چنار اور خزاں- فلرٹ ہیں/سلیم زمان خان

وہ میرے قریب آئی۔۔ اتنے قریب کہ اس سرد موسم میں اس کے سانس کی بھاپ میرے چہرے کو گرمانے لگی پھر وہ سرگوشی سے بولی ۔۔
“ذہ تا سرہ ڈیر مینہ کوم” میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ۔۔ مجھے ہنسی آگئی۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔۔ جھلی اس کا مطلب کیا ہے۔۔ اس کے گالوں پر اس وقت چنار کے پتوں جیسی سرخی تھی۔۔ خزاں کے موسم میں صرف چنار کے پتے گرنے سے پہلے شعلوں کی طرح دھکتے ہیں۔۔
وہ بولی۔۔ ہم یہاں کی لڑکیاں بمشکل کسی کو یہ کہہ سکتی ہیں کہ” میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں”
میں نے ایک قہقہہ لگایا اور اسے کہا پاگل پیار کوئی لفظوں کی انتاکشری تھوڑی ہے۔۔ یہ تو فعل ہے کر کے دکھانے کا۔۔ تم کہتی ہو ۔۔ تمہیں یہ کہنا بہت مشکل لگتا ہے۔۔ میں کہتا ہوں ۔۔ جب لڑکا یا لڑکی ان الفاظ پر آجائے تو سمجھو محبت ختم ہو رہی ہے۔
اس نے میری طرف گھور کر دیکھا اور کچھ کہہے بغیر اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں پانی بھر آیا اور پلکوں کے کونوں پہ دو بوندیں گرنے کو مچلنے لگیں۔۔ خاموشی سے پہلے مجھ سے دور ہوئی پھر جانے کو اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ جاتے ہوئے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔۔ تو میں نے اس کی کلائی پکڑ لی۔۔ اس نے ایک مصنوعی سا زور لگایا جیسے کلائی چھڑانا نہ چاہتی ہو۔۔ میں نے اسے اپنی جانب سمیٹتے ہوئے کہا سنو تو ۔۔ میں نے کب کہا کہ تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔میں نے تو قدرت کا آفاقی اصول بتایا۔۔ قرآن کہتا ہے نا ۔۔
“اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو،اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے”
اس نے منہ دور پہاڑوں کی جانب سرکتے سورج کی جانب پھرا اور کہنے لگی۔۔ میں جھوٹی نہیں ہوں۔۔۔
جب سورج ڈھل رہا ہو اور چہرہ جذبات کی حدت سے سرخ ہو رہا ہو۔۔۔ اور ہوں بھی آمنے سامنے تو چہروں میں انگارے بھر جاتے ہیں۔۔ میں نے ان انگاروں کو اپنے دنوں ہاتھوں سے تھام کر اسے کہا۔۔ تم جانتی ہو مجھے ،خزاں کا موسم اور چنار بہت اچھے لگتے ہیں۔۔
ہاں ۔۔ اس نے میرے چہرے کی قربت کو محسوس کرتے ہوئے نظریں جھکا کر کہا۔۔
کبھی تم نے پوچھا نہیں کیوں ؟؟ اچھے لگتے ہین۔۔ مجھے یہ سب۔۔!!! میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔
اس کی دونوں آنکھوں کے اَبْرُو اور ان کے درمیان کے خال نے مچل کر پوچھا کیوں۔۔
بڑے بڑے ناول نگار اور ادب شناس چنار کے درخت اور خزاں کو محبت کی داستانوں میں وفا و فراق کا نام دیتے ہیں۔۔ لیکن میرے نزدیک چنار اور خزاں دونوں ہی فلرٹ کرتے ہیں۔۔ دونوں کے جذبات میں جھوٹ اور دکھاوا ہے۔۔
وہ کیسے۔۔۔!!! اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔۔۔
میں نے دور جاتے سورج کو غور سے دیکھا کیونکہ اب وہ غروب ہو رہا تھا تو اس سے آنکھیں ملائی جا سکتی تھیں۔۔ غروب ہونا بھی کس قدر کرب ناک ہے ۔۔ زمین پر رینگتے کیڑے مکوڑے جیسے انسان بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔۔
اس نے مجھے جھنجھوڑا۔۔ بولی کہاں چلے گئے۔۔!!!
میں نے لوٹ کر اسے دیکھا ۔۔ اس کے گالوں کی سرخی مزید بڑھ رہی تھی جیسے کوئلے خوب دھک جائیں اور ان کے شعلے ماند پڑھ جائیں ۔۔ اب صرف سورج اس کی آنکھوں میں چمک رہا تھا۔۔
میں نے کہا۔۔ چنار محبت کی نہیں دھوکہ بازی کی علامت ہہے۔۔ دیکھونا!!! سب درخت بہت دیر سے ہرے ہوتے ہیں۔۔ اور بہت خاموشی سے اپنا پت جھڑ گزار دیتے ہیں۔۔
لیکن چنار۔۔ سب سے پہلے موسم کا اثر قبول کرتا ہے۔۔ اور اس اثر کو رودالیوں کی طرح سب کو بتاتا ہے۔۔ اپنے پتوں سے ماتم کرتا ہے ،خزاں کی آتے ہی اس کے پتے رنگ بدل بدل کر لوگوں کو چیخ چیخ کر بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم جان دینے والے ہیں۔۔ پھر جب یہ پتے زمین پر گر بھی جائیں تو ایک بے وفا معشوق کی طرح ہر آہٹ پر چرچراتے ہیں۔۔ آہیں بھرتے ہیں۔۔ ماتم کرتے ہیں، چاہے سرد ہوا چلے ،یا رات کے سناٹے میں کسی کا دبے پاوں گزر ہو ۔۔ یہ سوگ کے گیتوں سے ماحول میں ارتعاش پیدا کر دیتے ہیں۔۔ اور پھر ایکدم تمام پتوں یعنی بیتی باتوں اور یادوں کا بوجھ زمین پر ڈال دیتے ہیں۔۔ اور پھر ہر آنے والے قدم پر چند روز ماتم کرتے نظر آتے ہیں ۔۔ اردگرد کے درخت اس آہ وبکا سے بہت دکھی ہوتے ہیں سوائے صنوبر کے کہ وہ چنار کے اس ہیجان کا بڑی بردباری سے مشاہدہ کرتا ہے۔۔ پھر کچھ دنوں بعد چنار اپنی یادیں جھٹک کر تنہا کھڑا ہو جاتا ہے۔۔جیسے اسے بیتے موسم اور گزری یادوں سے کوئی سروکار ہی نہ ہو۔۔ اور آمد بہار سے پہلے ہی وہ امید کی کومپلیں پھر سے نکال کر لہلانا شروع کر دیتا ہے۔۔ اور پھر وہی جوبن اور وہی اس کے پتوں کا لمس لوگوں کو متوجہ کرنے لگتا ہے۔۔
اس نے میری طرف اداس نظروں سے دیکھا اور پوچھا ۔۔ خزاں بھی تمہیں دھوکے باز لگتی ہے؟؟
ہاں۔۔۔
وہ کیوں ۔۔ وہ بولی
اس لئے کہ خزاں دو موسموں کے درمیان کا لمحہ ہے۔۔ جس میں انسان دو کشتیوں کا سوار رہتا ہے۔۔ کبھی ماضی کی گرمیاں اور کبھی مستقبل کے اندیشوں کی سرد مہری ۔۔ ان کے درمیاں ایک بے برگ اور زرد زندگی ۔۔۔ وفا تو میری جان پرجوش ہوتی ہے۔۔ اسے مصنوعی آگ سے تاپنا تو نہیں ہوتا نا۔۔ اب دیکھو۔۔ میرے ہاتھ کتنے گرم ہیں اور تمہارا چہرا کتنا ٹھنڈا۔۔۔ اتنے ٹھنڈے چہرے اور بنفشی ہونٹوں سے جزبات کی حدت نہیں۔۔ لمحات میں زندہ رہنے کی سرد مہری ہے۔۔ پھر ان سرد بجھے الفاظ سے کہ ” زہ تا سرہ ڈیر مینہ قوم” میں پیار کی حدت کا تاثر کیسے قائم کر لوں جبکہ تمہاری انکھوں کی پتلیوں کا میرے چہرے پر رقص مستقبل کے اندیشوں کا اشارہ ہے۔۔۔ میرے لئے یہ الفاظ کا ایک ریلا چنار کے پتوں کی طرح صرف اپنے ہونے کا احساس دلانا ہے ۔۔ یا خزاں کے موسم میں آنے والے خدشات کی تسلی۔۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔
اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔۔ اور چل پڑی۔۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔۔ اب اس کا ہیولا چنار کے پتوں کو مسلتا جارہا تھا۔۔اور پتے ماتم کرنے والی جزبات سے عاری عورتوں ( رودالی) کی طرح اس سال کا الوداعی ماتم کر رہے تھے۔۔۔ اور شاید یہی زندگی کی حقیقت ہے۔۔

(راجھستان کے کچھ علاقوں میں کم تر ذات کی عورت بڑی ذات کے مرنے والوں پر پیسوں کے عوض روتی ہیں۔ ان پیشہ ور رونے والیوں کو رودالی کہا جاتاہے۔)

Advertisements
julia rana solicitors london

سلیم زمان خان
نومبر 2023۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply