کرونا کا شکریہ۔۔ زہرا نعمان

آپ کو اردو آتی ہے؟ اس کی آنکھوں میں آئے آنسو بتا رہے تھے کہ وہ اس سوال کا جواب صرف “جی/ہاں” میں سننا چاہتی تھی۔
میں اپنی روٹین میں ہفتہ وار گروسری کے لئے قریبی قصبہ کی سپر مارکیٹ میں مکھن کی اقسام پہ غور کرتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ اب کی بار ذرا تبدیل کر کے دیکھتی ہوں۔۔۔گائے کے دودھ سے بنے مکھن کے ذائقہ میں کتنا ہی فرق ہوگا۔ ایک کمپنی سے دوسری کمپنی میں، کیا صرف نام کا فرق ہوتا ہے؟ خود سے باتیں کرتے،میں نے کالے  رنگ کے پُرانے  سے برقع میں لپٹی ایک خاتون کو دیکھا،جو گم سُم کھڑی تھیں ۔یہ چھوٹا سا ٹاؤن مقامی لوگوں (انگریزوں) کی اکثریت کا ہے اور بہت ہی کم کوئی دیسی چہرہ نظر آتا ہے۔ مجھ سمیت تین یا چار ہی دوسرے انڈین یا پاکستانی نظر آتے ہیں اور ہم اب ایک دوسرے کو پہچان کر دور دور سے مسکرا دیتے ہیں،مگر ان خاتون کو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔

اتنے میں میری اور ان کی نظریں ملیں۔۔۔میں نے گھبرا کر سلام کر دیا اور شرمندہ ہو کر نگاہیں نیچی کر لیں کہ وہ کیا سوچ رہی ہونگی کہ میں ان کو کیوں گھورے جا رہی تھی۔ وہ جیسے سلام کے ہی انتظار میں ہوں ۔تقریباً دوڑتی ہوئی میرے پاس آئیں اور پوچھا،آپ کو اردو آتی ہے؟ ان کا لہجہ سرائیکی تھا، ان کی آنکھوں میں ٹھہرے آنسو کہہ رہے تھے کہ جواب بس ہاں میں ہو۔۔میں نے ہنستے ہوئے کہا جی آتی ہے۔۔۔میرا نام زہرا ہے ۔۔۔آپ کو کوئی مدد چائیے؟

وہ مجھ سے شاید کچھ سال ہی بڑی ہوں یا شاید ہم عمر مگر ان کے گندمی چہرے پہ جیسے کچھ سال رُک سے گئے تھے۔ اپنے ہاتھوں میں تھامے شاپنگ بیگز زمین پہ رکھ کر اپنے برقع کی جیب سے چھوٹا سا بٹوہ نکالا اور کہا کہ مجھے جو کچھ لینا ہے،میں ان کو دیکھ کے تو بتا سکتی ہوں کہ کس کمپنی کی بنی ہیں مگر نام نہیں لے سکتی۔ پڑھی لکھی نہیں ہوں نا۔۔۔مطلب اَن پڑھ بھی نہیں ہوں مگر انگلش نہیں پڑھ سکتی۔

میں نے کہا آپ یہاں سکپٹن میں رہتی ہیں کیا؟
آپ کو کبھی دیکھا نہیں۔
میرا سوال جیسے انہوں نے سُنا ہی نہ ہو اور عذرا جو بھکر کے پاس کسی گاؤں سے آئی تھیں ۔ڈرتے ڈرتے کہنے لگیں اگر آپ میرے ساتھ خریداری کروا دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ میں ان کو ترتیب وار مختلف aisles میں لے گئی۔ ہم نے ڈیری سے شروع کیا۔ ان کو پتہ تھا کہ ان کو کون سی کمپنی کا دودھ یا دھی یا مکھن لینا ہے۔ وہ گائے کی تصویر کے رنگ سے سب پہچان رہیں تھی۔ میں ان کی ٹرالی میں جگہ بناتی جارہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنی خریداری بھی کر رہی تھی۔
میں نے عذرا سے دوبارہ پوچھا۔۔۔آپ کیا یہاں ہی رہتی ہیں؟
جس کے جواب میں اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا ہاں یہاں ہی رہتی ہوں۔۔۔میں نے کہا کبھی دیکھا نہیں آپ کو تو اس لئے پوچھا۔  وہ چپ چاپ چیزیں لے رہیں تھی۔۔۔جب ہم آخری aisle میں پہنچیں تو انہوں نے مجھے جھجکتے ہوئے کہا۔ آپ کس دن یہاں آتی ہیں؟ میں نے بتایا کہ کوئی دن مقرر نہیں ہے۔ جب جس چیز کی ضرورت ہو،تبھی آ جاتی ہوں ۔اب کرونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہی تو باہر کی دنیا سے رابطہ ہے۔ وہ مسکرائی اور کہا ہاں یہ کرونا بہت بڑی نعمت ہے۔ میں نے حیرت سے عذرا کی طرف دیکھا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے چُپ ہوگئی۔

کاؤنٹر کے پاس جا کر انہیں بتایا کہ اس لائن میں آپ کسٹمر اسسٹنٹ کی مدد لے سکتی ہیں اور اگر خود ادائیگی کرنی ہے تو وہ سیلف سروس ہے۔ وہاں آپ چیزوں کو سکین کرتی جائیں گی اور آخر میں کارڈ سے پے کر دینا ۔عذرا بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگی مجھے زبان نہیں آتی ۔اگر آپ مجھے بتا دیں کہ سیلف سروس کیسے ہوتی ہے تو مجھے کسی سے بات نہیں کرنی پڑے گی۔ آج تو آپ مل گئیں۔۔۔ہر دفعہ تو ایسا نہیں ہوگا،مجھے ایک دفعہ سمجھا دیں، مجھے چیزیں یاد رہتی ہیں، میں نے کہا کہ چلیں میں پہلے اپنی ادائیگی کرتی ہوں اور پھر آپ کی۔۔تاکہ آپ دو دفعہ دیکھ لیں ۔

میں چیزیں سکین کرتی گئی اور عذرا بہت غور سے دیکھتی رہی ۔جب میں نے اپنی خریداری بیگز میں ڈال دی تو عذرا نے کہا کہ میں آپ کو زیادہ تکلیف نہیں دینا چاہتی ۔بس آخری پانچ منٹ۔۔آپ مجھے دیکھتی جائیں کہ میں ٹھیک کر رہی ہوں یا نہیں ۔میں نے کہا مجھے کوئی دِقت نہیں، آپ سکین کرنا شروع کریں، وہ اپنی چیزیں سکین کرنا شروع ہو گئیں، اُس سامان کی مقدار سے لگ رہا ہے تھا کہ ان کا خاندان کافی بڑا ہے، میں ان کی سامان رکھنے میں مدد کرتی جارہی تھی، جب سارا سامان ہو گیا تو ان کو  کارڈ سے ادائیگی کا طریقہ سمجھایا اور ہم سامان کی ٹرالیاں لے کر باہر آگئیں۔

میں نے پوچھا آپ کی  گاڑی کہاں ہے ۔کہنے لگیں  میں پیدل آئی ہوں۔ یہاں پاس میں ہی گھر ہے۔ ان کا سامان بہت زیادہ تھا ۔میں نے کہا کہ ہم چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔عذرا مسکراتے ہوئے کہنے لگیں ، نہیں، میں خود چلی جاؤں گی۔۔۔آرام آرام سے، رُکتے رُکتے۔یہ کرونا بڑی نعمت ہے۔۔۔۔جب سب بند ہوگئے تو میں آزاد ہوگئی۔۔۔میرے سسرال میں سے اب کوئی ضرورت کے علاوہ باہر نہیں نکلتا ۔تو ساری خریداری میں ہی کروں گی اب سے۔ پچھلے 12 سال سے میں کبھی دھوپ لینے کے لئے بھی باہر نہیں نکلی تھے۔ بس زیادہ سے زیادہ پچھلے صحن میں کوڑا پھینکنے چلی گئی یا جب کوڑے والا ٹرک آیا تو کوڑے کا ڈرم اندر اور باہر رکھنے۔ میں بڑی خوش ہوں طاہرہ باجی اس کرونا سے ۔اللہ کرے یہ پابندی تب تک ختم نہ ہو جب تک مجھے انگلش نہ آ جائے ۔دیکھیں نا  زبان تو بولنے سے ہی آتی ہے ۔مجھے بڑا اچھا لگا آپ سے مل کر۔۔۔شکر ہے آپ نے میری مدد کی،میں آپ کے آنے سے پہلے 20 منٹ کھڑی رہی کہ کہاں سے شروع کروں۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔میرا نام طاہرہ نہیں زہرا ہے۔ اور اب میں بھی دعا کروں گی کہ کرونا تب تک ختم نہ ہو۔۔۔جب تک آپ انگلش نہ سیکھ لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پسِ تحریر : مجھے آج مئی 2020 کے بعد عذرا پھر نظر آئیں۔۔۔ان کا برقع وہی پرانا سا تھا،مگر چال میں اعتماد تھا،مجھے ماسک سے بھی انہوں نے پہچان لیا اور طاہرہ باجی،طاہرہ باجی کہتی ہوئی۔۔۔مجھ سے لپٹ گئیں ۔پھر ہم نے گروسری اکٹھی کی ۔البتہ عذرا کو ہر اس برانڈ پہ اعتراض تھا جو میں لے رہی تھیں۔ وہ کسی ماہر کی طرح مشورے دے رہی تھیں۔
میں آج یہ بھی نہ کہہ سکی کہ میرا نام طاہرہ نہیں زہرا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply