• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • 14 جولائی کا فرانس اور ہمارا پاکستان۔۔۔۔روبینہ فیصل

14 جولائی کا فرانس اور ہمارا پاکستان۔۔۔۔روبینہ فیصل

اب جب کبھی بھی انقلاب پڑھنے لگتی ہوں تو مجھے ٹورنٹو میں ہو نے والی پریس کانفرس میں عمران خان سے کیے گئے اپنے سوالات اور وہ لمحات یاد آجاتے ہیں جب انقلاب جیسے خونی لفظ پر خان صاحب نہ صرف مسکرائے تھے بلکہ میرا کچھ مذاق ٹائپ بھی اڑا دیا تھا ، اگر کسی کے پاس اس پریس کانفرس کی ویڈیو محفوظ ہو تو ، وہ قہقوں کا طوفان آج بھی سنا جا سکتا ہے جب خان صاحب نے کہا تھا میں بھی انقلاب کا طالبعلم ہوں ۔ ۔ کیونکہ اس وقت ان کا نعرہ تبدیلی نہیں بلکہ انقلاب ہوا کرتا تھا ۔ ۔ یہ میری خوش فہمی ہے یا وہم مگر اس گفتگو کے بعد لفظ   انقلاب، تبدیلی میں بدل گیا تھا اور جب خان صاحب بقول ان کے انقلاب کے طالبعلم ہو نے کے ناطے پارلیمنٹ ہاؤس پرننھا منا سا حملہ کر تو بیٹھے تھے مگر میرے حساب سے انقلاب ادھورا یا سطحی پڑھنے کی وجہ سے واپس پلٹ گئے تھے اور ان کی انقلابی سوچ ایک خواب ہی رہی اور کہانی مفاہمت اور مصالحت پر ہی آکر رکی ۔ ۔ جتنا زنگ ، پاکستان میں رچ بس چکا ہے ، اس کا علاج یا تو انقلاب ہی تھا اور یا پھر چلنے دیا جاتا جیسے جو چل رہا تھا ۔ مگر خان صاحب نے کچے پکے انقلاب کے ویلنے میں بانہہ  دینی ہی دینی تھی ۔ ایسی مری مکی حالتوں میں نہ انقلاب آتا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی ایکدم سے علاج ہو تا ہے اس لیے  عوام سے صبر کی اپیل ہے کیونکہ جس تبدیلی کی بات خان صاحب ، اپنے جلسوں میں کیا کرتے تھے ، وہ فوری تبدیلی ایک خونی انقلاب کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے جیسا کہ میں نے خان صاحب کو کہا تھا ۔ ۔ اور اگر ایسا انقلاب لانے کی ہمت نہیں تو پھر ایسی ہی تبدیلی کا امکان ہے جو خان صاحب اپنے پو رے خلوص کے ساتھ ملک میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے ان کا سفر طویل اور غیر یقینی رہے گا ۔ ۔ اب وہی بات ہے جو خان صاحب کہتے ہیں ۔ ۔ “گھبرانا نہیں ۔ ”

14 جولائی میری اور دنیا کی تاریخ میں بہت اہم دن ہے ، میرے لیے  تو اس طرح کہ اس دن میں نے خدا کی رحمت ( میری بیٹی علینہ)کا ایک خوبصورت جلوہ اپنے پہلو میں ہمکتے دیکھا تھا ۔ ۔ اور دنیا کے لیے  اس لیے کہ اس دن سن 1789کو فرانس میں شہنشائیت کے خاتمے کی طرف پہلا اہم قدم اٹھایا گیا تھا ۔ جس نے آگے چل کر نہ صرف فرانس بلکہ دنیا کی شکل بدلنے میں اہم کردار کیا تھا ۔

اسی دن ،یعنی 14 جولائی کو ،باستیل کا قید خانہ ایک شہنشائیت کی علامت سمجھا جا تا تھا ۔ جسے فرانس کی عوام نے اپنے غصے ، نفرت اور غم کی حالت میں اپنے قدموں تلے روند ڈالا تھا ۔ ۔ سچ کہتے ہیں بھوکے ننگے لوگوں کے انبوہ میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ وہ اپنے کمزور ہاتھوں سے کسی کا بھی منہ نوچ سکتے ہیں ۔ ۔ حد سے بڑی کمزوری ، بہت بڑی طاقت کا سر چشمہ بن سکتا ہے اگر اس کو مایوسی کی آخری حد تک پہنچا دیا جائے ۔ ۔ امریکہ کی آزادی کی لڑائی میں مدد کے بعد ،فصلوں کی تباہی کے بعد، فرانس کا سرکاری خزانہ خالی اور معیشت انتہائی کمزور ہو چکی تھی ۔ سرکاری خزانہ بھرنے کے لیے تھرڈ سٹیٹ ( عام لوگ )پر بھاری بھر کم ٹیکس لگائے جا رہے تھے ، مہنگائی کا بوجھ ، عوام کے کندھوں پر تھا ، اس کے برعکس فرسٹ سٹیٹ ( چرچ اور پادری وغیرہ ) ، اور سیکنڈ سٹیٹ ( نوبلز ، جاگیردار وغیرہ )ان پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس نہیں ہوا کرتا تھا ۔ ۔ سب بوجھ غریب کے کندھے پر اور سارے مزے اشرافیہ کے لیے  تھے ۔ ۔ کنگ لوئس دوئم اور اس کی مہارانی ، میری اینٹونیٹ ، ( آسٹریا کی شہزادی ) ، جس کی شادی کنگ لوئس آف فرانس سے پندرہ سال کی عمر میں ، فرانس اور آسٹریا کے آپسی سیاسی تعلقات ٹھیک کرنے کے لیے   اس وقت ہوئی جب وہ صرف 14 سال کا تھا ۔

بہر حال ان کا یہ ساتھ ان کی بپھرے عوام کے ہاتھوں ایک دوسرے سے 9مہینے کے وقفے سے1793 میں دونوں کے قتل پر ختم ہوا ، فرانسسیسی انقلاب کے مشہور طریقہ قتل ،guillotine کو اختیار کرتے ہو ئے پہلے بادشاہ اور 9مہینے بعد ملکہ کو مار دیا گیا تھا اور وجہ ملک سے غداری بتائی گئی ، کیونکہ بادشاہ اور اس کی ملکہ آسٹریا اور پرشیا کے ساتھ مل کر فرانس میں اٹھنے والی بغاوت کو کچلنے کی سازشوں کے الزام میں ملوث تھے ۔

14جولائی 1789، جس دن بپھرے ہجوم نے شہنشائیت ، نا انصافی اور غریب کو کچلنے ، آزادی اظہار کو دبانے کی علامت بالسیتاکو تباہ کر ڈالا تھا ۔ یہ دن فرانس میں ایک نئی صبح کا آغاز تھا ۔ ہجوم کا مقصد ، بغاوت کے لیے  قلعے سے ، بارود اور اسلحہ لو ٹنا تھا ۔ ۔ کنگ لوئس اور اس کی ملکہ میری پیرس سے دور ، ایک محل Versailles میں رہتے تھے ۔ آج کے دور میں اور پاکستان میں اس کی جھلک دیکھنی ہو تو ، رائیونڈ محل ،تخت ِ لاہور یا بلاول ہاؤس کی مثال سے فرانس کی230سال پرانی حالت سمجھنے میں مدد ملے گی ، جہاں بادشاہ بڑے بڑے محلات میں پُرتعیش زندگیاں گزارتے تھے اور رعایا روٹی کے لیے بھی ترستی تھی ۔ غریب ہی کے ٹیکس کے پیسوں سے چلنے والا،محل کا شاہانہ طرز ِ زندگی اور عیاشانہ سٹائل ، لوگوں کے اندر نفرت اور غصہ بھرنے کو کافی تھا ۔ ۔ آخر ان کے خون پسینے کی کمائی سے ان کے بچوں تک روٹی تک نہ پہنچے اور ان بادشاہوں کے شاہی لباس ، کھانے اور آرائش پر ہی سب خزانہ خالی ہو جائے ۔ ۔ غیر مساوی سلوک ،غریب اور شاہی خاندان کے درمیان بڑھتا سماجی اور معاشی فرق ، والٹئیر اور اس زمانے کے دوسرے دانشوروں کے لیے  تکلیف کا باعث تھا ۔ انہوں نے بِک کر یا دَب کر غریب کے حق اور اشرافیہ کے خلاف قلم کو روکا نہیں بلکہ اپنے حقوق کی پہچان کروانے ، اس کی خاطر اٹھ کھڑے ہونے میں ، اس زمانے کے قلم کاروں کا بہت اہم کردار ہے ۔ کافی شاپس میں ، چائے خانوں میں لوگ اکھٹے ہو کر اظہار خیال کیا کرتے تھے ۔ ۔ اور کو ئی سچ پوچھے تو انسان جتنا بھی پسِتا جائے ، جتنا بھی مر تا جا ئے ، جتنا بھی دبتا جائے ، اس وقت تک اپنے لیے کھڑا نہیں ہوسکتا جب تک اس میں شعور نہ آجائے اور یہ شعور سماج کا دانشور ، پڑھا لکھا طبقہ دیتا ہے ۔ اور جس سماج کا دانشور بانجھ ہو جائے ، یا بِک جائے ، یا اس کو زنگ لگ جائے ، یا وہ مصلحت یا منافقت کا شکار ہو جائے ، اس معاشرے میں عام انسان ، اپنے حق کے لیے کھڑے ہو نے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں ۔ ایسے معاشروں میں انقلاب نہیں آتا ۔ ۔ ۔ ۔ جب باستیل کا قلعہ ، لوگوں نے فتح کر لیا ، وہاں کے گورنر کا سر قلم کر کے نیزے کی انی پر لٹکا دیا گیا ۔ ۔ اگلے دن جب اس سب کی خبر بے خبر اور بے نیاز بادشاہ کو ملی تو اس نے خبر دینے والے ڈیوک سے پوچھا”کیا یہ بغاوت ہے ۔ “۔

اس کا تاریخی جواب آیا” نو سائر ( سر ) یہ بغاوت نہیں ، یہ انقلاب ہے ۔”

اس کے بعد عورتوں بلکہ ماؤں کے غیض و غضب کو آواز پڑی ، چار اکتوبر 1789 کو محل کی طرف عورتوں کا  مارچ ہُوا ، جس کی بڑی وجہ ایک افواہ تھی کہ اس وقت جب غریب کے گھر کھانے کو روٹی نہیں ، محل میں دعوتیں اڑائی جا رہی ہیں ، اپنے گھر والوں کے پیٹ کی خاطر ، عورتوں کے اس جلوس نے رہی سہی کسر پو ری کر دی ۔ بادشاہ اور ملکہ عوام کے غیض و غضب کے اس سیلاب میں کسی تنکے کی طرح بہتے ہو ئے اپنے محل سے واپس پیرس میں آبسے ۔ ۔ جہاں پارلیمنٹ پر مختلف تجربے ہو تے رہے ۔ آئین کی حالتیں تبدیل ہو تی رہیں ۔ ۔ اور کس شکل میں حکومتی نظام چلا یا جائے ، اس پر کام ہو تا رہا ، بادشاہت کو کبھی علامتی طور پر رکھنے کی بات کی جاتی اور کبھی مکمل طور پر ختم کر نے کی ۔ ۔ ۔ اور آخر کار غداری کے جرم میں اسے مار ہی دیا گیا ۔ ۔ ۔ حکومتی معاملات جیوکبنز کے ہاتھ آگئے ۔ ۔

انقلابی لیڈر”aximillien ،obespierre نے بلیڈ سے گردنیں اڑانے کا کام جاری رکھا اور تقریبا 2000انقلاب کے مخالفین کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا ۔ ۔ اور بعد میں اسی بلیڈ سے اس کی بھی گردن اڑا دی گئی ۔ ۔ ۔

انقلاب اپنے بیٹے خود ہی کھا جاتی ہے ۔ ۔ اور انقلاب کی ایک اور خوبی یا خامی ہو تی ہے کہ جو اس کا نقطہ آغاز ہو تا ہے ، وہ ا س کا نقطہ انجام نہیں ہو تا ۔ ۔ جیسے فرانس کے انقلاب کا آغاز اگر مساوی انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے  ہوا تھا تو انجام نپولین بونا پارٹ کی آمریت پر جا کر ہوا ۔ ۔ ۔ فیض نے جیسے آزادی ہندوستان کے بعد کہا تھا’

انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں ۔۔۔

مگر جو انہوں نے کہا تھا”چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی ۔ ۔ ۔ ۔”

وہ منزل فوراً  نہیں آجاتی ۔ ۔ انقلاب کی بہت شکلیں بدلتی ہیں ۔ ۔ گُر یہ ہے کہ ہمت ہاری نہ جائے اور نیک نیتی چھوڑی نہ جائے ۔ ۔ نقطہ آغاز کو بھولنے والے نہ صرف خود مارے جاتے ہیں بلکہ اپنی قوم کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ۔ ۔

نپولین کا فرانس بھی سویا نہیں تھا ۔ کوڈ آف نپولین آج بھی دنیا کے کچھ ممالک میں رائج ہیں ۔ ۔ شکلیں بدلتی رہیں لیکن جس بات کی جد و جہد کے لیے جیکوبئینز نے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی ۔ ۔ وہ منزل انہوں نے پا لی ۔ ۔ آج انسانی حقوق کا چارٹر ، امریکہ کو ہو یا کہیں کا بھی ، فرانس کے ان انقلابیوں کا خون ، اور دانشورو ں کا فہم ضرور شامل ِ حال ہے ۔ ۔

میں نے عمران خان سے پوچھا تھا کہ کیا ہماری قوم انقلاب کے لیے تیار ہے؟

انہوں نے پُرجوش انداز سے کہا تھا : جی ہاں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر اب شاید  انہیں بھی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ہماری قوم انقلاب کے لیے  تیار نہیں ۔ ۔630سال پرانے فرانس کے لوگ ، دانشور اور سیاسی اور سماجی شعور کا موازنہ کریں تو شاید پاکستان ابھی اگلے دو سو سال تک بھی وہاں نہیں پہنچے گا ۔ ۔ پاکستان پر 14جولائی کب رحمت بن کر آئے گا  ۔ ۔ جب محلات گرائے جائیں گے اور جھونپڑیاں ختم ہو جائیں گی ۔ ۔ ۔ کب ؟۔۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply