فطرت ہے، جس کے اصول فطری ہیں، جو اقوامِ عالم کے لیے حریتِ افکار، آزادی اظہار اور اخلاقی اقدار کا پیام ہے، اس کی روح کو پامال کرنے کے بعد ہم کہاں تک اس کے علم بردار بن سکتے ہیں؟ ہمیں نئے سرے سے جائزہ لینا ہو گا، ہم اس گدھے کی طرح تو نہیں ہو گئے جس پر کتابوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ ہمارے قول اور عمل میں فرق کہاں اور کیسے واقع ہو رہا ہے۔ کیا یہ ایمان کی کمی ہے جو عمل کی کمی پر منتج ہو رہی ہے۔ کیا یہ ظاہر پرستی ہے جو ہمیں تن پرستی کی طرف مائل کر چکی ہے؟ کیا دین کی روح کو سمجھے بغیر اسے دوسروں کو سمجھانے کی آرزو ہمیں اندر سے کمزور کر رہی ہے؟ کیا اپنی روح کو بیدار کیے بغیر ہم کسی روحانی پیغام کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہیں؟ کیا ہماری پروپیگنڈہ میں تبدیل ہو کر تو نہیں رہ گئی، جو دماغ کے کان تو سنتے ہیں لیکن دل کے کان نہیں سن پاتے۔ کیا خود غرضی نے ہمیں اپنے اپنے مفادات کے بندی خانوں میں اسیر نہیں کر دیا؟ کیا لذاتِ کام و دہن کی مشغولیات نے ہمیں بے حس بنا دیا ہے؟ کیا اپنی کھال بچانے کے چکر میں دوسروں کی کھال اتارنے والی قوم بن چکے ہیں؟ کیا اپنی حسیات کی حفاظت میں ہم دوسروں کے لیے بے حس ہوتے جا رہے ہیں؟

لازم ہے کہ احساس کو جگایا جائے۔ دل میں درد کو بیدار کیا جائے۔ ایک دوسرے کے لیے دل میں جگہ پیدا کی جائے۔ اہلِ اسلام کی خدمت ہی اسلام کی خدمت ہے۔ ایک مسلمان کو رسوا ہونے سے بچانا ہی اسلام کی سربلندی کا عزم ہے۔ جس نے اپنے کلمہ گو بھائی کی عزت کو پامال ہوتے دیکھا اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہا، اس نے درحقیقت توہینِ اسلام ایسے جرم کا ارتکاب کیا۔ کیا ہم دیکھتے نہیں کہ ایک ملک کے شہری کی عزت اچھالنے کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ اس ملک کی عزت پر کیچڑ اچھالا گیا ہے، اس حرکت پر وہ ملک حرکت میں آ جاتا ہے۔

دینِ اسلام کے علم بردارو! اسلام اور مسلمان کو ایک دوسرے سے جدا نہ کرو…… مسلمانوں کو اسلام سے خارج نہ کرو، اسلام کو مسلمانوں سے علیحدہ نہ کرو۔ زبان سے کم اور کردار سے زیادہ تبلیغ کرو…… دوسروں کو سنوارنے سے پہلے خود کو سنوارو…… اپنے باطن کو اتنا روشن کرو کہ اندر کی روشنی وجود کے چلمن سے چھن چھن کر باہر آنے لگے…… یہ روشنی چلتی پھرتی تبلیغ ہے۔ رحماء بینھم کی تفسیر بن جاؤ…… اشدْ علی الکفار کی شمشیر بن جاؤ!! اسلام دینِ وحدت ہے…… اپنے اندر وحدت پیدا کیے بغیر ہم کون سے “اسلام” پر کاربند ہونے جا رہے ہیں۔ اسلام کی جدا جدا تعبیریں نہ کرو…… اسلام ایک خواب نہیں جو تعبیر کا محتاج ہو۔ اسلام ایک زندہ، جیتا جاگتا، ہر حال میں قائم رہنے والا، ہر دور میں قابلِ عمل قانونِ فطرت ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اسلام پر پیدا ہوتا ہے…… بس تفکر کی ضرورت ہے…… دین میں مکمل ہدایت موجود ہے…… انفرادی بھی اور اجتماعی بھی…… بس تدبر کی ضرورت ہے۔ بھاگتے ہوؤں کو توقف کی ضرورت ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے…… فطرت سے فرار ہونے والے بالآخر واپس فطرت کی طرف لوٹ کر آئیں گے۔ یہ پیغام پوری انسانیت کے لیے ہے، اس لیے انسانی اقدار کی ترویج اس کی بہترین تبلیغ ہے۔

ایک مرتبہ سرکارِ دوعالمؐ اپنے اصحاب کو غیبت کے بارے میں تعلیم فرما رہے تھے کہ غیبت سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے کسی بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی خامی کا ذکر اس طرح کرو کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے برا محسوس ہو۔ اصحاب نے دریافت کیا کہ اگر وہ برائی اس میں واقعی موجود ہو تو بھی؟ ارشاد فرمایا کہ تب ہی تو غیبت ہے، اگر وہ برائی اس میں موجود نہ ہو تو پھر یہ بہتان ہوگا۔ کسی نے کہا کہ اگر ہم اس کے منہ پر اس کی برائی بیان کر دیں؟ فرمایا: یہ بے حیائی ہے۔ گویا حیا کا تعلق بنیادی اخلاقی اقدار سے ہے، ہم نے اسے لباس کی تراش تک محدود کر لیا ہے۔ اخلاق سے محروم بے حیا ہوتا ہے، خواہ اس کے لباس کی وضع و پیمایش دینی اقدار کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ بے حس ہونا بنیادی انسانی اخلاق سے بے بہرہ ہونے کی دلیل ہے۔ بے حسی ایک حد سے بڑھ جائے تو بے حیائی میں بدل جاتی ہے…… اور بے حیائی کہیں قابلِ قبول نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بے حسی انسان کے دل کو مردہ اور روح کو پڑمردہ کر دیتی ہے۔ ایسے میں انسان صرف جسم کی حسیات کی سطح پر زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کا احساس مردہ ہو جاتا ہے۔ وہ ظلم ہوتے ہوا دیکھتا ہے اور خاموش رہتا ہے۔ ظلم پر خاموش رہنے والا ظالم کا خاموش ساتھی ہوتا ہے۔ لازم ہے کہ احساس کو جگایا جائے، مظلوم و محروم کا احساس کیا جائے۔ اس کے حق میں آواز اٹھائی جائے، ظالم کو ظلم سے روکا جائے۔ ہاتھ کی طاقت سے روکا جائے، اگر یہ طاقت مفقود ہو تو از روئے حکم زبان سے روکا جائے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے: “جسے احساس نہ جگائے، اسے کون جگائے۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply