• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آنسوؤں سے لکھا ہوا ویزہ پاسپورٹ پر نظر نہیں آتا۔۔اسد مفتی

آنسوؤں سے لکھا ہوا ویزہ پاسپورٹ پر نظر نہیں آتا۔۔اسد مفتی

ان دِنوں یورپ کے اخبارات،پاکستان و بھارت کے باہمی تعلقات کے حوالے سے مضامین شائع کررہے ہیں۔
حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ایک بھارتی اخبار کو دیا گیا انٹر ویو،جس کی ہائی لائٹس کو یہاں (ہالینڈ)کے اخبار نے بھی شائع کیا ہے،کا سیاسی حلقوں اور نیوز رپورٹ (پریس کلب)میں تذکرہ رہا۔ہالینڈ ہی کا ایک نہایت سنجیدہ اور دانشوروں میں مقبول روزنامہ “فوکس کرنٹ”گاہے گاہے اپنے مضامین و تبصروں میں برصغیر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہارکرتا رہتا ہے۔
بھارت اور پاستان کے مابین جاری کشیدگی کے بارے میں اخبار لکھتا ہے
“اگر دونوں ممالک چاہیں تو ہم (یورپی ممالک)مدد کرنے کو تیار ہیں،لیکن بہتر یہ ہے کہ مسائل کا حل دونوں ممالک باہمی طور پر تلاش کریں،پاکستان اور بھارت کے درمیان خوشگوار “تعلقات نہ صرف علاقہ بلکہ ساری دنیا کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسیوں کے تعلقات میں تلخی کے اثرات علاقہ سے باہر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
اخبار آگے چل کر لکھتا ہے،بانی ء پاکستان محمد علی جناح پاکستان ے وجود میں آنے کے بعد برصغیر ے ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا ممکن ہوجائے گا۔انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ویسے ہی تعلقات دیکھنے کے خواہش مند ہیں جیسے تعلقات امریکہ اور کینیڈا کے درمیان ہیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیرمیں پائیداد امن و استحکام و دوستی بے حد ضروری ہے،کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد دنیا کا یہ علاقہ اور بھی خطرناک ہوگیا ہے،جیسے کروڑوں (صحیح تعداد سواارب)انسان بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں،کسی بھی لمحے جنونی سیاستدانوں اور فوجیوں کا توازن بگڑ جائے،تو بستیاں ویران ہوسکتی ہیں،ہنستے کھیلتے،بسے بسائے شہر قبرستانوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ہمالیائی بلندیاں بھارت اور چین کی تجارت میں حائل نہیں ہوسکتیں،تو کیا کارگل کی پستیاں بھارت اور پاکستانی تاجروں اور عوام کی دوستی کا رستہ روک سکتی ہیں۔؟
ہمارے دانشورون کو آج اس مسئلے کا حل نکالنا ہے،
میں سمجھتا ہوں کہ کچھ سال پہلے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی جنوبی ایشیا میڈیا کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔جس کے حوالے سے میں نے اُس وقت لکھا تھا کہ”دراصل ایک بہت ہی احمقانہ قسم کی مسابقت اور تقابل کی منفی ڈور نے ان دونوں ملکوں کے سوچنے والے ذہنوں کے توازن کو متاثر کیا ہے اور سائیکی کو بڑا جھٹکا دیا ہے،نقصان پہنچایا ہے”۔
یہ طے ہے کہ آج نفرت اور دشمنی کے اندھیروں کی جگہ محبت اور دوستی کی روشنی کی ضرورت ہے،اس مقصد کو کس طرح حاصل کیا جائے،یہ سوچنا ہم سب کا کام ہے۔
یہ بات کسی بھی شک و شبے سے بالا،بہت بالا تر ہے کہ پاکستان اور بھارت دو خود مختارممالک ہیں،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری تاریخ،تہذیب و تمدن،اور زبان و ثقافت کے رشتے بہت مضبوط ہیں۔
ہمارے عوام کے جذبات اور احساسات ایک ہیں،تو ہمارے دل بھی ایک ہوسکتے ہیں۔جہاں ہمارے مسائل ایک ہیں،وہاں وسائل بھی ایک جیسے ہوسکتے ہیں۔
ادب اور شاعری کے موضوعات بھی وہی ہیں،اور فلسفہ وفکر و فن کے ہمارے پیمانے بھی وہی ہیں۔ہمارادو ر و کرب بھی ایک،خوشی و غمی بھی ایک ہے۔
ہمارے خواب بھی ایک جیسے ہیں۔ان خوابوں کی تعبیریں بھی ایک ہوسکتی ہیں۔۔۔
اگر ہم اپنے دلوں سے کدورت و نفرت کا میل دھو ڈالیں۔
ہم دونوں ملکوں،ملکوں کے عوام کی دوستی اس خطہ میں جسے “براعظم”کہتے ہیں،پائیدار اور امن و سلامتی کی ضامن ہوگی۔
ذرا ہمارے ہندوستانی بہن بھائی اس بات پر غور کریں کہ نورجہاں کے نغموں،فیض،فراز،اور قتیل کی غزلوں کے بغیر ان کا ادب و فن مکمل ہوسکتا ہے؟
کیا مہدی،غلام علی،نصرت فتح علیخان کی آواز سے بھارت کا کوئی گھر “بچا”ہوا ہے۔
کیا پاکستان کی ہر بستی کی ہر گلی کے ہر گھر سے محمد رفیع،لتا منگیشکر،طلعت محمود اور آشا بھوسلے کی آوازیں صبح شام اور شام سے رات گئے تک کانوں میں نہیں پڑتیں؟
اور کیا دلیپ کمار اور لتا پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک پُل کا کام نہیں دے رہے؟
74برسوں سے ہم لڑتے بھڑتے رہے،ایک مسئلہ بھی حل نہ کرپائے،بلکہ مسائل کے ڈھیر میں اضافہ پہ اضافہ کرتے چلے گئے۔
اتنی جنگوں کے بعد اب وقفہ امن ضروری ہے۔تاکہ ہم پھر لڑ سکیں۔۔۔جہالت اور بیماری کے خلاف،مفلسی اور محتاجی کے خلاف،تعصب اور تنگ نظری کے خلاف، یہ جنگ ہمیں مل کر موڈھے سے موڈھا ملا کر لڑنی پڑے گی،جس کے بغیر ہم لاکھ کوشش کریں،کامیابی اور ترقی کا ایک زینہ نہیں چڑھ سکتے۔
آج دونوں ملکوں کو ایک پیس فاؤنڈیشن،امن کمیٹی،پریم سبھا،فرینڈ شپ سوسائٹی اور بھائی چارہ پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے،کہ عوام کو قریب لایا جاسکے،کہ ہم تباہی و بربادی،تخریب کاری کی راہ چھوڑ کر تعمیر و ترقی اور تعاون و عمل کی راہ اختیار کرسکیں۔
اس مقصد کے لیے جہاں دونوں ملکوں میں جدوجہدکی ضرورت ہے،میڈیا کانفرنسوں کی ضرورت ہے،بیرون ملک بھی ہماریدانشوروں،قلمکاروں،شاعروں،صحافیوں،فنکاروں کے علاوہ تاجروں،صنعت کاروں اور عوام کو مل جل کر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے اتحاد،بھائی چارہ،یکجہتی اور یگانگت کو فروغ ملے۔باہمی احترام اور تعاون کا جذبہ ترقی کرے۔
دونوں ممالک میں انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والوں کو انسانیت کی شمع جلانے والوں کو اعزازات دیے جانے چاہئیں،ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ جمہوری ملک بھارت کے وزیراعظم اور انکے عقاب اور ادھر اسٹبلشمنٹ و پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے جہاں دوسرے محاذ کھول رکھے ہیں،اس امن کے محاذپر بھی غور فرمائیں،کہ ہم دوستوں و دشمن بنانے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں،لیکن دشمنوں کو دوست بنانے کی اہلیت حاصل نہ کرسکے۔
آج آپ کو اپنے ضمیر کی آواز پر توجہ دینی ہوگی،
تمہاری خیر ہوآگے بتاؤ کیا ہوگا
رُکا ہوا ہے اس قافلہ بہاروں کا

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply