امریکی انتخابات اور میری واپسی/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
ان ہی دنوں ایک نیوز چینل پر خبریں سنتے ہوئے میری آنکھیں، حیرت اور ایک انجان قسم کی خوشی کے احساس کے ساتھ پھیل گئی تھیں۔ یمن کی بندرگاہ میں لنگر انداز امریکی بحریہ کے ایک جنگی جہاز پر کچھ لوگوں نے ایک کشتی کے ذریعے خود کش حملہ کیا تھا۔ تب تک بین الاقوامی دہشت گردی کی اصطلاح وضع نہیں ہوئی تھی۔ امریکہ کی فوج کے خلاف کی گئی دہشت گردی کو چھاپہ مار جدوجہد خیال کیا جاتا تھا۔ مجھے خوشی کا جو احساس ہوا تھا وہ اسی لیے کہ کسی نے امریکی ہاتھی کی سونڈ پہ بھی کاٹا تھا چاہے وہ سونڈ پر سوئی چبھنے جتنی ہی تکلیف کیوں نہ تھی۔ اس خبر میں پہلی بار “القاعدہ” نام کی کسی جنگجو تنظیم کا ذکر ہوا تھا مگر تب یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس تنظیم کا سربراہ امریکہ کا ہی پیدا کردہ مجاہد اعظم اسامہ بن لادن تھا۔

ویسے بھی ان دِنوں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہو رہے تھے۔ ڈیموکریٹس کی جانب سے کلنٹن کے دور ِصدارت کے نائب صدر الگور امیدوار تھے جبکہ ریپبلکن کی جانب سے جارج بش جونیئر۔ لگتا یہی تھا کہ الگور جیت جائیں گے مگر جارج بش کی پوزیشن بھی کمزور نہیں تھی۔ مجھے موقع میسّر آ گیا تھا کہ امریکہ کے انتخابات کا جائزہ لے سکوں۔ امریکی میڈیا کی ایک خوبی ہے کہ اگر تمام نہیں تو دونوں بڑی پارٹیوں کو اپنے موقف، اپنے سروے اور اپنے جائزے پیش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے یوں ضرورت نہیں رہتی کہ کوئی گراؤنڈ پہ جا کر لوگوں کے تاثرات لے اور نتیجہ اخذ کرے تاحتٰی بین السطور دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، سب کچھ عیاں ہوتا ہے۔ میری ہمدردیاں لا محالہ الگور کے ساتھ تھیں اگرچہ الگور کی زیادہ توجہ ماحولیات کے معاملات پر تھی۔ بش کی جانب رغبت نہ ہونے کا ایک سبب ریپبلکنز کا کنزرویٹیو ہونا تھا دوسرا سبب خود بش جونیر کے غیر سنجیدہ جوابات و بیانات اور ہونقانہ سی مسکراہٹ تھی۔

سہیل چونکہ ریستوران میں رات کو منیجر کے فرائض سرانجام دیا کرتا تھا اس لیے وہ مجھ سے ملنے یا ویسے ہی اپنے بھائی سعد کی جانب آنے کے لیے نیند پوری کرنے کے بعد کے وقت کا انتخاب کیا کرتا تھا یعنی کوئی چار پانچ بجے سہ پہر پہنچا کرتا مگر اس روز وہ صبح نو بجے ہی سعد کے ہاں پہنچ گیا تھا۔ میں نہا دھو کر کوئی پونے دس بجے جب دوسری منزل سے نیچے اترا تب سہیل لاونج میں ایک کاؤج پر نیم دراز خبریں دیکھ رہا تھا۔ ماموں پر نظر پڑتے ہی اس نے بتایا تھا،” ابا جی اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں”۔ میرے بہنوئی اور سعد و سہیل کے والد محمد ظفیر ندوی صاحب مریض تو تھے لیکن ٹیلیفون پر ہونے والی گفتگو  سے کبھی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ رخصت بھی ہو سکتے تھے۔ شاید ان کے گھر والے سات سمندر پار امریکہ میں بیٹھے ہوئے عزیزوں کو زیادہ پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔مجھے ان کے ساتھ گذرے تمام سرد و گرم ادوار یاد آ رہے تھے۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے اور سہیل بھی اپنے آنسو پونچھنے لگا تھا۔ میں نے سہیل کو گلے سے لگا لیا تھا۔ اتنے میں نذہت بھی آ گئی تھی۔ ہم بہت دیر تک مرحوم کے بارے میں باتیں کرتے رہے تھے۔

نومبر کا اواخر تھا۔ سہیل نے خود ہی مجھ سے پوچھا تھا “آپ کب جانا چاہتے ہیں” میں نے کہا تھا سعد کو لوٹ لینے دو۔ سہیل نے کہا تھا “آپ ٹکٹ کی فکر نہ کرنا، ٹکٹ میں لے دوں گا”۔ میرے دل سے بوجھ اتر گیا تھا۔ الیکشن ہوا تھا اور امریکہ کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار ایک سکینڈل کھڑا ہو گیا تھا کہ کمپیوٹرائزد ووٹنگ کی گنتی درست طور نہیں ہوئی۔ یہ شکایت ری پبلیکنز کی جانب سے آئی تھی۔ تصفیہ ہونے کی خاطر ووٹوں کی ہاتھوں سے گنتی کیے جانے کا طے ہوا تھا۔ اتنے بڑے امریکہ میں یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ امریکہ میں انتخابات کے نتائج کا جو گھمچال مچا تھا وہ میرے لیے موجب دلچسپی تھا۔ ایسے میں مجھے یاد آیا تھا کہ ایک بار جب میں کسی محفل میں بیٹھا بتا رہا تھا کہ جب میں نے سعودی عرب جانے کا سوچا تو شاہ فیصل کو ایک شہزادے نے قتل کر دیا تھا۔ ایران جانے کی خاطر انٹرویو دیا تو وہاں انقلاب آگیا تھا۔، اس پر میرے دوست چودھری الیاس کے سب سے بڑے بھائی جنہیں سب حاجی صاحب کہا کرتے تھے، نے کہا تھا،”بھئی اسے امریکہ بھیجو تاکہ وہاں کا بھی بیڑا غرق ہو” اس بات پر وہاں موجود سب لوگوں کا قہقہہ چھوٹ گیا تھا۔ میری امریکہ میں موجودگی کے دوران نہ صرف امریکی بحریہ کے جنگی جہاز کو گذند پہنچا تھا بلکہ انتخابات کے نتائج بھی مشکوک ہو گئے تھے۔

سعد لوٹ آیا تھا۔ وہ اپنے والد کی وفات پر بہت غمگین تھا۔ میری رفاقت سے اس کا غم کم ہونے میں کچھ زیادہ عرصہ نہیں لگا تھا۔ اب میں نے مناسب جانا تھا کہ واپسی کا ٹکٹ خرید لیا جائے۔ میں سہیل کے ہمراہ نیویارک سٹی میں ایک پاکستانی ٹریول ایجنٹ سے ٹکٹ خریدنے گیا تھا۔ اتفاق تھا کہ مجھے اسی تاریخ کا ٹکٹ ملا تھا جس تاریخ کو میں ایک برس پیشتر امریکہ آیا تھا یعنی تیرہ دسمبر کی تاریخ کا۔

Advertisements
julia rana solicitors

13  دسمبر کو سعد نے مجھے کینیڈی انٹرنیشنل ایر پورٹ پر الوداع کہا تھا مگر اس سے پہلے یہ کہنا نہیں بھولا تھا کہ نہ جاتے تو اچھا تھا۔ میں سعد کے خلوص کے جواب میں بس مسکرا کر آگے بڑھ گیا تھا۔ امیگریشن پر جو سیاہ فام خاتون بیٹھی تھی اس نے مسکرا کر انٹری فارم لے کر رکھ لیا تھا اور ماتھے تک ہاتھ لے جا کر الوداع کہہ دیا تھا۔ کہیں بھی کوئی چیکنگ نہیں تھی، نہ کہیں کچھ اتارنا پڑا تھا، میں جیسے بازار میں چلتا ہوا ڈیپارچر لاؤنج پہنچ گیا تھا۔ ایر لائن کے ایل ایم کی پرواز تھی۔ ساڑھے سات گھنٹے بعد ایمسٹرڈٰم کے شپ ہول انٹرنیشنل ایر پورٹ کی شیطان کی مانند طویل راہداریوں میں چلتے ہوئے میری نظر اوپر لگے ایک ٹی وی سیٹ کی سکرین پر پڑی تھی۔ سی این این کی خبروں میں بتایا جا رہا تھا کہ الگور کے مقابلے میں بہت کم سبقت لے کر جارج بش جونیر کو امریکہ کا صدر منتخب کر لیا گیا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply