برطانیہ،برصغیر اور پاکستان(4)۔۔آصف محمود

یورپ پر جدید طب کے دروازے انہیں تراجم نے کھولے جو قسطنطین نے اپنے نام سے شائع کیے تھے اور بعد میں جن کی حقیقت واضح ہو گئی کہ یہ تو مسلمانوں کی تصانیف تھیں۔

عظیم البرٹس (Albertus Magnus) کو یورپ کی تحریک احیاء کے زمانے میں بہت سے علوم کا بانی سمجھا جاتا ہے اور یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس کا انحصار یونانی مآخذ پر رہاہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا مآخذ یونانی نہیں تھے بلکہ اس نے یہ مواد ابن سینا، ابن رشد اور جابر بن حیان کی کتابوں سے اخذ کیا تھا۔ کیوں کہ اب یہ بات یقین کے درجے میں داخل ہو چکی ہے کہ وہ یونانی زبان سے ناواقف تھا۔

مائیکل سکاٹ نے فلکیات پر نور الدین البطروجی کی کتاب کا ترجمہ کیا اور اسے نکولائوس سے منسوب کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو سرقہ کیا گیا تھا۔

ابن سینا کی کتاب الااحجار، ارسطو سے منسوب کر دی گئی۔ آنکھ کے بارے میں حنین بن اسحاق کی کتاب جالینوس سے اور اسحاق بن عمران کی مالیخولیا پر لکھی گئی کتاب روفوس یونانی سے منسوب کر دی گئی۔ رائمنڈ لولوس کی 20 کتابیں بعد میں ثابت ہوا کہ ان کی اپنی لکھی ہوئی نہیں بلکہ عربی تراجم ہیں۔

دیگر تہذیبوں اور زبانوں کے بارے میں لارڈ میکالے کے خیالات اپنی جگہ، حقیقت مگر یہ ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں عربی سے کیے گئے تراجم کا اہم کردار ہے۔ ارسطو کی فلاسفی یورپ تک کیسے پہنچی؟ عربی تراجم کے ذریعے۔ یہ جو آج جدیدتعلیمی اداروں میں ڈاکٹر، بنتے ہیں انہیں شاید معلوم ہی نہ ہو کہ یہ عربی سے لاطینی ترجمے کا اعجازہے اور اجازت التدریس، یعنی پڑھانے کی اجازت کا جب لاطینی میں ترجمہ ہوا تو Licentia Docendi ہو گیا۔ اب اسے ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔

یہ جو یورپ کا ہیومنزم ہے، اس میں Ars Dictaminis کی لاطینی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی Art of Dictation۔۔ کتنوں کو معلوم ہے یہ اصطلاح عربی کے لفظ املائ، کا لاطینی ترجمہ ہے کیونکہ عرب اہل فکر و دانش کے ہاں ساتویں صدی میں علوم کی املاء کرانے کا رواج تھا۔ نشاۃ ثانیہ میں Studia Humanitatis کی اصطلاح تو پڑی جاتی رہی لیکن یہ شاید لارڈ میکالے کو علم ہی نہ ہو کہ یہ عربی کے علوم الآداب، کا لاطینی ترجمہ ہے اور ہیومینزم پر یورپ میں پڑھایا جانے والا سارا ابتدائی کام عربی سے تراجم کی شکل میں لیا گیا تھا۔ یہ ایک طویل فہرست ہے جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں۔ صرف سیاق و سباق واضح کرنے کے لے یہ چند حوالے دینا پڑے ہیں۔

یورپ نے اس سارے علمی سفر کے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اسی کی تہذیب علم و فکر کی تہذیب ہے اور باقی سب جاہل ہیں اور انگریزی کے علاوہ ہر زبان فرسودہ ہے۔ یہی وہ فکری غلط فہمی یا بد دیانتی ہے جو پھر یہ اعلان کرتی ہے کہ عربی اور مشرقی زبانوں میں لکھی گئی تمام کتب یورپ کی ایک اچھی لائبریری کے ایک شیلف میں رکھی چند کتابوں سے بھی حقیر ہیں۔

لارڈ میکالے کے اس میمورنڈم میں ایک اور اہم نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے جو ہمیں اس نو آبادیاتی نظام کی نفسیاتی گرہ کی بھی خبر دیتا ہے۔ برصغیر میں نئے مجوزہ تعلیمی نظام کے لیے درکار فنڈز کے حوالے سے رائے دیتے ہوئے لارڈ میکالے نے پیرا گراف نمبر 6 میں لکھا کہ ریاست میسور میں شیروں کے شکار پر جو انعامی رقم رکھی گئی ہے اسے کم کیا جائے۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے اور نو آبادیاتی نظام کی نفسیات سے آگہی کے لیے اس نکتے کو سمجھنا ضروری ہے۔

میسور میں شیروں کے شکار پر یہ انعامی رقم ظاہر ہے کہ خاصی بھاری نہیں تو نہایت معقول ضرور ہو گی ورنہ لارڈ میکالے اسے اتنی اہمیت نہ دیتے۔ اگر میکالے اسے کم کرنے کا کہہ رہے تھے تو اس کا مطلب ہے یہ خاصی بھاری رقم تھی۔ سوال یہ ہے کہ شیروں کے شکار کی کیا ضرورت تھی اورا س پر اتنی انعامی رقم کیوں مختص کی گئی۔ جم کاربٹ جیسے لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ اصل میں یہ آدم خور شیر تھے جنہیں قتل کیا جاتا رہا اور ایک شیر تو ایساتھا جو اکیلا ہی 400 لوگوں کا کھا چکا تھا۔ جم کاربٹ نے اس پر متعدد کتا بیں لکھیں اور ان کی فروخت نے ریکارڈ قائم کیے۔ ان کی کتاب Man Eater of Kumaon کی فروخت چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

یہ بات اپنی جگہ پر درست بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں لارڈ میکالے نے پورے ہندوستان میں ہونے شکار کا ذکر نہیں کیا۔ نہ ہی انہوں نے جس انعامی رقم کا ذکر کیا اس کا تعلق سارے برصغیر سے تھا۔ یہاں تو وہ صرف میسور کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ شیروں کے شکار اور اس کے لیے انعامی رقم کا میسور سے ایسا کیا خاص تعلق ہے کہ اس کا ذکر لارڈ صاحب کو اس اہتمام سے کرناپڑا؟

یونیورسٹی آف اوویلونائے کے ایسو سی ایٹ پروفیسر اور مورخ ڈاکٹر جوزف سرامک کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی انگریز وں کی ٹیپو سلطان سے نفرت تھی۔ وہ ٹیپو کی مزاحمت کی وجہ اسے ایک گستاخ اور متکبر سمجھتے تھے اور چونکہ شیر کی علامت کو ٹیپو سلطان سے نسبت تھی تو اس لیے انگریزوں نے اس نسبت کو بے رحمی سے کچلا۔ ایسا کر کے وہ اصل میں ٹیپو کی تذلیل کر رہے ہوتے تھے۔

کیٹ برٹل بینک کے مطابق انگریز مقامی حکمرانوں پر ہر لحاظ سے حاوی ہونا چاہتے تھے اور چونکہ شیر کی علامت ٹیپوسلطان سے جڑی ہوئی تھی تو انگریز اس معاملے میں جنون کی حد تک پہنچ چکے تھے۔

برطانوی مورخ میلڈرڈ آرچر لکھتی ہیں کہ ٹیپ کے پاس ایک شیر کا مجسمہ تھا جس میں شیر نے ایک انگریز فوجی کو گرایا ہوا تھا۔ یہ شیر ٹیپو کو ایک فرانسیسی کاریگر نے 1794میں تحفے میں دیا تھا۔ انگریزوں نے ٹیپو کی شہادت کے بعد جب یہ دیکھا تو وہ بپھر گئے۔

ڈاکٹر جوزف سرامک کے مطابق ٹیپو کو مارنے کے بعد شیروں کے اس بے رحمی سے شکار کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انگریز کے نزدیک شیر کے معانی تھوڑے مختلف ہو چکے تھے۔ شیر ٹیپو سلطان کے دبدبے کی علامت تھا۔ اور انگریز اندھے نہیں تھے کہ اس کے یہ معانی نہ سمجھتے۔ شیر انگریزوں پر ٹیپو کی فتح کی علامت تھی۔ اس علامت کی تذلیل کر کے اور اس کا شکار کر کے وہ گویا یہ پیغام دے رہے تھے کہ ٹیپو سلطان پر ہم فتح پا چکے ہیں، آپ اندازہ کریں کہ ٹیپو 1799میں شہید ہوئے اور لارڈ میکالے 1835میں کہہ رہے ہیں کہ بہت خرچہ ہو رہا ہے اس لیے اب میسور میں شیروں کے شکار پر مختص انعامی رقم کر دی جائے۔ گویا چار دہائیاں ہونے کو آ رہی تھیں لیکن جذبہ انتقام ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹیپو سے جڑی اس نسبت کا قتل عام بھی جاری تھا اور اس پر انعام بھی اور لارڈ صاحب بھی یہ سلسلہ ختم کرنے کا نہیں کہہ رہے تھے بلکہ ان کا مطالبہ صرف اتنا تھا کہ اس انعامی رقم کو ذرا کم کر دیا جائے۔ یہ وہ نفسیات تھی جو بر صغیر میں رعایا کے لیے قانون سازی کرنے جا رہی تھی۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply