سٹوڈنٹس کے لئے گریڈنگ سسٹم/نجم ولی خان

لیں جناب، انٹربورڈ کوارڈینیشن کمیشن یعنی معروف عام آئی بی سی سی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب سٹوڈنٹس کو رزلٹ کارڈ پر نمبروں کی بجائے گریڈ ملیں گے۔ یہ فیصلہ پہلے مرحلے میں نویں اور گیارہویں جماعت کے امتحانات پر اگلے برس سے لاگو ہوگا۔ چورانوے سے سو فیصد تک نمبر لینے والوں کا گریڈ ڈبل اے پلس ہوگا اور جی پی اے فائیو۔ ویسے کالجوں یونیورسٹیوں میں اس وقت فور جی پی اے ہی چل رہا ہے مگر بورڈ والوں نے اس کے پانچ درجے رکھے ہیں اور یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ چالیس فیصد سے کم نمبر لینے والوں کو فیل قرار دیا جائے گا۔

ہم میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو اس فیصلے کی تعریف کر رہے ہیں۔ میں بھی گریڈنگ سسٹم کی تعریف کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اگرجدید، مہذب اور ترقی یافتہ ممالک نے یہ طریقہ کار طے کیا ہے تو اس کے لئے تحقیق ہوگی، اس کے فوائد ہوں گے۔ ہم سب کہتے ہیں کہ بچے ایک ایک نمبر کے لئے لڑتے ہیں۔ اس کے لئے پڑھاکو بچے دس، دس اور بارہ، بارہ گھنٹوں تک پڑھتے ہیں۔ ہماری تعلیمی نظام اس قسم کا ہے کہ بیشتر درسی کتب اور ماڈل پیپرز کے رٹے لگاتے ہیں اور ٹاپ کر جاتے ہیں۔ ایسے میں والدین اوربچوں کے سر سے نمبروں کا بوجھ اتارنے کے لئے ضروری ہے کہ گریڈنگ سسٹم لایا جائے۔ فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ والا فرسودہ نظام ختم کیا جائے۔

مگر، اس تعریف کے ساتھ ہی آئی بی سی سی کے ساتھ میرے کچھ سوال بھی ہیں اور پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے آج سے بارہ برس پرانے ناکام تجربے سے کچھ سیکھا جب یہی گریڈنگ سسٹم لایا گیا تھا اور اس برس ہا برس کے بعد بھی بچے اپنا میٹرک کلیئر کرنے کے چکر میں تھے۔ کاشف شہزاد چوہدری، پنجاب ٹیچرز یونین کے صدر ہیں اور وہ بتا رہے تھے کہ اس برس کے بعد یوں بھی ہوا کہ بچوں نے ایف اے اور ایف ایس سی پہلے کر لیا اور اپنا میٹرک بعد میں کلیئر کیا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ کچھ بڑے عہدوں پر بیٹھے خود پسند دماغوں نے یہ فیصلہ از خود ہی کر لیا یا ا س کے لئے سٹیک ہولڈرز سے پہلے کسی قسم کا کوئی فیڈ بیک بھی لیا گیا۔ ہمار االمیہ یہ ہے کہ ہر عہدے پر بیٹھا ہوا اچھا یا برا شخص خود کو عقل کل سمجھتا ہے۔ گریڈنگ اور جی پی اے کا نظام اس وقت بہت ساری یونیورسٹیوں میں چل رہا ہے مگر اس کی بنیاد صرف ایک سالانہ امتحان نہیں ہوتا بلکہ اس میں مِڈز ایگزیمز اور اسائمنٹس ہی نہیں بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں شرکت سے ٹیچرز کے فیڈ بیک تک کا بھی پرسینٹ ایج ہوتا ہے۔ اگر آپ نے سالانہ امتحان میں لئے ہوئے نمبروں کو ہی گریڈنگ سسٹم میں بدل دینا ہے، اس کے پس پردہ خامیوں اور ضروریات پر دھیان نہیں دینا تو مجھے کہنے میں عار نہیں کہ آپ ایک گدھے پر لائنیں کھینچ کے اسے زیبرا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

میں ایلیٹ سکولز سسٹمز کی بات نہیں کر رہا جو ہمارے کل تعلیمی نظام کا شائد پانچ فیصد بھی نہیں، اس گریڈنگ سسٹم کے لئے گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ جیسے گورنمنٹ سکولوں میں آپ کے پاس ٹیچرز ہی پورے نہیں، بہت سارے سکولوں میں سائنس مضامین تک کے اساتذہ کی سیٹیں بھی برس ہا برس سے خالی پڑی ہیں۔ میرے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے سکولوں میں اس وقت سوا لاکھ کے قریب آسامیاں خالی ہیں اور اگر آبادی میں اضافے کو بھی مدنظر رکھا جائے تومجموعی طور پر کم اساتذہ کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔

میرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا آپ نے اساتذہ کو اس نئے نظام کے لئے تیار کیا ہے۔ سرکاری سکولوں کے ساڑھے تین لاکھ اساتذہ کے لئے تو تربیت کا کوئی مناسب یا نا مناسب قسم کا نظام موجود ہے مگر دوسری طرف پرائیویٹ سکولوں کے بارہ لاکھ اساتذہ کے لئے کیا گائیڈ لائنز ہیں۔ کیا ہم سکولوں کے ساتھ بھی وہی کرنے جا رہے ہیں جو ہم نے کالجوں میں بغیر فنڈز اور بغیر سہولیات کے سیمسٹر سسٹم شروع کرکے کیا تھا اور چھوٹے شہروں میں بچوں کے لئے تعلیم کو مشکل ترین بنا دیا تھا بلکہ چھوٹے شہروں کی بھی کیا بات کرتے ہیں، یہاں تو بڑے شہروں میں بھی لیبارٹریوں سمیت سہولیا ت کا فقدان تھا۔

سکولوں میں بھی ہمارا مسئلہ یہ رہا کہ ہم نے امتحان کا بہت بڑا حصہ ایم سی کیوز میں بدل دیا اور لمبے سوالوں کے بھی چھوٹے چھوٹے حصے کر دئیے اوراس کے نتیجے میں بچوں کے بہت زیادہ نمبر آنے لگے مگر اس کے باوجود رٹا سسٹم اپنی جگہ پر موجود رہا۔ مجھے گریڈنگ اور جی پی اے سسٹم پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر آپ اس کے پیچھے پورا میکانزم نہیں بدل رہے تو پھر آپ سعی لاحاصل کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ پھر پرانے تجربے جیسا نکلے گا اور سٹوڈنٹس خوار ہوں گے۔

میر ا سوال آئی بی بی سی سی سے اس نظام کے بعد داخلوں کے سسٹم کے بارے میں بھی ہے۔ اس وقت ایک ایک نمبر کے فرق سے میرٹ بنتا ہے اور یوں میٹرک میں آنے والے ساڑھے تین ملین بچوں میں سے کچھ کو داخلہ مل جاتا ہے مگر جب بہت سارے بچے ایک ہی گریڈ میں ہوں گے اور وہ ایک ہی کالج میں داخلے کے لئے رجوع کریں گے جیسے کہ ڈبل اے گریڈ والے تین ہزار بچوں نے ایک ہی کالج میں داخلے کے لئے اپلائی کر دیا اور وہاں سیٹیں تین سو ہوئیں تو داخلے کاسسٹم کیا ہوگا یعنی آپ کالجو ں کو دو قسم کی راہ دکھا رہے ہیں۔

پہلی یہ کہ وہ آپ کے نتائج پر لعنت بھیجتے ہوئے الگ سے امتحان لیں اور میرٹ بنائیں یعنی آپ بچوں کو ایک اور امتحان میں ڈال رہے ہیں یا آپ سفارش اور رشوت کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں۔ میں جانتا اور مانتا ہوں کہ امریکا برطانیہ اور کینیڈا سمیت جدید ممالک میں یہ سسٹم موجود ہے مگر وہاں اس گریڈنگ سسٹم کے ذریعے کسی بھی بچے کی حقیقی صلاحیت جانچنے کے ساتھ ساتھ اگلی سطح پر داخلوں کا سسٹم بھی جدید بنیادوں پر استوار ہو چکا ہے جبکہ آپ کا حال یہ ہے کہ آپ کی حکومتیں اور ادارے ابھی تک پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلے کا نظام نہیں بنا پائے۔ اس میں بھی آپ نے ایم کیٹ وغیرہ گھسیڑے ہوئے ہیں جو ایف ایس سی کی اہمیت کو بہت کم کردیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں تعلیم کے شعبے میں بیٹھے ہوئے بزرجمہر گدھے کو زیبرا بنانے کے لئے اس پر لائنیں مت لگائیں۔ اس پورے سسٹم کو بدلیں جس میں آپ صرف دو، دو اور تین تین گھنٹوں کے چند پرچوں کے ذریعے بچے کی پوری قابلیت جانچ کراس کے مستقبل کا تعین کردیتے ہیں۔ دوسرے گریڈنگ سسٹم کے بعد داخلوں کے نظام بارے بھی سوچئے۔ آپ تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو پوری طرح لائیں۔ اس طرح کے اٹکل پچو اور نمائشی قسم کے اقدامات سے گدھے گھوڑے کو ایک نہ بنائیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply