puss/pain

ایک ڈاکٹر دوست ہے خدمت خلق پر ایمان رکھتا ہے. وہ اپنی سرگزشت میں فرماتے ہیں کہ میں نے فیصلہ کیا کہ خدمت خلق کرنی ہے اور کافی ریسرچ کے بعد فیصلہ خیبر پختونخواہ کے ایک دور دراز علاقہ اورکزئی کے حق میں ہوا.
اورکزئی وہ علاقہ ہے جہاں پشتو ہی اسلام ہے اگر آپ نے اسلام میں پشتو دیکھنے کی بات کی تو اس کے لئے پشتو میں بہت برا لفظ ہے. لہذا خواتین کو کسی مرد ڈاکٹر کے پاس لیکر جانا ایک بےغیرتی سمجھی جاتی تھی ۔ کہنے لگا کہ میں نے ڈگریاں ساری گھر کی الماری میں مقفل کردیں اور دماغ لیکر علاقہ غیر کی طرف عازم سفر ہوا. گاؤں کے بازار میں دو دکانیں کرایہ پر لے لیں۔ ایک دکان جسے کنسلٹینسی روم کے طور رکھا اور ساتھ دوسری دکان میں ایک کمپاؤڈر کو رکھا. دو مہینے تک پریکٹس اچھی رہی مگر ایک بھی خاتون نہیں آئی. ایک دن کمپاؤڈر کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ مسئلہ کیا ہوا ہے. بتایا کہ بیگم کی حالت دن بدن بگڑتی جارہی ہے سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں. میں نے غصے اور حیرت سے اسے دیکھا کہ لے آؤ میں دیکھتا ہوں کہ کیا مسئلہ ہے، مگر جواب حسب معمول کہ ڈاکٹر صاب ایسے مرد کیلئے پشتو میں بہت برا لفظ ہے جس کی بیوی کو غیر مرد دیکھے.
بالآخر سمجھانے بجھانے پر وہ بیگم لے آیا۔ جب معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ ٹائیفائیڈ کا کیس ہے ادویات لکھ کر دیں، انجکشنز دئیے، کچھ دنوں کے بعد بھلی چنگی ہوگئی اور علاقے میں میری تشہیر ہوگئی کہ ایک بندہ ہے جو ہر بیماری, جن اور جادو کا علاج کرتا ہے.
پھر کیا تھا گھروں میں خواتین نے مردوں کو مجبور کیا کہ ڈاکٹر صاب کے پاس جانا ہے۔ مگر مجھے حیرت صرف ایک بات پر ہوتی تھی کہ کاک شٹل میں ایک ہی قسم کی مخلوق آتی تھی مگر اس کے ساتھ مرد مختلف ہوتے تھے. سال بعد دیکھا کہ ایک مرد جس نے کلاشنکوف کی پیٹی باندھی ہوئی اور کلاشنکوف ہاتھ میں لیئے، چہرے پر سختی اور آنکھوں سے غیض و غضب ٹپکاتا ہوا دندناتا ہوا کلینک میں گھس آیا اور للکارا کہ ڈاکٹر ہم تم کو چھوڑے گا نہیں تم نے امارے ساتھ دشمنی کیا ہے. میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ یا اللہ میں نے تو آج تک کبھی کسی کے بارے میں برا سوچا بھی نہیں تو یہ سب کیوں………. میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ جناب کیسی دشمنی؟ اسلحہ بردار گرجا کہ تیرے پاس میری بیوی علاج کیلئے آئی تھی. میں گھبرا گیا کہ جناب ہوسکتا ہے آئی ہوگی، کاک شٹل میں ساری خواتین آتی ہیں اور میں نے آج تک کسی کی شکل تک نہیں دیکھی ہے آپ قسم لے لو بھائی. اس بندے نے میری بات کاٹ دی اور کہا آپ کے پاس فلاں کی بیوی بھی علاج کیلئے آئی تھی وہ میرا دشمن ہے…… بالآخر زچ ہوکر پوچھا کہ جناب آئی ہوگی اس میں میری غلطی کہاں ہے. مرد نے خونخوار نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا تم ذمہ دار ہو میرے گھر بیٹی ہوئی ہے اور میرے دشمن کے گھر بیٹا ہوا ہے۔
زندگی یوں ہی گزر رہی تھی کہ ایک دن میاں بیوی کلینک میں آگئے۔ برقع میں ملبوس خاتون درد سے کراہ رہی تھی اور مسلسل ہل رہی تھی. میں نے مرد کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے جھٹ سے میرے ہاتھ میں کاغذ پکڑایا. میں نے کاغذ کو دیکھا تو اس پر کسی اور گاؤں کے کمپاؤڈر نما ڈاکٹر نے جلی حروف میں جو لکھا تھا میرے سر پر گویا بم گر گیا کہ اللہ غرق کرے میرے پاس بھجنے کی کیا ضرورت تھی. پرچی پر لکھا تھا‏Patient has sever puss/ pain;
کاغذ میرے ہاتھوں سے گر پڑا کہ اب کیا کروں۔ معاملہ اتنا نازک کہ مسئلے کو دیکھنا تو درکنار میں تو پوچھ بھی نہیں سکتا تھا، کیونکہ قبائلی روایات میں اسکی سزا صرف موت نہیں پورے خاندان کی موت ہوتی ہے. میں کرسی دو فٹ پیچھے لے گیا اور ماتھے پر پسینہ نمودار ہو گیا، چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی. میری حالت دیکھ کر اس خاتون کا شوہر بھی پریشان ہوا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر بولا کہ ڈاکٹر صاب کیا مسئلہ بہت زیادہ خطرناک ہے؟ یہ کہنا تھا کہ برقعہ میں لپٹی خاتون سسکیاں مارنے لگیں. میں نے ہمدردی سے پوچھا کہ مسئلہ کب سے ہے؟ اس کے شوہر نے بتایا کہ ایک مہینہ ہوگیا ہے اور مسلسل پانی بہہ رہا ہے آپ دیکھ لیں خود ہی… میں نے چیخ ماری اور دوسری طرف کرسی گھما لی کہ نہ نہ نہ دکھائیں مت بس بتاتے جائیں. کہنے لگا کہ یہ پوری رات سو نہیں سکتی اس تکلیف کیوجہ سے، خون بھی نکل رہا ہے، آپ خود دیکھ لو نا…… میں نے پھر چیخ ماری کہ نہیں یہ میری بہن ہے نہیں دیکھ سکتا۔ مجھے مسئلہ معلوم کرکے اسے کوہاٹ کے کسی ہسپتال کے گائنی کے پاس ریفر کرنا تھا سو پھر پوچھا کہ بچے کتنے پیدا کئے ہیں. شوہر نے جواب دیا کہ گیارہ، ڈاکٹر آپ خود ہی دیکھ لو نا……. میں نے ترچھی نگاہ سے جب اسے دیکھا تو مرد نے خاتون کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور اسکی انگلی میرے سامنے تھی جس سے خون اور زہریلہ مواد بہہ رہا تھا اور اس میں پس پڑا ہوا تھا۔ سامنے میز پر پڑا کاغذ میرا منہ چڑا رہا تھا یعنی کہ میرا دماغ / کو فورا y سمجھ بیٹھا تھا۔
ایاز نظامی کی گرفتاری کے حوالے سے کچھ تحاریر دیکھ کر لگتا ہے کہ کچھ خواتین و حضرات بھی / کو y ہی سمجھ رہے ہیں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply