• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • الگورتھم- اعضاء کی چغلی ،مومن کی انگلی اور سوراخ/سلیم زمان خان

الگورتھم- اعضاء کی چغلی ،مومن کی انگلی اور سوراخ/سلیم زمان خان

آج سے کوئی 5 سال قبل میں جدید خوراک ( junk food ) اور پورنو گرافی کے درمیان ربط پر ایک لیکچر تیار کر رہا تھا۔۔اس سلسلے میں بہت سا کام خوراک کے اجزاء ترکیبی( یعنی ان میں شامل کیمیکل اور ان کے اثرات ) کے ساتھ ساتھ مجھے بہت سی فحش ویب سائٹس ، ان کا طریقہ کار اور ان کا طریقہ ذہن سازی ان میں استعمال ہونے والے انفرا ساؤنڈ یا beta version میوزک کے اثرات پر کام کرنا پڑا۔۔ بہت عرصے بعد فحش مواد دیکھا۔ اس میں ہونے والی جدت سے بہت متاثر ہوا۔۔ اور حیران ہونے کے ساتھ شدید خوفزدہ بھی کہ اب اس انڈسٹری سے نہ کوئی بڑا بوڑھا اور نہ کوئی نوجوان یا بچہ بچ پائے گا۔ ” سوائے اس کے جس کی حفاظت خدا کرے ” ( یہ جملہ مضمون کے آخر تک یاد رکھیے گا)

ان فحش ویب سائٹس کا جو نقصان آئندہ 6 ماہ تک ہوا وہ یوں تھا کہ جب فیس بک کھولتا ایک سیلاب اشتہارات کا ہوتا ،جن میں فحش مواد کی بھرمار ہوتی۔  مختلف طریقے موجود تھے جن میں مجھے اپنی عمر کے مطابق ایک عیاش زندگی گزارنے کی ترغیبات شامل ہوتیں ۔ ایسے ایسے لنک کہ بس اللہ کی امان ، پھر میرے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹ حتیٰ   کہ email پر بھی فحش لنک اور مخصوص اعضاء کی شاعری کی بھر مار ہو گئی۔ میں ان دنوں اپنے ذہن کو ریلیکس کرنے کے لئے چند ویڈیو گیمز کھیلتا تھا وہاں بھی اشتہارات میں جنونیت کی حد تک غلاظت بھر گئی  اور یہ معاملہ ختم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتا جا رہا تھا ۔

آخر تنگ آ کر ایک دن اپنے چند بہترین ہم عمر دوستوں سے اس مسئلے کو حل کرنے کا کہا تو وہ بولے یار تو ٹھرکی ہے دیکھنا بند کر دے ۔۔ تو رُک جائے گا۔  میں نے انہیں برا بھلا کہا۔۔اور بتایا کہ قسم لے لو جو ایک منٹ بھی اس بکواس کو دیکھتا ہوں مگر ہر روز اس کی تعداد بڑھ رہی ہے۔۔ اب تو کچھ خواتین ، حتیٰ کہ نوجوان لڑکوں کے میسج بھی آنا شروع ہو گئے ہیں کہ کوئی پروگرام ہے تو بتاؤ؟؟ اب بات حد سے آگے نکل گئی ہے۔۔ وہ ہنستے اور کہتے کچھ لنکس تو بھیجو۔۔۔

ڈرتے ڈرتے آخر نوجوان نسل سے رابطہ کرنا پڑا ۔ جنہیں سمجھانے کو میں نے یہ سب شروع کیا تھا۔ اپنے بڑے بھانجے سے نہایت شرمندگی سے بات کی کہ بھانجے  ! پھنس گیا ہوں کیا کروں۔۔ وہ کنجر پہلے تو دانت نکال کر پھر بڑے ماموں کے احترام میں دانت چھپا کر دو دن تک ہنستا رہا۔۔ جب اسے ڈانٹ پلائی تو بولا ماموں اس کا آسان حل ہے۔۔ آپ اتنا پریشان کیوں ہوتے ہیں۔۔ اسے دیکھیں مت۔۔۔

الو کے پٹھے  ! میں تقریبا ًچیخا۔۔ تجھے لگتا ہے یہ بکواس میں دیکھتا ہوں؟؟ قسم لے لو جو میں نے کبھی ایک منٹ بھی یہ بکواس دیکھی ہو۔

وہ پھر گھوڑے کی طرح ہنہناتے ہوئے ہنسا۔۔ بولا ماموں یار۔۔ آپ نے خود ہی تو ٹاپک لکھا تھا کہ 21 ویں صدی کا سب سے خطرناک ہتھیار الگورتھم algorithm ہے۔۔ آرٹیفشل انٹیلیجنس کے اس دور میں ہر اپلیکیشن کا اپنا الگورتھم ہے۔ اسی طرح فیس بک اور سوشل میڈیا کا الگورتھیم یہ ہے کہ اگر آپ چند سیکنڈ کے لئے بھی کسی اشتہار پر رک جائیں گے۔ یعنی اسے صرف 5 سیکنڈ بھی دیکھ لیں گے  یا کسی ویڈیو کو صرف کلک کر کے اوپر کر دیں گے اور فوری طور پر بند یا ڈیلیٹ بھی کر دیں گے فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا کا الگورتھم اسے آپ کی دلچسپی کا عنصر سمجھتے ہوئے،ان اشتہارات اور ویڈیوز کی ترغیب دینا شروع کر دے گا۔  دراصل یہ آپ کی خدمت کر رہا ہوتا ہے تاکہ آپ کی ترغیب اور شوق کی چیزیں آپ کے لئے مہیا رکھے ۔

میں نے کہا لعنت ہے ایسی خدمت پر ،کہ زمانے میں رسوا کر دیا ہے۔ اب اس کا حل بتاؤ؟ میں تو ان کو بلاک کر کر کے تنگ آگیا ہوں۔۔ وہ بہت ہنسا اور بولا ماموں آپ جانتے بھی ہیں کہ الگورتھم ایک طرز پر کام کرتا ہے۔ اسے دھوکہ دیں۔۔ آپ تین دن صرف اپنے شوق کی ویب سائیٹس، اور ویڈیوز کھیلیں اور دیکھیں۔۔ ان pages پر جائیں جو آپ کا شوق ہے۔ یہ خود بخود ختم ہو جائیں گے ۔ ورنہ انہیں ڈیلٹ کرنے کے لئے بھی جب آپ انہیں کلک کریں گے یہ الگورتھم کی نظر میں آپ کے شوق کے طور پر آجائے گا  اور پھر میرے شوق دا نہیں اعتبار تینوں  ۔۔۔

اب بھانجے کو کیا بتاتا کہ کچھ کچھ تو اب مجھے یہ سب بھی اچھا لگنے لگا ہے۔۔ مگر عمر اور مذہبی لبادہ جو میں نے اوڑھ رکھا تھا اس کا تقاضا  تھا کہ سب کے سامنے یہ سب نہ آئے تو۔۔ واقعی چند دنوں میں جب میں نے اسپورٹس اور کامیڈی اور قدیم کھنڈرات کے پروگرام دیکھنے شروع کئے تو یہ فحش بھر مار ختم ہو گئی۔لیکن ایک کام الگورتھم اب بھی کر رہا تھا، وہ مجھے میرے سابقہ شوق کے مطابق اسپورٹس میں ہونے والے جنسی واقعات، کھنڈرات میں بننے والی جنسی ویڈیوز اور   ٹام اینڈ جیری کارٹون کا بھیانک گندہ ورژن بھی کبھی کبھی ارسال کرتا رہتا کہ شاید کوئی پرانا شوق پھر جاگ جائے ۔۔ لیکن میں اسے نہ کھولتا اور نہ ہی ڈیلیٹ کرتا لیکن اسے گزار دیتا ۔۔ الگورتھم کو میرے شوق یاد رہتے ہیں آج 5 سال بعد اب بھی وہ مجھ کو میرے شوق کے علاوہ بھی ترغیبات دیتا ہے۔  تھوڑا تھوڑا ورغلاتا ہے۔۔ شاید اسے معلوم ہے کہ میں خفیہ طور پر کبھی کبھی ان خرافات کا نہ چاہتے ہوئے ،بڑی بے توجہی اور کراہت سے انہیں دیکھ ضرور لیتا ہوں ۔۔

الگورتھم آپ کے پاس موجود ایندائیڈ فون ،آئی فون یا کسی بھی آرٹیفشل انٹیلیجنس کا بنیادی جز ہے۔۔چاہے کار ہو یا ہوائی جہاز موبائل ہو یا گھڑی۔۔۔لیکن یہ الگورتھم دراصل ہے کیا ۔۔ تو اس کی تعریف نہائت آسان ہے۔۔

الگورتھم دراصل ہدایات کا ایک مجموعہ ہے۔ تعریف واقعی اتنی ہی مختصر اور آسان ہے۔ الگورتھم اتنا آسان ہوسکتا ہے جتنا اس طرح ہدایات دیں: مثلاً
الگورتھم کی ایک عمومی مثال جسے ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں وہ ایک نسخہ ہے۔ ہدایات کا یہ مجموعہ ہمیں وہ سب جزو فراہم کرتا ہے جن کی ہمیں ضرورت ہوگی اور ان اجزاء کے ساتھ کیا کرنا ہے اس کی ہدایت دی۔ مثلاً ایک چٹ پٹی کھانے کی ریسپی۔۔ جس کی ہدایات پر عمل کر کے اور مطلوبہ اشیاء کی مقررہ تعداد فراہم کر کے آپ بھی ویسا ہی مزیدار کھانا تیار کر سکتے ہیں جیسا کہ ہدایات میں درج ہے، لیکن ان ہدایات میں سے کسی ایک ہدایت کو مس کر دینے سے نتائج درست نہیں آ ئیں  گے،  سادہ زبان میں آپ اسے کمپیوٹر پروگرامنگ کی درجہ بہ درجہ ہدایات کہہ لیں یا کیمسٹری بیالوجی کے ایک تجربہ میں استعمال ہونے والے اجزاء کا صحیح استعمال۔۔

الگورتھم کا بانی ایک مسلمان سائنسدان محمد ابن الموسی الخوارزمی تھا۔۔لیکن جدید الگورتھم کا موجد برطانوی سائنسدان اور کمپیوٹر کے ماہر ایلن ٹیورنگ کہلائے۔
مشہور بیست سیلرز کتاب 21ویں صدی کے 21 اصول کے مصنف پروفیسر یوال نواح ھرارے تو الگورتھم سے اتنے گھبرائے ہوا ہے ، کہ وہ الگورتھم کو اکیسویں صدی کے خدا کے طور پر پیش کرتا ہے۔۔وہ لکھتا ہے کہ۔۔
” یہ بات بھی یقینی ہے کی آئندہ چند دہائیوں میں ٹیکنالوجیکل انقلابات برپا ہوں گے،اور بنی نوع انسان کے لئے اب تک کی بڑی آزمائشیں لائیں  گے۔ اب انسانوں میں وہی کہانی چل سکے گی جو انفو ٹیک infotech یا بائیو تیک biotech کا مقابلہ کرنے کی اہل ہو گی۔اگر لبرل ازم،قوم پرستی ،اسلام یا کوئی بھی نیا عقیدہ یا نظریہ 2050 کی نئی دنیا تشکیل دینا چاہے گا تو اس کے لئے ضروری ہوگا کہ مصنوعی ذہانت ، Artificial intelligence ،بگ ڈیٹا ایلگورتھم اور بائیو انجنئیرنگ کی سمجھ بوجھ حاصل کرے”
انسانی جذبات کے مقابل جب پروفیسر ہرارے بائیو کیمسٹری الگورتھم کو کھڑا کر کے عقلیت کی دلیل دیتا ہے تو لکھتا ہے کہ۔

” اگر جذبات اور روئیے محض بائیو کیمسٹری الگورتھم کا نتیجہ ہیں تو پھر انہیں سمجھنے میں کمپیوٹر کیوں انسانوں سے پیچھے رہ سکتے ہیں۔یہ مصنوعی ذہانت والے کمپیوٹر انسانوں کے چہرے اور آواز کے ردعمل سے اندازہ لگا لیں گے کہ سامنے والا کیسی شخصیت کا مالک ہے۔”

چونکہ الگورتھم کی بنیاد اسلام نے رکھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہدایات کا مجموعہ دراصل الہامی کتاب القرآن ہے۔ جو الگورتھم کی اعلی ترین مثال ہے۔ اس میں نیک اعمال کا نتیجہ جنت اور اعمال غیر صالحہ کا نتیجہ جہنم ہو سکتا ہے۔ اور درجہ بہ درجہ ہدایات اور واقعات اور مثالوں سے سمجھایا گیا ہے کہ نیک اور بد کی شناخت کیا ہے۔ مثلا ًاگر کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے، تو وہ لازمی دھوکہ دے گا، جس کا نتیجہ لڑائی، فساد غیبت اور لوٹ مار اور ہوس کی تسکین ہو سکتا ہے ۔۔ جس کے نتیجے میں قتل و غارت، بے انصافی ہو گی اور بے انصافی جب بڑھے گی تو قحط اور دیگر معاشرتی امراض پیدا ہوں گے لہذا اس انتشار کا باعث جھوٹا ہے ۔ اب اگر وہ اپنی اصلاح نہیں کرتا تو یہ علامات اسے جہنم میں لے جائیں گی۔۔ اس سے ہمیں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اہل جہنم کے خدو خال کیا ہو سکتے ہیں۔۔
چونکہ الگورتھم جذبات سے عاری ہے ۔۔ لہذا وہ کسی بھی بندے کی سابقہ ہسٹری سے نتائج اخذ کر لیتا ہے کہ اگر یہ شخص ایسا کر رہا ہے اور بار بار کر رہا ہے تو اس کی مستقبل میں فلاں فلاں خواہشات پیدا ہو سکتی ہیں لہذا وہ انہی اشیاء کی طرف راغب کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور اسی طرح ایلگورتھم یہ اندازہ بھی لگا لیتا ہے کہ اگر اس شخص کے یہ شوق ہیں تو مستقبل میں اس کی کون سی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔۔ اور اس کی ان کمزوریوں کا کیا علاج اس کی ضرورت ہو سکتا ہے۔۔ لہذا وہ اشتہارات جو آج اپنی ضرورت نہیں سمجھ رہے وہ بھی آپ کی آنکھوں کے آگے سے گزارتا ہے۔ جس کے نتیجے میں آپ کے اردگرد سوشل میڈیا میں مختلف قسم کے اشتہارات اور ترغیبات کی بھر مار ہو جاتی ہے۔

آج سے 10 سال قبل مجھے انسان میں موجود الگورتھم پڑھنے کی ٹریننگ میرے استاد محترم نے دینا شروع کی، قدیم دنیا میں اسے روحانی مشاہدہ کہا جاتا تھا لیکن رموز معرفت جدید میں انسان کو سمجھنا مکمل طور پر ایک سائنسی عمل ہے۔۔ جو کشف و کرامات پر نہیں بلکہ تجربات پر بننے والے انسان کا تجزیہ ہے اور اسی تجزیہ کی بنیاد پر مستقبل کا لائحہ عمل یا پیشگوئی کی جاتی ہے۔ جس طرح موسم کی پیش بینی۔ اس لئے انسانی حرکات سومنات یعنی اس کے الگورتھم کو سمجھنے کے لئے استاد محترم نے میرے قریب چند ایسے مرد و خواتین رکھے جن کی تربیت والدین اور اساتذہ نے نہیں کی تھی، بلکہ وقت اور حالات کے اتار چڑھاو میں وہ پروان چڑھے تھے۔ ان میں سے ایک خاتون جو مجھ پر فریفتہ تھیں ۔۔ اور ان کے بقول میں ان کی کم از کم آخری محبت تھا۔۔ مجھ سے ملنے کی شدید خواہش کرنے لگیں۔۔ جب وہ مجھ سے ملنے آئیں اور جب وہ واپس گئیں تو انہوں نے نہائت تفصیل سے تمام ملاقات کس طرح میں نے انہیں pick کیا سے کس طرح میں نے انہیں ڈراپ کیا جب بیان کیں۔ اور وہاں ماحول میں موجود جزیات کا جس طرح انہوں نے منظر کھینچا ۔۔ اس الگورتھم نے مجھے سمجھا دیا کہ یہ خاتون اس تمام کام کی عادی ہیں اور جیسا کہ ان کا اصرار تھا کہ وہ پہلی مرتبہ مل رہی ہیں کسی بھی اجنبی سے۔۔ کم از کم ان کا الگورتھم اس کے خلاف تھا ۔۔ اور جذبات اور عشق کی رو میں بہہ کر نہیں آئیں تھیں ۔ بلکہ ہر طرح سے سوچ سمجھ کر اور سابقہ تجربات کی روشنی میں قدم اٹھا کر آئیں ہیں لہذا میں ان کے الفاظ کی قید سے آزاد ہو گیا ۔۔ جو وہ مجھے اعتبار دلانے کے لئے کہتی تھیں۔ اس کے بعد اس کی تمام قسمیں وعدہ الگورتھم کی پرکھ پر پورے نہیں اترے۔ کیونکہ ان کے جسم کا الگورتھم ان کے الفاظ کے خلاف تھا۔ تب میں نے انھیں یہ بات کہی کہ تم یہ عاشقی معشوقی بار بار کرو گی اور میرے ہوتے ہوئے تم دوسروں سے تعلق جوڑو گی۔۔جس پر انہوں نے مجھ سے شرط لگائی کہ ایسا کم از کم اس زندگی میں نہیں  ہو گا۔۔لیکن جب ایسا ہی ہوا تو میرے پوچھنے پر وہ بولی آپ کی زبان کالی تھی آپ کی بدعا مجھے لگی  ہے۔۔ ۔

اسی طرح جب مرد شادی کی پہلی رات، یا کسی خاتون دوست پر اپنا رعب ڈالنے کے لئے ایک بھونڈا طریقہ اختیار کرتے ہیں جس میں وہ اپنے سابقہ معاشقے اور ذلالت مرچ مصالحے گا کر سناتے ہین۔۔ اگر سامنے بیٹھی عورت جذبات سے نکل کر آرٹیفشل انٹیلیجنس کے الگورتھم کی طرح تجزیہ کرے تو وہ یہ بہت آسانی سے جان سکتی ہے کہ یہ شخص گزشتہ خواتین کے ساتھ والا رویہ ہی اس کے ساتھ بھی استعمال کرے گا۔۔ یہ ہر جگہ منہ مارے گا۔۔ اگر نئی شادی ہے یا نئے جذبات ہیں تو زیادہ سے زیادہ ایک سال بعد یہ اپنے پرانے الگورتھم پر دوبارہ آجائے گا۔ اسی طرح جب آپ کسی سے کاروبار کریں ۔۔ کسی سے معاہدہ کریں یا کسی کو ہمسفر چنیں ۔ تھوڑا سا جذبات سے عاری ہو کر اس کا معائنہ کریں ۔۔ یقین کریں اس کے تمام اعضاء چیخ چیخ کر آپ کو اس کے ساتھ آپ کے حال اور مستقبل کی پیش گوئی کر رہے ہوں گے۔ وہ مشہور مثال کہ اگر آپ کسی کو اپنا ہمسفر چننا چاہتے ہیں تو اسے کسی ہوٹل میں مدعو کریں اور اس کا رکھ رکھاو اور ویٹرز سے پیش آنے کا رویہ دیکھیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا وہ کیسا آدمی یا خاتون ہے۔۔ آپ حیران ہوں گے کہ 80 فیصد آپ کے اندازے اور مستقبل بینی کسی بھی شخص سے متعلق درست ہو گی

ایک مرتبہ کسی نے دو گواہ پیش کیے، ایک کے معاملات تو حضرت عمر ؓ کو معلوم تھے لیکن دوسرے کے معلوم نہیں تھے۔
آپ ؓ نے پوچھا کہ اس شخص کے معاملات کسی کو معلوم ہیں۔ مجلس میں ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا کہ کبھی اس شخص کے ساتھ اکٹھا سفر کیا ہے ؟ کبھی کوئی لین دین کا معاملہ آیا ہے ؟ کیا یہ تمہارا پڑوسی ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ نہیں ؟ حضرت عمر ؓ ارشاد فرمایا کہ آپ نے ان کو مسجد میں نماز پڑھنے اور روزہ رکھتے دیکھا ہوگا اس وجہ سے اس کے عادل ہونے کی گواہی دے رہے ہو۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ پھر تو آپ اس کو نہیں جانتے۔ ۔۔

یوال نواح ہراری کہتا ہے کہ زبان سیکھنا کوئی کمال نہیں غیبت کرنا کمال ہے۔۔ یہ طوطے ،یا بندر یا دیگر مخلوق بھی زبان سیکھ جاتی ہے۔۔ دراصل انسان کا کمال اس واقعہ کو بیان کرنا ہے جسے نواح ہراری غیبت کا نام دیتا ہے۔۔یعنی کسی بھی واقعہ کی تفصیل بیان کرنا اس میں آپ کے اعضاء، حرکات و سکنات gesture لہجہ اور ذہنی استعداد vocabulary کا استعمال ہے۔ یہ انسانی کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔ جبکہ مذہب اسی بات کو جسے پروفیسر یوال نوح غیبت کہتا ہے۔ اسے اظہار کا ذریعہ یا نطق انسانی کہتا ہے۔

یہی انسانی رویہ اس کے اعضاء اس کی غیبت کرتے ہیں بس ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کچھ دیر کے لئے اپنے مد مقابل اپنے حریف، پارٹنر یا معشوق کو جذبات سے عاری ہو کر دیکھیں سنیں اور سمجھیں ۔۔ یقین کریں آپ کو اس حدیث پر اعتبار آجائے گا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔۔ پہلے تو مومن ہر سوراخ میں انگلی ہی نہیں ڈالتا ۔۔ لیکن اگر جذبات اسے مجبور کر بھی دیں تو دوبارہ اس کی نظر جذبات سے عاری ہو کر مشاہدہ کرتی ہے۔۔ اور اگر دوبارہ اسی سوراخ میں انگلی ڈال رہا ہے تو یا تو وہ مومن نہیں اور یا وہ ڈسے جانے کا شوقین بن چکا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لوگوں کو سمجھنے کے لئے ان کے الگورتھم پر غور کریں ۔۔یقین کریں انسان کے اعضاء اس کے خلاف صرف قیامت کے دن ہی گواہی نہیں دیں گے یہ دنیا میں بھی انسان کے اصل رویہ کی چغلی کھاتے ہیں۔۔ یہ جذبات ، مفادات ،یا خواہشات کی پٹی ہے جو انسان کو کچھ دیر کے لئے اندھا کر دیتی ہے۔۔ تب یہ قصور آپ کے الگورتھم کا ہے کہ اس کی پرورش خواہشات نے کی ہے اس دھوکے کا الزام کسی کو مت دیں۔۔ بس خاموشی سے دوبارہ اپنے الگورتھم پر کام شروع کر دیں۔۔ یہی گمراہی  کے بعد ہدایت کی طرف پلٹ آنے کا اصول ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply