شب جائے کہ من بودم۔۔۔۔۔۔(سفرِ جوگی)اویس قرنی۔۔۔قسط9

مزار پہ فاتحہ خوانی کے بعد ، ہم نے ہمراہیوں کو جھمر کے رنگ دیکھنے بھیج کر خود صاحبِ مزار سے کچھ نجی قسم کی گفتگو کیلئے کنکشن جوڑنے کی کوشش کی ، لیکن ناکامی ہوئی۔ شاید قلب پہ کثافت کی زیادتی اس ناکامی کا سبب تھی۔ ہمیں جو یوں صم بکم کھڑا دیکھا تو کامران اسلم نے کہا چلیں ذرا گرد و پیش کی سیرکرآتے ہیں۔ ہم نے جوتے صاحبِ مزار کی نگرانی میں چھوڑے اور ننگے پاؤں ٹھنڈی ریت پہ چلتے چلتے ، احاطہ دربار کے دامن میں پھیلے قبرستان کی بے ترتیب قبروں میں سوئے ہوؤں کو السلام علیکم یا اہل القبور کہتے ، شمالی جانب کھلے صحرا کی طرف نکل آئے۔

سر پہ چاند کھڑا زمین والے چنن کے مہمانوں پر چانن برسا رہا تھا۔ صحرائی ہوا ہم سے اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔ اور ریت ، خوشگوار خنکی کے پھریرے سے ہمارے پاؤں سہلاتے ہوئے جسم میں کچھ انوکھی لہریں پیدا کر رہی تھی۔ چانن میں شرابور ہوتے ، سرمستی کے عالم میں ہم خاصی دیر ریت لتاڑتے پھرے۔ ہر قدم پر احساس ہوتا تھا فطرت ہم سے مکالمہ کرنا چاہ رہی ہے۔ لیکن ہم یہ سگنل ماڈولیٹ نہیں کر پا رہے۔ ناچار ہم نے گنجینہِ معنیٰ کا طلسم تعمیر کرنے والے جادوگر کو آواز دی۔ روحِ استاد کی سرسراہٹ محسوس ہوئی تو ہم نے پوچھا :۔ “یہ چاندنی کی پھوار ، یہ نسیمِ صحرائی ، یہ خنکیِ ریگزار ، یہ فطرت کے پیامبر ہم سے کیا کہہ رہے ہیں۔ شرح فرمائیے ، یا شہ کلید عطا فرمائیے۔”
روحِ استاد ہمارے کان میں گنگنائی:۔”ہر چند کہیں کہ “ہے” ، نہیں ہے”

شہ کلید ہاتھ آتے ہی ہم نے پیامبران ِفطرت کے سگنل ماڈولیٹ کیے تو معلوم ہوا وہ سب اپنے اپنے انداز میں ہم سے کہہ رہے تھے : ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد ، ہستی کےمت فریب میں آجائیو اسد ، ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
ہر طرف سے نفی کا یہ پیغام آتا دیکھا تو بے اختیار ہم نے “لا” کی قینچی سے اپنا “لا” (گریباں) چاک کردیا۔ گریباں چاک ہونے کی دیر تھی ، مکانی وسعتوں کے محیط میں ایک بازیچہ اطفال نظر آیا ، غور کیا تو ایسے ہی بے شمار بازیچے مکانی وسعتوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ ایک طرف اک مردِ توانا بیٹھا جال بُن رہا تھا۔ اس کے قریب ایک بہت بڑا ٹوکرا فریب ہائے ہستی سے لبریز پڑا تھا۔ حسن ، درد ، خوشی ، بھوک اور نجانے کیا کچھ اس ٹوکرے میں تھا۔ اس کا بُنا ہوا جال اتنا بڑا تھا ، کہ تمام مکانی وسعتوں میں پھیلا ہوا تھا۔ وہ مردِ توانا ایک عالم کے تانے اور بانے کو ملا کر جال کا ایک حلقہ بُنتا ، جذبات و احساسات کے غیرمرئی دھاگے میں بندھے فریب ہائے ہستی اس میں جگہ جگہ لٹکا دیتا ، اور جال کا وہ حلقہ مکاں کے کسی حصے میں موجود بازیچے میں ڈال کر اگلا حلقہ بُننے لگتا۔

مکانی وسعتوں میں اپنے نقشِ قدم کا کھرا تلاش کرتے کرتے ہم وہاں پہنچے جہاں ہمیں اس وقت موجود ہونا چاہیے تو دیکھا کہ وہاں بھی اس مردِ توانا نے اس جال کا ایک حلقہ ڈال رکھا تھا۔ اس حلقے میں بہت سے فریب ہائے ہستی تھے ، مزیدغور کرنے پر معلوم ہوا ، ان میں سے تین یعنی بادِ صحرائی ، خنکیِ ریگزار ، اور ٹھنڈی چاندنی کی پھوار کے آس پاس ہمارا ہونا منڈلا رہا تھا۔ ہمارے ہونے کے ساتھ چار ہونے اوربھی تھے۔ ان چار میں سے ایک چاندنی کے فریب میں آکر چکور کی طرح چاند کی طرف لپک رہا تھا۔ ایک خنکیِ ریگزار کی ڈوری میں پھنستا جا رہا تھا۔ ہم نے چِلا کر انہیں خبردار کیا ” ہستی کے اس فریب میں مت آنا ، اس گرفتاری سے چھٹکارا بہت مشکل ہے۔ اس کا بھگتان بہت بوجھل ہے۔” ہماری آواز تو ان پانچوں کو کیا سنائی دیتی ، البتہ ہماری یہ رائیگاں کوشش اس مردِ توانا کے قہقہے کا سبب بن گئی۔ ہم نے بےچارگی سے اس کی طرف دیکھا تو یاد آیا ، ابھی تک ہم اس سے متعارف ہی نہیں ہوئے۔ اس کے قریب جا کر ہم پوچھا :۔”اے بزرگ ! آپ کون ہیں۔ اور ہنسنے کا سبب کیا ہے؟”
اس نے ہماری طرف دیکھا ، کچھ دیر گھورتا رہا ، پھرگمبھیر لہجے میں بولا:۔ “مجھے نہیں پہچانا؟ میں خیال ہوں۔ اور میرے ہنسنے کی وجہ تمہاری بچکانہ حرکت ہے۔”
یہ کہتے ہی اس نے ایک اور قہقہہ لگایا۔ قہقہہ کیا تھا ، توانائی کی ایک شدید لہرتھی ، جس نے ہمیں دھکیل کر مکاں کی وسعتوں میں پھیلے اس بازیچہ نما سمندر میں گرا دیا۔ ہم نے بہت ہاتھ پیر مارے لیکن ڈوبتے ہی چلے گئے۔ یہاں تک کہ اپنے آپ کوسطحِ تہہِ مکانی پہ ایک کورل کے قریب کھڑا پایا۔ ہمارے ارد گرد فریب ہائے ہستی پھیلے ہوئے تھے ، ہمیں ان سے وحشت ہونے لگی۔ ان سے کہیں دور بھاگ جانے کو جی چاہا۔ کیونکہ اب ہم پہ حقیقت کھل چکی تھی۔

ہم نے ساتھیوں سے واپس چلنے کو کہا ، اور صحرا سے احاطہِ دربار میں آگئے۔ یہاں کی رونقیں ابھی تک قائم تھیں۔ ہستی کے فریب میں گرفتار لوگ یہاں اپنے دکھڑے لے کر بیٹھے تھے۔ کسی کو اولاد کی ہتھکڑی لگوانی تھی ، کسی کو پاؤں میں شادی کی بیڑی نہ پڑنے کا دکھ کھائے جا رہا تھا۔ کوئی کھوتے کی طرح دولت کی باربرداری والا جانور نہ بن سکنے کی کسک میں مبتلا تھا۔ غرض کہ فریب ہی فریب تھے ، جو گھیر گھار کر لوگوں کو یہاں لائے تھے۔ نظر اٹھا کر تربت کے ٹیلے کی طرف دیکھا تو صاحبِ مزار کو اس پہ تشریف فرما پایا۔ وہ ہمیں ہی دیکھ رہے تھے ، نظریں ملیں تو مسکرائے اور فرمایا:۔ “کیوں؟ آنکھیں کھل گئی ہیں یا کچھ اور تماشا بھی دیکھنا ہے؟”
ادب سے عرض کی:۔ صرف آنکھیں ہی نہیں کھلیں سرکار ، چودہ طبق میں چنن ہی چنن ہوگیا ہے۔ وما الحیوٰۃ الدنیا الا متاع الغرور کا سبق سیکھ لیا ہے۔”
ان چاند سے خوبصورت لبوں پر مسکراہٹ طلوع ہوئی ، فرمایا:۔”تمہارے استاد کامل ہیں ، اسی لیے بہت جلد یہ سبق یاد کرلیا ، ورنہ ہم تو یہاں “نوراتے” کا شارٹ کورس کرواتے ہیں۔ اس کی فیس “اٹا گھٹا” مقرر کر رکھی ہے۔ پھر بھی بہت کم لوگ یہ سبق سیکھ پاتے ہیں ، اور ان میں سے بھی بہت کم ہیں جو یاد رکھ پاتے ہیں۔ تمہارے استاد پہ اللہ کی رحمت ہو ، وہ اپنی طرز کے انوکھے اور منفرد بوہیمین ہیں۔ اپنی اس خوش قسمتی پرشکرادا کرتے رہا کرو۔ یہ برکات کا اسمِ اعظم ہے۔”
ہم نے اجازت چاہی تو فرمایا :۔ “ایسی بھی کیا جلدی ہے، ابھی تو ہماری میزبانی کا ذائقہ بھی نہیں چکھا” پھر ہاتھ کے اشارے سے کسی کو بلایا، تو ایک خاتون ہاتھ میں سفید سفید مکھانے لیے ، ان کے پاس چلی آئی ، انہوں نے اس سے مکھانے لے کر کچھ مجھے عطا فرمائے ، باقی سب ساتھیوں کی طرف بھی دو دو مکھانے لڑھکا دیے۔ یہ فقیر کی مہمانی تھی۔ ہم نے منہ میٹھا کیا ، اور واپس چل پڑے۔

صحرا کی چاندنی رات کا فسوں کیا کم تھا کہ کامران اسلم نے پٹھانے خان کی آواز میں “میڈا عشق وی توں ، میڈا یار وی توں ” پلے کردی۔ اور ہم کچھ دیر کیلئے دنیا و مافیہا سے بے گانہ ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔۔

Facebook Comments

جوگی
اسد ہم وہ جنوں جولاں ، گدائے بے سروپا ہیں .....کہ ہے سر پنجہ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply